جمعرات 11 دسمبر 2025 - 16:33
فاطمہ زہراء علیہا السلام؛ نہج البلاغہ کی روشنی میں

حوزہ/اگرچہ نہج البلاغہ میں حضرت فاطمہ زہراء علیہا السلام کے نام کا براہِ راست ذکر نہیں ملتا، مگر امیرالمؤمنین حضرت علی علیہ السّلام کے خطبات، حکمتوں اور خطوط میں ایسے گہرے اشارے ملتے ہیں جو حضرت سیدہؑ کی عظمت، مجاہدہ، مقامِ ولایت، اور ان کے تاریخی کردار کو واضح کرتی ہیں۔

تحریر: مولانا علی عباس حمیدی

حوزہ نیوز ایجنسی| اگرچہ نہج البلاغہ میں حضرت فاطمہ زہراء علیہا السلام کے نام کا براہِ راست ذکر نہیں ملتا، مگر امیرالمؤمنین حضرت علی علیہ السّلام کے خطبات، حکمتوں اور خطوط میں ایسے گہرے اشارے ملتے ہیں جو حضرت سیدہؑ کی عظمت، مجاہدہ، مقامِ ولایت، اور ان کے تاریخی کردار کو واضح کرتی ہیں۔

نہج البلاغہ حضرت علیؑ کے ان احساسات اور معارف کا آئینہ ہے جو انہوں نے حضرت سیدہؑ کی شہادت کے بعد، مختلف مقامات اور حالات میں الگ الگ مناسبتوں سے اپنی زبان مبارک سے ادا کئے ہیں جس کو چوتھی صدی ہجری میں سید رضیؒ نے تین حصوں میں جمع کیا جس میں پہلا حصہ 338 خطبات دوسرا حصہ 79 خطوط اور تیسرا حصہ 480 مختصر فرامین پر مشتمل ہے۔ ان اقوال میں غور کر کے دیکھا جائے تو ایسا نظر آئے گا کہ جہاں آپ نے اوصاف ِ حمیدہ کا تذکرہ کیا ہے وہاں فاطمہ ان الفاظ کے معنی کا مصداق نظر آتی ہیں۔ بطور نمونہ ہم چند ایک کو یہاں پیش کرتے ہیں۔

سیدہ فاطمہؑ — علیؑ کی نظر میں بہترین زوجہ

رسولؐ نے علیؑ سے فرمایا تھا:

"اے علی! فاطمہ دنیا میں بھی بہترین زوجہ ہے اور آخرت میں بھی بہترین۔"

یہ مفہوم نہج البلاغہ کے"حسنِ معاشرت"اور"اہلِ بیت کی عظمت"سے مطابقت رکھتا ہے۔

امام علیؑ سے جب سید الانبیاءصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پوچھتے ہیں کہ

"کیف وجدت اھلک؟”” یاعلیؑ آپ نے فاطمہؑ کو کیسا پایا؟”

تو مولائے کائناتؑ عرض کرتے ہیں:"نعم العون علی طاعۃ اللہ” "فاطمہؑ اطاعتِ الہٰی میں بہترین معاون ہیں”۔(تفسیر نور الثقلین، جلد4، ص57 )

علیؑ کے اقوال میں عورت کے مقام، گھر کی حرمت، اور اہلِ بیت کی عزت کے بارے میں جو تعلیمات ملتی ہیں، ان کی عملی تصویر سیدہ فاطمہؑ کی شخصیت تھی۔

نہج البلاغہ میں اہلِ بیتؑ کی عظمت اور اس میں فاطمہؑ کا مقام

حضرت علیؑ نہج البلاغہ میں اہلِ بیتؑ کو:رسولؐ کے علم کا دروازہ،امت کی نجات کا مرکز،حق اور باطل کا معیار،قرآن کا حقیقی ترجمانقرار دیتے ہیں۔اوراہلِ بیتؑ میں “فاطمہؑ” وہ شخصیت ہیں جنہیں:کوثر،اہلِ کسا کی فرد،رسولؐ کی سب سے محبوب ہستی،امامت کی مادر ہونے کا شرف حاصل ہے۔

ایک مقام پر جب معاویہ نے مولا علیؑ کو خط لکھا تو اس کے خط کے جواب میں مولؑا نے ایک طویل خط لکھا جس میں یہ جملے بھی تھے: "ومنا خیر نساء العالمین ومنکم حمالۃ الحطب۔۔۔”"اے معاویہ! ہم میں عالمین کی عورتوں میں سے سب سے بہترین(فاطمہؑ) ہیں اور تم میں جہنم کا ایندھن اٹھانے والی”(نہج البلاغہ، مکتوب 28)

امام علی نے کسی اور جگہ اپنے مخاطبین سے پوچھا:” انشدتكم بالله هل فيكم أحد زوجته سيدة نساء العالمين غيري؟ قالوا: لا”"کیا میرے علاوہ تم میں سے کوئی ہے جس کی زوجہ تمام عورتوں کی سردار ہو ۔ سب نے کہا : نہیں۔”( الاحتجاج: ج۱، ص۱۷۱ و۱۹۵٫)

امام علی حضرت زہرا کو اپنے سکون کی وجہ بتاتے ہیں: بحارالانوار،جلد۴۳، ص ۱۳۴ میں آپ کا یہ ارشاد نقل ہوا ہے:"لقد کنت انظر الیها فتنکشف عنی الهموم والاحزان”"جب میں فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے چہرہ اقدس کو دیکھتا تو حزن و ملال مجھ سے زائل ہو جاتا تھا۔”

"فوالله … لا اغضبتنی و لاعصت لی امرا”"خدا کی قسم فاطمہ نے مجھے کبھی غضبناک نہ کیا اور کسی بھی کام میں میری بات سے سرپیچی کی۔”

پس اہلِ بیتؑ کی عظمت کے تمام خطبات میں فاطمہؑ کا مقام بدیہی طور پر شامل ہے۔

فاطمہؑ کا جہاد — نہج البلاغہ کا پس منظر

نہج البلاغہ کے سیاسی اور فکری پس منظر کو سمجھنے سے پتہ چلتا ہے کہ:

رسولؐ کے بعد جو انحرافات پیدا ہوئے

خلافت کا مسئلہ

اہلِ بیتؑ پر ظلم

حقِ ولایت سے چشم پوشی وغیرہ ان سب کی گواہ سیدہ فاطمہؑ تھیں۔

ان کا خطبہ فدک (اگرچہ نہج البلاغہ میں شامل نہیں) مگر نہج البلاغہ کے موضوعات سے مکمل ہم آہنگ ہے۔

دونوں خطبات (فدک اور شقشقیہ) غصبِ خلافت اور امت کی بے راہ روی پر ایک ہی نقطہ نظر پیش کرتے ہیں۔

فاطمہؑ اور زہد و عبادت —اقوالِ علیؑ کی روشنی میں

علیؑ نہج البلاغہ میں مومن کی صفات بیان کرتے ہیں:

عبادت میں خالص،دنیا سے بے رغبت،عدل و انصاف کے علمبردار،حق کے لیے قربانی دینے والے

یہ تمام صفات سیدہ فاطمہؑ کی زندگی پر منطبق ہوتی ہیں:

تہجد گزار،قرآن کی حامل،سخاوت میں مثالی،دنیا سے بے رغبت،حق کی خاطر مظلومیت برداشت کرنے والی حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا حیا اور صبر کا عظیم نمونہ ہیں: لَا اِيْمَانَ كَالْحَيَاءِ وَ الصَّبْرِ۔ حیا و صبر سے بڑھ کر کوئی ایمان نہیں۔(نہج البلاغہ حکمت ۱۱۳)

جب جنابِ سیدہؑ کا وقتِ شہادت قریب آیا تو آپؑ نے مولا علیؑ سے عرض کی:

"یابن عم، ماعھدتنی کاذبۃولا خائنۃ ولا خالفتک منذ عاشرتنی”"اے میرے چچازاد! آپؑ نے کبھی بھی مجھے جھوٹا یا خیانت کار نہیں پایا اور جب سے ہماری شادی ہوئی میں نے کبھی بھی آپؑ کے حکم کی مخالفت نہیں کی”

قال الامام العلی علیہ السلام:"معاذاللہ، انت اعلم باللہ وابر واتقیٰ واکرم واشد خوفاً من اللہ (من) ان اوبخک بمخالفتی، قد عز علی مفارقتک وفقدک”"خدا کی پناہ، فاطمہؑ آپ اللہ کی معرفت میں بے مثال ہیں آپؑ نیکوکاری، تقویٰ اور کرامت بہت بلند ہیں اور آپ خوفِ خدا میں اس سے کہیں بلند ہے کہ میری مخالفت کریں۔ یقیناً آپ کی جدائی و فراق میرے لیے بہت گراں ہے۔(عوالم العلوم والمعارف والاحوال من الآیات والاخبار والاقوال، جلد11، ص1081)

امیرالمؤمنینؑ کا غمِ فاطمہؑ — خطبۂ شقشقیہ اور دیگر مقامات

اگرچہ خطبہ شقشقیہ میں نام نہیں، مگر حضرت علیؑ اپنے حقِ خلافت کے غصب ہونے کے پس منظر میں جس صبر اور ظلم کی طرف اشارہ کرتے ہیں، اس میں سیدہؑ کا ہی چہرہ نظر آتاہے۔

سیدہؑ نے اسی مظلومیت کے ماحول میں علیؑ کا ساتھ دیا، خطبۂ فدک کے ذریعے حقِ ولایت کا دفاع کیا، اور امت پر حجت تمام کی۔

حضرت علی علیہ السلام کا سیدہؑ کی جدائی پر کلام

نہج البلاغہ کا سب سے اہم مقام جو سیدہ فاطمہؑ کے بارے میں واضح حوالہ رکھتا ہے وہ خط نمبر 45 ہے (بعض نسخوں میں 31 یا 41)، جو حضرت علیؑ نے حضرت رسولؐ کی قبر کے پاس فرمایا، جب سیدہؑ کا وصال ہو چکا تھا۔اس خط میں علیؑ کا درد، محبت اور عظمتِ فاطمہؑ واضح طور پر ظاہر ہے:

"اے رسولِ خدا! آپ کی بیٹی—جو میرے لیے انتہائی عزیز تھی—آپ کی طرف لوٹ گئی۔" "میرا صبر ٹوٹ گیا ہے، میرا غم ہمیشہ رہے گا۔""آپ کی بیٹی کی جدائی نے میری قوت چھین لی ہے۔""مجھے کوئی افسوس نہیں سوائے اس کے کہ آپ کی جدائی کے بعد مجھے فاطمہؑ کا غم بھی برداشت کرنا پڑا۔"

"انا للہ وانا الیہ راجعون فلقد استرجعت الودیعۃ واخذت الرھینۃ! اما حزنی فسرمد اوما لیلی فمسھد الی ان یختار اللہ لی دارک التی انت بھا مقیم”

"اب یہ امانت پلٹائی گئی گروی رکھی ہو ئی چیزچھڑالی گئی لیکن میرا غم بے پایاں اور میری راتیں بے خواب رہیں گی ۔یہاں تک کہ خداوند عالم مےرے لئے بھی اس گھر کو منتخب کرے جس میں آپ رونق افروز ہیں ۔”(نہج البلاغہ خطبہ 200)

"السلام علیک یا رسول اللہ عنی ، وعن ابنتک النازلۃ فی جوارک، والسریعۃ اللحاق بک! قل یا رسول اللہ! عن صفیتک صبری و رق عنھاتجلدی الا ان لی فی التاسی بعظیم فرقتک و فادح مصیبتک، موضع تعز، فلقد و سدتک فی ملحودۃ قبرک و فاضت بین نحری و صدری نفسک’

یارسول اللہ آپ کو میری جانب سے اور آپ کے پڑوس میں اترنے والی اور آپ سے جلد ملحق ہونے والی آپ کی بیٹی کی طرف سے سلام ہو ۔یارسول اللہ آپ کی برگزیدہ(بیٹی کی رحلت)سے میرا صبر و شکیب جاتا رہا میری ہمت و توانا ئی نے ساتھ چھو ڑ دیا ۔لیکن آپ کی مفارقت کے حادثہ عظمیٰ اور آپ کی رحلت کے صدمہ جانکاہ پر صبر کرلینے کے بعد مجھے اس مصیبت سے بھی صبر و شکیبائی ہی سے کام لینا ہو گا۔ جب کہ میں نے اپنے ہاتھوں سے آپ کو قبر کی لحد میں اتارا اور اس عالم میں آپ کی روح نے پرواز کی جب آپ کا سر میری گردن اورسینے کے درمیان رکھا تھا ۔۔(نہج البلاغہ خطبہ 200 )

یہ جملے سیدہ فاطمہؑ کے مقامِ روحانی اور علیؑ کی نظر میں ان کی منزلت کو واضح کرتے ہیں۔

نتیجہ

نہج البلاغہ کی روشنی میں سیدہ فاطمہؑ:امیرالمؤمنینؑ کے دل کی دھڑکن،رسول اللہؐ کی امانت،اہلِ بیتؑ کی مرکزیت کا ستون،حق و عدالت کی علمبردار،صبر، شجاعت اور ایمان کی معراج،حضرت علیؑ کے خط نمبر 45 میں سیدہؑ کی جدائی کا جو درد بیان ہوا ہے، وہ سب سے روشن شہادت ہے کہ:فاطمہؑ صرف علیؑ کی زوجہ نہیں تھیں، بلکہ ولایت اور رسالت کے دروازے کی بنیاد تھیں۔

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha