ہفتہ 13 دسمبر 2025 - 22:44
جناب سیدہ؛ امام زمانہ کے لیے اسوۂ حسنہ

حوزہ/اسلام میں، معاشرتی کردار کو "فرد کی اجتماعی ذمہ داری" کے طور پر دیکھا جاتا ہے، جہاں ہر شخص نہ صرف اپنی ذات کے لیے، بلکہ پورے معاشرے کی بہتری کے لیے جوابدہ ہے۔ اس ضمن میں، خواتین کا کردار اسلامی معاشرتی ڈھانچے کا ایک اہم ستون ہے۔ اسلام خواتین کو صرف گھر کی ذمہ داریوں تک محدود نہیں رکھتا بلکہ سیاسی و معاشرتی سرگرمیوں میں شریک ہونے کا حق دیتا ہے۔ اس کردار کی نمایاں مثالیں جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی سیرت میں ملتی ہیں۔

تحریر: طلال علی مہدوی

حوزہ نیوز ایجنسی| اسلام میں، معاشرتی کردار کو "فرد کی اجتماعی ذمہ داری" کے طور پر دیکھا جاتا ہے، جہاں ہر شخص نہ صرف اپنی ذات کے لیے، بلکہ پورے معاشرے کی بہتری کے لیے جوابدہ ہے۔ اس ضمن میں، خواتین کا کردار اسلامی معاشرتی ڈھانچے کا ایک اہم ستون ہے۔ اسلام خواتین کو صرف گھر کی ذمہ داریوں تک محدود نہیں رکھتا بلکہ سیاسی و معاشرتی سرگرمیوں میں شریک ہونے کا حق دیتا ہے۔ اس کردار کی نمایاں مثالیں جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی سیرت میں ملتی ہیں۔

بی بی سلام اللہ علیہا کی زندگی میں معاشرتی حوالے سے سب پہلا نکتہ محرم و نامحرم کی تاکید ہے۔

سنن ابی داوُد اور کتاب کشف الغمہ میں امام موسی کاظم علیہ السلام اے نقل ہے کہ امیر المومنین علیہ السلام بیان کرتے ہیں:

ایک دن ایک نابینا شخص نے جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا کے گھر میں داخل ہونے کی اجازت چاہی اور اجازت سے پہلے جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا اس اپنے پردے کے انتظامات کرنے لگیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سوال کیا:

اے فاطمہ سلام اللہ علیہا! یہ تو نابینا ہے؟

جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا نے جواب میں عرض کی:

اگرچہ یہ مجھے نہیں دیکھ سکتا لیکن میں تو دیکھ سکتی ہوں اور یہ خوشبو بھی تو سونگھ سکتا ہے۔

نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم بہت خوش ہوئے اور فرمایا:"فاطمہ تم میرے وجود کا حصہ ہو۔ "

یہ روایت تین اہم ترین نکات کو واضح کرتی ہے:

١۔ اسلام میں حرمت کے قوانین مرد و عورت دونوں پر برابر سے لاگو ہوتے ہیں۔

٢۔ بہترین معاشرے کیلئے حجاب کی رعایت ضروری ہے، آج معاشرے بے حیائی اور فحاشی کی اہم ترین وجہ بے پردگی اور نیم برہنہ لباس اور بے حیائی پر مبنی رسومات و روایتیں ہیں۔

٣۔ حرمت کا قانون اس قدر سخت ہے کے اگر کسی نے کوئی خوشبو لگائی ہے تو کوئی نامحرم اسے سونگھ تک نا سکے جیسا کہ امام باقر علیہ السلام کا فرمان ذیشان ہے:

"جو عورت بھی خوشبو لگائے اور پھر گھر سے نکلے اور مردوں کی مجلس سے گزرے تو اس پر لعنت ہوتی ہے یہاں تک کہ وہ اپنے گھر واپس لوٹ آئے یا توبہ کرے۔"(فروع کافی، کتاب النکاح)

علاوہ ازیں الاستبصار، کشف الغمہ، کامل الزیارات اور بحارالانوار جیسے معتبر ماخذات مین نقل ہے کہ جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا نے کئی جنگوں اور غزوات میں اپنے والد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اپنے شوہر علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے ہمراہ بطور نرس شرکت فرمائی ہے۔ آپ سلام اللہ علیہا نے شہداء احد کے لواحقین کی دیکھ بھال کی، خندق کھودنے والے اصحاب کیلئے کھانا لے کر جاتیں یہاں تک کہ خلیفہ اول کے زمانے میں گھر گھر جا کر جناب امیر المومنین علیہ السلام کی ولایت کی حفاظت کی اور حاکم کے دربار میں اپنے حق فدک کے دفاع میں ایسا فصیح و بلیغ خطبہ ارشاد فرمایا جو رہتی دنیا تک طرز حکومت اور اسلامی معاشرے کی اساس قرار پایا۔ لیکن یہ سب کام بی بی سلام اللہ علیہا نے عصمت و پاکیزگی اور حجاب کے ساتھ انجام دیئے۔ جس سے ثابت ہوتا ہے کہ باحجاب خاتون بھی معاشرے کی سرگرمیوں میں دوسروں کے برابر بلکہ بڑھ چڑھ کر حصہ لے سکتی ہے۔

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha