بدھ 10 دسمبر 2025 - 13:07
فمینزم کے نعرے کھوکھلے ہیں؛ سیدۂ کونینؑ کی سیرت ہی نجات کا واحد راستہ ہے

حوزہ/ فمینزم کے نام پر دنیا بھر میں خواتین کے حقوق کے بلند و بانگ دعوے کیے جا رہے ہیں، مگر عملی طور پر عورت کو حقیقی عزت و وقار فراہم نہیں کیا جا سکا۔ حوزہ نیوز ایجنسی کو دیے گئے خصوصی انٹرویو میں حجت الاسلام والمسلمین سید نجیب الحسن زیدی نے فمینزم کی حقیقت، اس کے تضادات اور اس دعوے کے مقابلے میں حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے ہمہ گیر اور عملی کردار کو تفصیل سے بیان کرتے ہوئے کہا کہ اسلام نے عورت کو نعرے نہیں، بلکہ مکمل نظامِ عزت عطا کیا ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، مغربی دنیا کی جانب سے پیش کیا جانے والا فمینزم کا نعرہ آج عورت کو آزادی کے نام پر ایک نئی فکری غلامی کی طرف دھکیل چکا ہے۔ بظاہر یہ تحریک خواتین کے حقوق کی علمبردار نظر آتی ہے، لیکن حقیقی معنوں میں اس نے عورت کو اس کی فطری شناخت، عزتِ نفس اور روحانی مقام سے دور کر دیا ہے۔ اس کے برعکس اسلام نے حضرت زہراءؑ کی سیرت کی صورت میں عورت کو ایک ایسا کامل، باوقار اور عملی کردار عطا کیا ہے جو صرف نعروں تک محدود نہیں بلکہ زندگی کے ہر مرحلے میں قابلِ عمل نمونہ ہے۔

انہی اہم اور عصری سوالات کو مرکزِ بحث بناتے ہوئے مسجد ایرانیان (مغل مسجد) ممبئی کے امام جماعت و ممتاز محقق و مبلغ حجت الاسلام والمسلمین سید نجیب الحسن زیدی نے حوزہ نیوز ایجنسی کو دیے گئے خصوصی انٹرویو میں فمینزم کے فکری پس منظر، اس کے دعوؤں کی حقیقت اور سیرتِ شہزادیٔ کونین حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیھا کے عملی کردار کا تقابلی جائزہ پیش کیا ہے، اور یہ واضح کیا ہے کہ اسلام نے عورت کو صرف حقوق ہی نہیں دیے بلکہ اسے شخصیت، تحفظ اور تقدس کا جامع راستہ بھی عطا کیا ہے۔

مکمل انٹرویو حسب ذیل ہے:

حوزہ: آج کے زمانے میں پوری دنیا میں خواتین کے حقوق کی بات کی جاتی ہے۔ فمینزم کے نام پر مختلف تحریکیں چل رہی ہیں۔ آپ مجموعی طور پر فمینزم کو کیسے دیکھتے ہیں؟

حجۃ الاسلام سید نجیب الحسن زیدی: ہم جس دور میں زندگی گزار رہے ہیں، یہ دور بظاہر ترقی کا دور ہے، لیکن نظریاتی طور پر یہ کھوکھلے نعروں اور فریب زدہ سوچوں کا دور بھی ہے۔

آج صنعت و ٹیکنالوجی کے ساتھ ساتھ جعلی مصنوعات، جعلی کمپنیاں اور جعلی نظریات بھی عام ہیں۔ انہی جعلی نعروں میں سے ایک ’’خواتین کے حقوق‘‘ کا نعرہ بھی ہے، جسے بعض حلقوں نے فمینزم کے عنوان سے پیش کیا۔

دلچسپ اور افسوسناک حقیقت یہ ہے کہ اسی نعرے کے علمبردار اکثر مقامات پر خود خواتین کا استحصال کرتے نظر آتے ہیں۔ فمینزم کا دعویٰ بہت مضبوط ہے، لیکن عملاً اس نے عورت کو اُس حقیقی مقام تک نہیں پہنچایا جو اسلام نے دیا ہے۔

فمینزم کے نعرے کھوکھلے ہیں؛ سیدۂ کونینؑ کی سیرت ہی نجات کا واحد راستہ ہے – حجت الاسلام سید نجیب الحسن زیدی

حوزہ: فمینزم کے مفہوم کے بارے میں عام طور پر ابہام پایا جاتا ہے۔ آپ اس لفظ کی وضاحت کیسے کریں گے؟

حجۃ الاسلام سید نجیب الحسن زیدی: لفظ "فمینزم" فرانسیسی اور لاطینی بنیادوں سے نکلا ہے اور اس کا لغوی مفہوم خواتین کی حیثیت و حقوق نمایاں کرنا ہے۔

اصطلاحی طور پر فمینزم دو مفاہیم میں استعمال ہوتا ہے:

1. پہلا مفہوم:

وہ مشہور نظریہ اور تحریک جو مرد و زن کے درمیان معاشی، معاشرتی اور سیاسی برابری کا مطالبہ کرتی ہے۔ بعض جگہوں پر یہ خواتین کی بالادستی کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔

2. دوسرا مفہوم:

مردوں میں خواتین جیسی صفات کا ظاہر ہونا، جس پر یہاں گفتگو مقصد نہیں۔ مجموعی طور پر فمینزم کی تحریک 19ویں صدی سے ترقی یافتہ دنیا میں شروع ہوئی، بعد میں اس کے مختلف رجحانات اور شدت پسند گروہ ابھرے۔ لیکن بنیادی نکتہ یہی رہا: عورت کے حقوق پر توجہ، اگرچہ اس کو ہمیشہ عملی طور پر پورا نہیں کیا گیا۔ اس کے مقابلے میں اسلام نے نظریاتی نہیں بلکہ عملی طور پر عورت کو مقام دیا۔ اس کی روشن مثال حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی مقدس سیرت ہے۔

حوزہ: آپ کی نظر میں حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا خواتین کے لئے کس طرح نمونہ اور کردارِ کامل ہیں؟

حجۃ الاسلام سید نجیب الحسن زیدی: سیدۂ کونینؑ کی زندگی میں ہمیں عورت کے حقوق، وقار، ذمہ داریوں اور سماجی کردار کی وہ بلند مثالیں ملتی ہیں جو دنیا کی کسی تحریک میں نظر نہیں آتیں۔ آپؑ نے جس طرح گھر، معاشرہ، سیاست اور تعلیم—ہر میدان میں کردار ادا کیا، وہ عورت کے حقیقی مقام کی بہترین تفسیر ہے۔

فمینزم کے نعرے کھوکھلے ہیں؛ سیدۂ کونینؑ کی سیرت ہی نجات کا واحد راستہ ہے – حجت الاسلام سید نجیب الحسن زیدی

حوزہ: کیا آپ وضاحت کر سکتے ہیں کہ حضرت زہرا سلام اللہ علیہا نے خاندان اور ازدواجی زندگی کے حوالے سے عورت کے مقام کو کیسے اجاگر کیا؟

حجۃ الاسلام سید نجیب الحسن زیدی: سیدہؑ کا گھریلو کردار عشق، خلوص اور ذمہ داری کا بے مثال نمونہ تھا۔اگرچہ اسلام نے عورت پر گھر کے بہت سے کام واجب نہیں کیے، مگر بی بیؑ نے گھر کے امور کو خلوصِ نیت سے انجام دے کر یہ بتایا کہ خاندان کی مضبوطی میں عورت کا کردار بنیادی ہے۔ آپؑ ہاتھوں میں ورم تک ہونے کے باوجود گھر کے کام کرتی رہیں۔ شوہر کی رضا کا ایسا خیال کہ اگر کبھی یہ احتمال ہو کہ کوئی بات پسند نہ آئی ہو تو فوراً استغفار فرماتیں۔ اور زندگی کے آخری لمحات میں بھی جب سب سے عیادت روک دی، اُس وقت بھی امیرالمؤمنینؑ سے فرمایا:

’’یہ گھر آپ کا گھر ہے، اور میں آپ کی زوجہ ہوں—جو آپ کو بہتر لگے کیجئے۔‘‘

اگر ہمارے گھروں میں فاطمیؑ مزاج اور باہمی احترام پیدا ہو جائے تو بہت سے خاندانی مسائل خود ختم ہو جائیں۔

حوزہ: تعلیم اور فکری شعور کے میدان میں حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کا کیا مقام ہے؟

حجۃ الاسلام سید نجیب الحسن زیدی:

سیدہؑ علم و تقویٰ کی کامل مثال تھیں۔ مدینہ کی خواتین مختلف شرعی سوالات لے کر حاضر ہوتیں اور آپؑ صبر و شفقت سے تفصیلی جوابات دیتیں۔ وہ مشہور روایت ہے کہ ایک خاتون نے دس مرتبہ مسائل پوچھے اور شرمندہ ہو کر کہا کہ میں آپ کو بہت زحمت دے چکی ہوں، تو آپؑ نے فرمایا:

"جب چاہو پوچھو، میں تمہارے سوالوں سے تنگ نہیں ہوتی۔"

یہ عورت کی فکری تربیت اور دینی شعور کی بلند ترین مثال ہے۔

حوزہ: سیاسی و سماجی میدان میں حضرت زہرا سلام اللہ علیہا خواتین کے لئے کس طرح نمونہ عمل ہیں؟

حجۃ الاسلام سید نجیب الحسن زیدی: سیدہؑ نے واضح کیا کہ عورت حق و انصاف کی آواز اٹھا سکتی ہے، بلکہ اٹھانی چفاہیے—چاہے حالات کتنے ہی سخت کیوں نہ ہوں۔خلافت کے مسئلہ پر آپؑ نے ظلم اور بے انصافی کے مقابلے میں واضح موقف اختیار کیا۔ آپؑ کا خطبۂ فدک خواتین کی سیاسی شعور کا عظیم ترین مظہر ہے۔ یہ بتاتا ہے کہ اسلام عورت کو خاموش یا کمزور نہیں دیکھنا چاہتا، بلکہ باشعور، فعال اور حق گو دیکھنا چاہتا ہے۔

حوزہ: فمینزم اور سیرتِ حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کے درمیان بنیادی فرق کیا ہے؟

حجۃ الاسلام سید نجیب الحسن زیدی: فمینزم کا بڑا مسئلہ یہ ہے کہ یہ دعویٰ تو بہت کرتی ہے، مگر عورت کو اس کا حقیقی مقام نہیں دیتی۔ اسلام نے عورت کو عزت، وقار اور تحفظ ایک مکمل نظام کی صورت میں دیا—اور حضرت فاطمہ زہراؑ اس نظام کی عملی تفسیر ہیں۔ فمینزم اکثر معاشرتی ساخت کو توڑتا ہے، جبکہ فاطمیؑ کردار معاشرت کو سنوارتا، جوڑتا اور مضبوط کرتا ہے۔ اسلام عورت کو گھر، سماج، سیاست—ہر میدان میں باوقار کردار دیتا ہے، لیکن اس کے فطری اور روحانی مقام کو برقرار رکھتے ہوئے۔

حوزہ: موجودہ خواتین کے لیے آپ کیا پیغام دینا چاہیں گے؟

حجۃ الاسلام سید نجیب الحسن زیدی:

ہمیں فیمینزم کے کھوکھلے نعرے اور مغربی نظریات کے بجائے سیدۃ النساء العالمینؑ کی سیرت کو مرکز بنانا چاہیے۔اگر عورت اپنے گھر میں تربیتِ اولاد، شوہر داری، اور سماجی شعور—ان تمام میدانوں میں فاطمی اسوہ اپنائے تو گھر جنت بنے گا، نسلیں محفوظ ہوں گی، معاشرہ سنورے گا اور عورت اپنی حقیقی عظمت دوبارہ پا لے گی۔

ولادتِ با سعادت حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کا یہی پیغام ہے کہ عورت زمین پر رہتے ہوئے بھی آسمانی بن سکتی ہے۔

نوٹ: اس انٹرویو کا دوسرا حصہ جلد پیش کیا جائے گا، جس میں اسی موضوع کے سلسلے کا اگلا تفصیلی مضمون شامل ہوگا۔

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha