پیر 22 دسمبر 2025 - 17:11
نہج البلاغہ کی رو سے تعریف اور اس کے اصول و ضوابط

حوزہ/ تعریف (مدح و ثنا) انسانی معاشرت کا ایک فطری عمل ہے۔ انسان حسنِ اخلاق، کردار اور کارکردگی کو دیکھ کر تعریف کرتا ہے اور یہ تعریف اگر اپنے صحیح اصولوں کے تحت ہو تو انسان کی اخلاقی تربیت اور معاشرتی استحکام کا ذریعہ بنتی ہے، لیکن اگر یہی تعریف حدود سے تجاوز کر جائے تو خوشامد، خود پسندی، غرور اور اخلاقی زوال کا سبب بن جاتی ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی|

تمہید

تعریف (مدح و ثنا) انسانی معاشرت کا ایک فطری عمل ہے۔ انسان حسنِ اخلاق، کردار اور کارکردگی کو دیکھ کر تعریف کرتا ہے، اور یہ تعریف اگر اپنے صحیح اصولوں کے تحت ہو تو انسان کی اخلاقی تربیت اور معاشرتی استحکام کا ذریعہ بنتی ہے۔ لیکن اگر یہی تعریف حدود سے تجاوز کر جائے تو خوشامد، خود پسندی، غرور اور اخلاقی زوال کا سبب بن جاتی ہے۔

نہج البلاغہ—جو امام علی علیہ السلام کی حکمت، اخلاق اور انسانی بصیرت کا عظیم ذخیرہ ہے—تعریف کے درست مفہوم، اس کے فوائد، خطرات اور حدود کو نہایت جامع انداز میں واضح کرتی ہے۔

1۔ اصل عزت: مال نہیں، سچا ذکرِ خیر

امام علیؑ فرماتے ہیں:«لِسَانُ الصِّدْقِ يَجْعَلُهُ اللهُ لِلْمَرْءِ فِي النَّاسِ خَيْرٌ لَهٗ مِنَ الْمَالِ يُوَرِّثُهٗ غَيْرَهٗ»

اللہ جس شخص کا سچا ذکرِ خیر لوگوں میں باقی رکھتا ہے، وہ اس مال سے کہیں بہتر ہے جو وہ دوسروں کو ورثے میں دے جاتا ہے۔

یہ قول اس حقیقت کو واضح کرتا ہے کہ اصل تعریف وہ ہے جو خدا کی طرف سے، سچائی کے ساتھ لوگوں کی زبانوں پر جاری ہو۔ ایسی تعریف انسان کے مرنے کے بعد بھی باقی رہتی ہے، جبکہ مال فنا ہو جاتا ہے۔

2۔ نرم خوئی: مقبول تعریف کی بنیاد

امامؑ فرماتے ہیں:«مَنْ تَلِنْ حَاشِيَتُهُ يَسْتَدِمْ مِنْ قَوْمِهِ الْمَوَدَّةَ»

جو شخص نرم مزاج ہوتا ہے وہ اپنی قوم کی محبت کو ہمیشہ باقی رکھتا ہے۔

یہ تعلیم دیتی ہے کہ انسان کو اگر لوگوں کے دلوں میں جگہ چاہیے تو اس کا ذریعہ نرمی، اخلاق اور حسنِ سلوک ہے نہ کہ زبانی خوشامد۔

3۔ نعمت اور تعریف: غرور کا امتحان

امام علیؑ دعا کرتے ہیں:«نَسْأَلُ اللهَ… أَنْ لَا تُبْطِرَهُ نِعْمَةٌ»

ہم اللہ سے دعا کرتے ہیں کہ نعمتیں ہمیں سرکش نہ بنا دیں۔

تعریف بھی ایک نعمت ہے۔ اگر انسان تعریف پا کر خود پسندی میں مبتلا ہو جائے تو وہ ہلاکت کے راستے پر آ جاتا ہے۔

4۔ خود احتسابی: تعریف کا توازن

امامؑ فرماتے ہیں:«زِنُوا أَنْفُسَكُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ تُوزَنُوا»

اپنے نفسوں کو خود تول لو اس سے پہلے کہ تمہیں تولا جائے۔

یہ اصول سکھاتا ہے کہ انسان کو دوسروں کی تعریف پر نہیں بلکہ اپنے محاسبے پر اعتماد کرنا چاہیے۔

5۔ خود پسندی: تعریف کی سب سے بڑی آفت

نہج البلاغہ میں خود پسندی کو عقل کا دشمن قرار دیا گیا ہے:«اَلْإِعْجَابُ ضِدُّ الصَّوَابِ وَآفَةُ الْأَلْبَابِ»

خود پسندی درست راستے کے خلاف اور عقل کی آفت ہے۔

اور فرمایا:«عُجْبُ الْمَرْءِ بِنَفْسِهِ أَحَدُ حُسَّادِ عَقْلِهِ»

یعنی حد سے بڑھی ہوئی تعریف انسان کو عقل سے محروم کر دیتی ہے۔

6۔ حد سے زیادہ تعریف: خوشامد

امام علیؑ واضح معیار بیان کرتے ہیں:«اَلثَّنَاءُ بِأَكْثَرَ مِنَ الْاِسْتِحْقَاقِ مَلَقٌ»

حق سے زیادہ تعریف خوشامد ہے۔

اور حق سے کم تعریف کو حسد یا کم فہمی قرار دیتے ہیں۔ یہ قول تعریف کا سنہری اصول ہے۔

7۔ حکمرانوں کے لیے خاص تنبیہ

امامؑ فرماتے ہیں:«إِنَّ مِنْ أَسْخَفِ حَالَاتِ الْوُلَاةِ… حُبَّ الْفَخْرِ»

نیک لوگوں کے نزدیک حکمرانوں کی سب سے ذلیل حالت یہ ہے کہ وہ فخر اور تعریف پسند کرنے لگیں۔

یہ اصول ہر صاحبِ منصب کے لیے رہنما ہے۔

8۔ سچائی، نجات اور عزت

امامؑ فرماتے ہیں:«اَلصَّادِقُ عَلَى شَفَا مَنْجَاةٍ وَكَرَامَةٍ»

سچا انسان نجات اور عزت کے کنارے پر ہوتا ہے۔

سچائی پر مبنی تعریف انسان کو عزت تک پہنچاتی ہے۔

9۔ زبان: تعریف کا سب سے نازک آلہ

امام علیؑ بار بار زبان کی حفاظت پر زور دیتے ہیں:«اَللِّسَانُ سَبُعٌ إِنْ خُلِّيَ عَنْهُ عَقَرَ»

زبان درندہ ہے، اگر کھلی چھوڑ دی جائے تو پھاڑ کھاتی ہے۔

اسی لیے فرمایا:«فَاخْزُنْ لِسَانَكَ كَمَا تَخْزُنُ ذَهَبَكَ»

تعریف ہو یا تنقید—دونوں میں زبان کا ضبط لازم ہے۔

10۔ بہترین تعریف: عملی نمونہ

امام علیؑ فرماتے ہیں:«أَرَيْتُكُمْ كَرَائِمَ الْأَخْلَاقِ مِنْ نَفْسِي» میں نے تمہیں اخلاقِ عالیہ اپنے عمل سے دکھائے ہیں۔

نہج البلاغہ کے مطابق عملی کردار سب سے بڑی تعریف ہے۔

نتیجہ:

نہج البلاغہ کی روشنی میں یہ حقیقت بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ:

• تعریف حق پر مبنی ہو

• اعتدال کے ساتھ ہو

• اصلاح کا سبب بنے

• خوشامد، مبالغہ اور خود پسندی سے پاک ہو

ایسی تعریف انسان کو بلند کرتی ہے، جبکہ بے جا تعریف انسان کو گرا دیتی ہے۔

امام علی علیہ السلام کی تعلیمات ہمیں یہ سکھاتی ہیں کہ اصل عزت تعریف سننے میں نہیں، بلکہ کردار، سچائی اور تواضع میں ہے۔

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha