تحریر: مولانا سید منظور عالم جعفری سرسوی
حوزہ نیوز ایجنسی| انسان کی فطری ضرورت یہ ہے کہ وہ اپنی زندگی میں کسی کامل نمونے، آئیڈیل اور اُسوہ کی تلاش کرے۔ قرآن و حدیث کی روشنی میں ہر دور میں انسان پر واجب ہے کہ وہ اپنے لیے ایسے نمونے کو اختیار کرے جو خدائی معیار پر پورا اترتا ہو۔ اہلِ بیتؑ میں سیدۂ کونین حضرت فاطمہ زہراؑ وہ درخشاں ہستی ہیں جنہیں نہ صرف عورتوں بلکہ تمام انسانیت کے لیے کامل اسوہ قرار دیا گیا ہے۔ امام زمانہؑ کا فرمان ہے: اِنَّ لی فی ابنةِ رسولِ الله اُسوةٌ حَسَنَةٌ، ہماری جدہ ماجدہ حضرت زہرا علیہا السلام میرے لیے اسوہ حسنہ ہیں۔ یہ جملہ اس حقیقت کی دلیل ہے کہ سیدہؑ کا اسوہ زمان و مکان سے ماوراء اور ہر انسان کے لیے راہِ ہدایت ہے۔
محور اول: سیدۂ فاطمہؑ کیوں اسوۂ کاملہ ہیں؟
(دلائلِ قرآنی و حدیثی)
۱- دلائلِ قرآنی: اختصار کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوے ہم یہاں صرف دو آیات کو نقل کریں گے۔
الف:عصمت و طہارت حضرت فاطمۃ الزہراء علیہاالسلام : آیتِ تطہیر }: إِنَّمَا يُرِيدُ اللهُ لِيُذْهِبَ عَنكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا{ ،ترجمہ: بس اللہ کا ارادہ یہ ہے اے اہلبیت علیہ السّلام کہ تم سے ہر برائی کو دور رکھے اور اس طرح پاک و پاکیزہ رکھے جو پاک و پاکیزہ رکھنے کا حق ہے۔
علماء فریقین نے صحابہ کرام اورتابعین سے متواتر طورپربے شمار احادیث نقل کی ہیں کہ یہ آیت کریمہ اہلبیت علیہم السلام کی شان میں نازل ہوئی ہے ، بلکہ امام فخر الدین الرازی نے اپنی تفسیر مفاتیح الغیب (تفسیر کبیر) اورنیشاپوری اورابوبکر حضرمی نے دعویٰ کیاہےکہ علمائے تفسیر و حدیث کااس بات پراجماع ہے کہ یہ آیت کریمہ اہلبیت علیہم السلام کی عصمت وطہارت پرصریح طورپردلالت کرتی ہے۔
اس آیت کریمہ کےسبب نزول کے سلسلہ میں حاکم نیشاپوری اپنی کتاب المستدرک میں صحیح اسناد کے ذریعہ جناب عبداللہ ابن جعفر سے روایت نقل کی ہے:’’رسول اللہﷺ نے جب آسمان پر رحمت الٰہی کا مشاہدہ کیاتو آپنے حکم دیاکہ میرے اہلبیتؑ یعنی امام علیؑ وجناب زہرا ؑءوامام حسنؑ وامام حسینؑ علیہم السلام کو جمع کیاجائے۔ اورآپ نے سب کو ایک چادر کے نیچے جمع کیا اوردعاکی۔آپ کی دعا کے تمام ہوتے ہی جبرائیل امین آیت تطہیر لیکرنازل ہوئے۔‘‘
محمد بن جریر طبری نے جامع البیان میں اورسیوطی نے الدرالمنثورمیں جناب ا م سلمہ کی روایت کو ابوسعید حضرمی سے نقل کیاہے۔ جناب ام سلمہ فرماتی ہیں کہ آیت تطہیرمیرے گھر میں نازل ہوئی ہے۔ میں چادر کے قریب گئی۔ اور میں نے رسول اللہ ﷺ سے سوال کیا:
’’یارسول اللہ!کیامیں اہلبیت میں سے نہیں ہوں ؟‘‘آپ نے فرمایا: ’’بیشک تم نیک ہواورخیرپرہو اورپیغمبر کی ازواج میں سے ہو، لیکن اہلبیت میں سے نہیں ۔‘‘
عملی طور پر رسول اکرم ﷺ کا اہلبیت کی شناخت کرنا
سیوطی نے الدرالمنثور میں اورعبدالرحمان ابن ابی حاتم نےتفسیرالقرآن العظیم میں جناب عبداللہ بن عباس سے روایت نقل کی ہے:
’’ہم نے دیکھا کہ رسول اکرم ﷺ اس آیت کریمہ کے نزل ہونے کے بعد ۹ ماہ تک مسلسل نماز کے وقت درحضرت فاطمہ زہراپرتشریف لاتے اور فرماتے: اَلسَّلامُ عَلَیْکُمْ وَ رَحْمَۃُ اللہِ اِنَّمَا يُرِيدُ اللهُ لِيُذْهِبَ عَنكُمُ الرِّجْسَ اَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا ۔ یعنی اللہ تم پراپنی رحمتیں نازل کرے۔ اسی طرح پیغمبر دن میں پانچ بار تکرار کرتے تھے۔ ‘‘
نتیجہ: ان تمام روایات سے ثابت ہوتاہےکہ اس میں کوئی شک نہیں ہےکہ اہلبیتؑ سے مراد اصحاب کسا ءہیں اوران میں سےایک حضرت فاطمۃ الزہراء علیہاالسلام ہیں جن کی عصمت و طہارت کی گواہی اور ذمہ داری خداوندعالم اس آیت کریمہ سے لے رہاہے۔
ب: آیۂ مباہلہ حجیتِ ولایتِ فاطمیؑ }: فَمَنْ حَاجَّكَ فِيهِ مِن بَعْدِ مَا جَاءَكَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ أَبْنَاءَنَا وَأَبْنَاءَكُمْ وَنِسَاءَنَا وَنِسَاءَكُمْ وَأَنفُسَنَا وَأَنفُسَكُمْ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَل لَّعْنَتَ اللَّهِ عَلَى الْكَاذِبِينَ {،ترجمہ: اے پیغمبرؐ) اس معاملہ میں تمہارے پاس صحیح علم آجانے کے بعد جو آپ سے حجت بازی کرے تو آپ ان سے کہیں کہ آؤ! ہم اپنے اپنے بیٹوں، اپنی اپنی عورتوں اور اپنے اپنے نفسوں کو بلائیں اور پھر مباہلہ کریں (بارگاہِ خدا میں دعا و التجا کریں) اور جھوٹوں پر خدا کی لعنت قرار دیں۔ (یعنی ہم اپنے بیٹوں کو بلائیں تم اپنے بیٹوں کو، ہم اپنی عورتوں کو بلائیں تم اپنی عورتوں کو اور ہم اپنے نفسوں کو بلائیں تم اپنے نفسوں کو۔ پھر اللہ کے سامنے گڑگڑائیں اور جھوٹوں پر خدا کی لعنت کریں۔
آیتِ مباہلہ نجران کےعیسائیوں کے جواب میں نازل ہوئی۔نجران کے کچھ عیسائی پیغمبر اکرم ﷺ سے ان کی رسالت کے دعوے پر گفتگو کرنے کے لیے مدینہ آئے۔ پیغمبر اکرمؐ نے اپنا تعارف کرانے کے بعدحضرت عیسیؑ کو اللہ کے بندوں میں سے ایک بندہ قرار دیا۔ جبکہ عیسائیوں نے حضرت عیسیٰؑ کے بغیر باپ کی پیدائش کو ان کی الوہیت کی دلیل قرار دیا۔نجران کے عیسائی اپنے عقیدے پر مصر رہے، تو نبی اکرمؐ نے انہیں مباہلہ کی دعوت دی، جسے انہوں نے قبول کر لی۔ مقررہ دن نبی اکرمؐ حضرت علیؑ ، حضرت فاطمہ علیہا السلام اورحسنین علیہما السلام کے ساتھ مباہلہ کے لیے حاضر ہوئے، لیکن جب عیسائیوں نے نبی اکرمؐ اور ان کے ساتھیوں کی سنجیدگی دیکھی، تو اپنے بزرگوں کے مشورے سے مباہلہ سے مصرف ہو گئے۔ انہوں نے نبی اکرمؐ کے ساتھ صلح کر لی اور جزیہ ادا کر کے اپنے دین پر باقی رہنے کی درخواست کی، جسے نبی اکرمؐ نے قبول کر لیا۔
شیعہ متکلم شہید قاضی نور اللہ شوستری کے مطابق مفسرین اس بات پر متفق ہیں کہ آیتِ مباہلہ میں "اَبْناءَنا" (ہمارے بیٹے) سے مراد حسنؑ و حسین، "نِساءَنا" (ہماری عورتیں) سے مراد حضرت فاطمہؑ اور "اَنفُسَنا" (ہمارے نفسوں) سے مراد امام علیؑ ہیں۔علامہ مجلسی نے ان احادیث کو متواتر قرار دیا ہے جو اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ آیتِ مباہلہ اہل کساء کی شان میں نازل ہوئی ہے۔ کتاب "اِحقاقُ الحق" (تألیف ۱۰۱۴ ہجری) میں اہلِ سنت کے تقریباً ساٹھ مصادر ذکر کیے گئے ہیں، جن میں تصریح کی گئی ہے کہ یہ آیت مذکورہ ہستیوں کے حق میں نازل ہوئی۔ ان مصادر میں زمخشری کی کتاب "الکشاف،فخر رازی کی کتاب "التفسیر الکبیر"اور بیضاوی کی کتاب "انوار التنزیل و اسرار التأویل"شامل ہیں۔
نتیجہ: تمام معتبر روایات کے مطابق "نِسَاءَنَا" کے مصداق صرف سیدہ فاطمہؑ ہیں۔ اور آپ بھی نبیﷺ اور امام علیؑ و حسنین علیہم السلام کی طرح ولی ہیں اور آپ کا قول فعل وعمل بھی حجت ہے۔
۲- دلائل ِحدیثی: اختصار کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوے ہم یہاں صرف دو روایات کو نقل کریں گے۔
الف: حدیثِ رسولؐ فاطمہؑ "روحِ رسولؐ" : نبی اکرمؐ نے فرمایا:فاطمة بضعةٌ منّي، مَن آذاها فقد آذاني ترجمہ: فاطمہ میرے جگر کا ٹکڑا ہیں جس نے فاطمہ ؑ کو اذیت دی اس نے مجھے اذیت دی۔
یہ حدیث شیعہ اور سنی کتب میں مختلف طرق سے صحیح سند کے ساتھ نقل ہوئی ہے، جس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کے بارے میں رسول اللہ (ص) کا یہ کلام مختلف مناسبتوں میں بیان ہوا ہے، اس حدیث کا شمار متواتر احادیث میں سے ہوتا ہے۔ محقق شیخ جعفر طبسی نے اس حدیث کے ۱۲۳ مصادر کتب اہل سنت سے بیان کیے ہیں اور اسی طرح کتب شیعہ سے بھی متعدد مصادر بیان کیے ہیں ۔
یہ حدیث صرف محبت میں نکلے ہوئے الفاظ نہیں، بلکہ ایک معرفتی اصول ہے، جس کا نتیجہ یہ ہوا :
الف:نبی کی اذیت شرعاً حرام ہے۔ ب: فاطمہؑ کی اذیت نبیؐ کی اذیت ہے۔ ج:فاطمہؑ کے قول و فعل کی مخالفت انہیں اذیت پہنچاتی ہے۔ د: لہٰذا فاطمہؑ کی مخالفت حرام اور ان کے قول و فعل کی اطاعت واجب ہے۔ یہی حجیّتِ قول و فعلِ فاطمہؑ ہے۔
ب: فاطمہ زہر سلام اللہ علیہا ائمہ معصومین علیہم السلام پر بھی حجت ہیں :
امام حسن عسکری علیہ السلام فرماتے ہیں: نحن حججُ الله علی الخلق، وجدتنا فاطمةُ حجّةٌ الله علینا، ترجمہ : ہم اللہ کی مخلوق پر حجت خدا ہیں تو ہماری دادی فاطمہ ہمارے اوپر حجت خدا ہیں۔
علمِ اصول و علمِ کلام میں ’’حجّت‘‘ اس دلیل کو کہتے ہیں: جس کا قول و فعل اللہ کی طرف سے معتبر اور واجب الاتباع ہو۔ اہلِ بیتؑ وہ معصوم ہستیاں ہیں جو شریعت کی اصل مفسّر اور نبیؐ کے بعد سب سے بڑے مرجع ہیں۔ جب معصوم امام بھی فاطمہؑ کے قول و فعل کو دلیل مانیں،تو امتِ مسلمہ کے لیے اس کی حجیت بدرجہ اولیٰ ثابت ہو جاتی ہے۔ چونکہ حدیث فاطمہؑ کو حجّت کہہ رہی ہے، وہ بھی "علینا" یعنی ائمہ پر، لہٰذا ان کے اقوال و افعال شرعی طور پر واجب الاتباع ہیں۔ پس آپؑ نہ صرف عوام بلکہ ائمۂ معصومینؑ کے لیے بھی فاطمہؑ معیارِ کمال ہیں۔ یہ دلیل سیدہؑ کے مقامِ اُسوہ کی آخری حد کا اعلان ہے۔
محور دوم:حضرت فاطمہ زہرا علیہا السلام کی زندگی کے بنیادی اصول
۱- اُسوۂ علم و معرفتِ الٰہی : حضرت زہراؑ کو “محدّثہ” کہا جاتا ہے، یعنی فرشتے آپ سے گفتگو کرتے تھے۔
امام صادقؑ فرماتے ہیں: کانت فاطمة محدَّثة یأتیها جبرئیل پیغمبر اکرم ﷺ کی وفات کے بعد جبرائل امین آپ سے گفگتو کے لیے آپ کی شہادت تک تشریف لاتے تھے۔ آپؑ کے گھر سے “مصحفِ فاطمہؑ” جیسی علمی میراث چلی، جو آپؑ کے الہامی علوم کا مجموعہ ہے۔ آپ کا خطبہ فدک معرفتِ توحید، فلسفۂ عبادت، تفسیرِ قرآن اور نظامِ حکومت کی بہترین تعبیر ہے۔
۲- اُسوۂ عبادت اور بندگی: آپؑ کی عبادت کی کیفیت ایسی تھی کہ لقب “زہرا” (نور برسانے والی) عطا ہوا۔
امام حسنؑ فرماتے ہیں: میں نے اپنی ماں کو دیکھا کہ پوری رات قیامِ عبادت میں گزار دیتی تھیں ۔
آپؑ ہمیشہ دوسروں کے لیے دعا کرتی تھیں: جب اس سلسلے میں امام حسن نے سوال کیا تو آپ نے جواب دیا : الجار ثم الدار ، پہلے پڑوسی، پھر گھر والے ۔
۳- اُسوۂ حیا و عفت: سیرتِ فاطمہ زہراء سلام اللہ علیھا میں غور کرنے سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ آپ میں شرم و حیا کا جو ہر بدرجہ کمال موجود تھا ۔ آپؑ چھوٹی عمر میں ہی پردہ کرنے کو اہمیت دیتی تھی ۔بلا ضرورت اور بلا سبب کبھی باہر نہ نکلتی تھیں۔اگر نکلنا پڑتا تو چادر اورنقاب اوڑھ لیتیں ۔ کیونکہ آپ ؑ نے سایہ رسالت مآب میں زندگی بسر کی تھیں۔ یہ اسی تعلیم کا نتیجہ تھا کہ ایک مرتبہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت فاطمہ الزہرا سلام اللہ علیہا کے ہاں تشریف لے گئے ۔آپؐ کے ساتھ ایک نابینا صحابی حضرت عبداللہ ابن ام مکتوم بھی تھے۔حضرت فاطمہ ؑ نے دیکھتے ہی اس سے پردہ کیا ۔تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پوچھا ،بیٹی تم کیوں چھپ گئی تھیں ام مکتوم تو نابینا ہیں۔سیدہ عالم نے جواب دیا : ابا جان ! اگر وہ نابینا ہیں تو میں تو نابینا نہیں ہوں کہ خواہ مخواہ غیر محرم کو دیکھا کروں! آپ سلام اللہ علیہا کا یہ جواب پوری کائنات کی خواتین کے لئے ایک ایسا نمونہ ہے کہ ایسے عملی نمونہ کسی اور کی زندگی میں نہیں ملتے ۔
۴- اُسوۂ خانوادگی: زوجیت، مادریّت، اخلاق: ہم ذیل میں سیرت فاطمہؑ سے ازدواجی زندگی کے کچھ ایسے اصول بیان کر رہے ہیں جن پر عمل کرنے سے ایک بہترین اور آئیڈیل زندگی گزاری جا سکتی ہے۔
الف: گھر کو بنیادی عبادت گاہ سمجھنا: خود بی بیؑ کا لقب “عابدہ” تھا۔ گھر کا ماحول ہمیشہ روحانی تھا۔ مولائے متقیان علیہ السلام سے رسول ﷺ نے سوال کیا علیؑ تم نے فاطمہؑ کو کیسا پایا تو آپ نے جواب دیا اپنی عبادت میں معین و مددگارپایا ۔فقہ اسلامی میں شاید اسی وجہ سے عورتوں کے خاص ایام میں ان کے لیے مستحب قرار دیا گیا ہے کہ وہ ان ایام میں بھی وقت نماز مصلی پر بیٹھ کر تسبیح و تہلیل کریں۔ تاکہ بچے عبادت کو ایک کمپلسری عمل سمجھیں۔
ب:بچوں کی تربیت میں مشترکہ کردار : امام حسنؑ، امام حسینؑ، اور حضرت زینبؑ گھر کی تربیت کا بے مثال نتیجہ۔ امام خمینی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں: اس مختصر سے گھر سے مختصر امکانات کے باوجود جناب فاطمہؑ نے اپنے بچوں کی ایسی تربیت کی کہ کوئی جوانان جنت کا سردار بنا، تو کوئی محافظ شریعت و امامت۔
ج: سادگی، قناعت، اور نظامِ گھر داری : جناب سیدہ (س) اپنے گھر کی مالی کمزوری دیکھ کر نہ ملال ہو ئی اور نہ پریشان بلکہ ہمیشہ شکر الہی بجا لایا کرتی تھی آپ نے ہمیشہ صبر استقامت اور قناعت کے ساتھ اپنی زندگی بسر کی اانتہائی افلاس اور غربت کی حالتوں میں بھی اطمینان اور سکون کی زندگی گزاری ہمہشہ نہایت خاموشی استقلال خندہ پیشانی سے تما م مشکلوں کو تحمل فرمایا اور کھبی ان گھریلو اور ذاتی ضرورتوں کی تنگی کی شکایت کا اظہار نہیں کیا ور خدا کی دی ہوئی نعمتوں پر شکر گزار رہی نہ صرف شکر گزار رہی بلکہ ان حالات میں بھی ایثار وقربانی کی اعلیٰ مثالیں دکھائی کہ کوئی یہ نہ کہہ سکے کہ جناب فاطمہ (س) غریب ہیں۔
د: گھر اور باہرکے کاموں کی منصفانہ تقسیم ہونا چاہیے:حضرت علیؑ گھر کے باہر کا کام کرتے، بی بیؑ گھر کے اندر باہمی رضا مندی سے بیوی شوہر کو بھی تمام کاموں کو تقسیم کرنا چاہیے۔ لہذا جب شادی کے بعد رسول اللہ ﷺ نے گھر کے لاموں کی ذمہ داری شہزادی کونینؑ اور باہر کے امور کی ذمہ داری امام علیؑ کو دی تو حضرت فاطمہ نے شکر خدا کیا اور فرمایا : خدا کے رسول ﷺ کا شکر کہ انھوں نے میرے کاندھوں پر ان کاموں کی ذمہ داری نہیں دی جن کو میں تحمل نہیں کر سکتی تھی۔
ھ: اہل خانہ کی عزت و وقار کا تحفظ : حضرت زہراؑ ہر معاملے میں علیؑ کی عزت بڑھاتی تھیں۔ اسی لیے مولائے کائناتؑ فرماتے ہیں: میں جب گھر میں داخل ہوتا تھا اور فاطمہؑ کے چہرے پر نظر پڑتی تھی تو اپنے ہم و غم کو بھول جاتا تھا۔
اختتامیہ
حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی سیرت ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے جو گھر، سماج، عبادت، حکومت، عدالت، تربیت اور اخلاق ،ہر میدان میں انسان کی رہنمائی کرتی ہے۔ اگر امت ان کی تعلیمات اپنائے تو عدل، آزادی، کردار اور انسانیت کا دور پھر سے زندہ ہوسکتا ہے۔
مصادر و مراجع
۱- قرآنِ کریم
۲- تفاسیرِ اہلِ سنّت
محمد بن جریر طبری، جامع البیان۔
فخرالدین رازی، التفسیر الکبیر (مفاتیح الغیب)۔
جلال الدین سیوطی، الدر المنثور۔
عبدالرحمان ابن ابی حاتم، تفسیر القرآن العظیم۔
زمخشری، الکشاف ۔
ناصرالدین بیضاوی، انوار التنزیل و اسرار التأویل۔
ابنِ کثیر، تفسیر القرآن العظیم۔
۳- تفاسیرِ شیعہ
طبرسی، مجمع البیان۔
مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ۔
۴- کتبِ حدیث و تاریخ (اہلِ سنّت)
حاکم نیشاپوری، المستدرک۔
صحیح بخاری، کتاب فضائل الصحابة، باب مناقب فاطمة بنت النبی۔
۵- کتبِ حدیث و عقائد (شیعہ)
شیخ کلینی، الکافی۔
شیخ طوسی، الغیبة۔
علامہ مجلسی، بحار الانوار۔
علامہ مجلسی، حق الیقین۔
مرعشی، احقاق الحق۔
شیخ محمد فاضل مسعودی،
الأسرار الفاطمیة۔









آپ کا تبصرہ