اتوار 21 دسمبر 2025 - 18:00
ہمارے سوالات اور امام محمد باقر (ع) کے جوابات!

حوزہ/حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا: "میرے والد بہت زیادہ ذکرِ خدا کرتے تھے۔ میں ان کے ساتھ چلتا تو وہ (چلتے ہوئے بھی) اللہ کا ذکر کرتے تھے، ان کے ساتھ کھانا کھاتا تو بھی وہ ذکرِ خدا میں مشغول رہتے تھے۔ جب لوگوں سے گفتگو کرتے تو یہ گفتگو بھی انہیں یادِ الٰہی سے غافل نہ کرتی تھی۔ میں دیکھتا تھا کہ ان کی زبان تالو سے لگی رہتی اور وہ مسلسل لا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ کہتے رہتے تھے۔

ترجمہ و ترتیب: سید علی ہاشم عابدی

حوزہ نیوز ایجنسی| باقر العلوم حضرت ابو جعفر امام محمد باقر علیہ السلام کی دو اہم خصوصیات کہ جن میں سے ایک خصوصیت آپ کے فرزند و جانشین صادق آل محمد امام جعفر صادق علیہ السلام نے بیان فرمائی اور دوسری خصوصیت خود آپ نے بیان فرمائی ہے۔

1. دائم الذکر

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا: "میرے والد بہت زیادہ ذکرِ خدا کرتے تھے۔ میں ان کے ساتھ چلتا تو وہ (چلتے ہوئے بھی) اللہ کا ذکر کرتے تھے، ان کے ساتھ کھانا کھاتا تو بھی وہ ذکرِ خدا میں مشغول رہتے تھے۔ جب لوگوں سے گفتگو کرتے تو یہ گفتگو بھی انہیں یادِ الٰہی سے غافل نہ کرتی تھی۔ میں دیکھتا تھا کہ ان کی زبان تالو سے لگی رہتی اور وہ مسلسل لا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ کہتے رہتے تھے۔

وہ ہمیں (اپنے بچوں کو) جمع کرتے، پھر ہمیں طلوعِ آفتاب تک ذکرِ خدا کا حکم دیتے تھے اور ہم میں سے جو قرآن کریم پڑھ سکتا اسے تلاوت قرآن کا حکم دیتے اور جو قرآن پڑھنا نہیں جانتا تھا اسے ذکرِ خدا میں مشغول رہنے کی ہدایت فرماتے تھے۔(اصول کافى، محمد بن یعقوب کلینى، دارالکتب الاسلامیه، ج 2، ص 499، ح 1، منتخب میزان الحکمة، محمدى رى شهرى، سید حمید حسینى، قم دارالحدیث، 1382، ص 47، ح 143 از جلد 1.)

2۔ علم ماکان و مایکون

خود حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے منقول ہے۔ جب جناب جابر نے رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سلام ان تک پہنچایا اور بتایا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ نے آپ کو باقرُالعلم کا لقب دیا ہے، تو امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا: "اے جابر! خدا کی قسم، اللہ تعالیٰ نے مجھے ماضی کے علم اور جو کچھ قیامت تک ہونے والا ہے، ان سب کا علم عطا فرمایا ہے۔" (بحارالانوار، محمد باقر مجلسى، بیروت، مؤسسة الوفاء، دوم، 1403 ق، ج 46، ص 296.)

حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کی احادیث میں سے چند ارشادات منتخب کئے گئے ہیں اور انہیں سوال و جواب کی صورت میں پیش کیا جا رہا ہے:

سوال: آپ ائمہؑ کی باتوں کو کیوں سنا جائے اور آپ کی احادیث کو کیوں بیان کیا جائے؟

یہ سوال ہمیشہ کیا جاتا رہا ہے کہ منبروں اور مجالس میں قرآن اور اہلِ بیتؑ کی احادیث ہی کیوں بیان کی جاتی ہیں؟ کیا بہتر نہیں کہ ان باتوں کے بجائے، جو صدیوں پرانی ہیں، موجودہ دور کے دانشوروں، خصوصاً مغربی مفکرین کے اقوال پیش کئے جائیں، جو نئے بھی ہیں، جنہیں روشن خیال طبقہ زیادہ پسند کرتا ہے، جو مقرر کے زمانہ شناس ہونے کی علامت بھی سمجھے جاتے ہیں اور جن میں ایک خاص دکھاوا (پُرزور تاثر) بھی ہوتا ہے؟

قرآنِ کریم نے خود اس کا جواب دیتے ہوئے فرمایا ہے:

"وَ نُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْآنِ مَا هُوَ شِفَاءٌ وَ رَحْمَةٌ لِّلْمُؤْمِنِينَ" (سوره اسراء، آیت 82)یعنی ہم قرآن میں سے وہ چیز نازل کرتے ہیں جو مؤمنین کے لئے شفا اور رحمت ہے۔

امام محمد باقر علیہ السّلام کا جواب یہ ہے: "اِنَّ حَدِيثَنَا يُحْيِي الْقُلُوبَ" (بحارالانوار، ج 2، ص 155)یعنی بے شک ہماری حدیث دلوں کو زندہ کرتی ہے۔

ان دلوں سے مراد گوشت کے دل نہیں، بلکہ انسان کی روح اور باطن ہے، جو کبھی معنوی غذا نہ ملنے کی وجہ سے مردہ ہو جاتا ہے اور کبھی گناہوں کے اثر سے سختی اور قساوت اختیار کر لیتا ہے۔

امیرالمؤمنین حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا: "وَ مَا قَسَتِ الْقُلُوبُ إِلَّا لِكَثْرَةِ الذُّنُوبِ" (منتخب میزان الحکمة، ص 205 ح 2425؛ علل الشرائع، صدوق، ص 81، ح 1) یعنی دل گناہوں کی کثرت کے سوا کسی اور سبب سے سخت نہیں ہوتے۔

سوال: ہم چاہتے ہیں کہ آپؑ کی زبانِ مبارک سے سنیں کہ آپ کا حقیقی شیعہ کون ہے؟

دوسرے لفظوں میں، بہت سے لوگ دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ آپ کے شیعہ ہیں؛ بہتر ہے کہ ہم جانیں کہ آپ کن لوگوں کو اپنا حقیقی شیعہ سمجھتے ہیں؟

امام محمد باقر علیہ السلام کا جواب: "مَا شِيعَتُنَا إِلَّا مَنِ اتَّقَى اللّٰهَ وَ أَطَاعَهُ" (تحف العقول، صفحہ 295)یعنی ہمارا شیعہ وہی ہے جو تقوائے الٰہی اختیار کرے (خدا سے ڈرنے والا ہو) اور خدا کی اطاعت کرے۔

پھر آپؑ نے فرمایا: "وَ مَا كَانُوا يُعْرَفُونَ إِلَّا بِالتَّوَاضُعِ وَ التَّخَشُّعِ وَ أَدَاءِ الْأَمَانَةِ وَ كَثْرَةِ ذِكْرِ اللّٰهِ" (منتخب میزان الحکمہ، 285)یعنی وہ تواضع و انکساری، خشوع، امانت ادا کرنے اور کثرت سے ذکرِ خدا کرنے کے سوا کسی اور چیز سے پہچانے نہیں جاتے تھے۔

اسی ضمن میں آپؑ نے یہ بھی فرمایا کہ شیعہ تین قسم کے ہوتے ہیں اور ان میں سے ایک قسم خالص سونے کی مانند ہے: "شِيعَتُنَا ثَلَاثَةُ أَصْنَافٍ: صِنْفٌ يَأْكُلُونَ النَّاسَ بِنَا، وَ صِنْفٌ كَالزُّجَاجِ يَنْكَسِرُ وَ يُفْشِي، وَ صِنْفٌ كَالذَّهَبِ الْأَحْمَرِ، كُلَّمَا أُدْخِلَ النَّارَ ازْدَادَ جَوْدَةً" (منتخب میزان الحکمة، ص 286؛ ح 3432، الخصال، صدوق، ص 103، ح 61)یعنی ہمارے شیعہ تین گروہوں میں ہیں: ایک وہ جو ہمیں لوگوں سے دنیا کمانے کا ذریعہ بناتے ہیں؛ دوسرے وہ جو شیشے کی طرح ہیں، نہایت جلد ٹوٹ جاتے ہیں اور جو کچھ ان کے پاس ہوتا ہے ظاہر کر دیتے ہیں؛ اور تیسرے وہ جو سرخ (خالص) سونے کی طرح ہیں، جتنا زیادہ آگ میں ڈالے جائیں اتنا ہی خالص اور بہتر ہو جاتے ہیں، یعنی دین کی راہ میں جتنی زیادہ سختیاں اور آزمائشیں آتی ہیں، وہ اتنے ہی مضبوط اور پختہ ہو جاتے ہیں۔

شیعوں کے لیے ایک نصیحت:

حضرت امام باقر علیہ السّلام نے فرمایا: "مُرُوا شِيعَتَنَا بِزِيَارَةِ قَبْرِ الْحُسَيْنِ بْنِ عَلِيٍّ علیه السلام، فَإِنَّ إِتْيَانَهُ يَزِيدُ فِي الرِّزْقِ وَ يُمِدُّ فِي الْعُمْرِ وَ يَدْفَعُ مَدَافِعَ السُّوءِ" (بحارالانوار، ج 101، ص 4، ح 12؛ منتخب میزان الحکمة، ص 372، ح 4606)یعنی ہمارے شیعوں کو حسین بن علی علیہ السّلام کی قبر کی زیارت کا حکم دو، کیونکہ ان کی زیارت روزی میں اضافہ کرتی ہے، عمر کو دراز کرتی ہے اور برائیوں کو دور کرتی ہے۔

شیعہ کے مقامات پہچاننے کا طریقہ

یزید رزّاز روایت کرتے ہیں کہ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے اپنے والد امام محمد باقر علیہ السلام سے نقل کیا کہ آپؑ نے فرمایا: "اِعْرِفْ مَنَازِلَ الشِّيعَةِ عَلَى قَدْرِ رِوَايَاتِهِمْ وَ مَعْرِفَتِهِمْ، فَإِنَّ الْمَعْرِفَةَ هِيَ الدِّرَايَةُ لِلرِّوَايَةِ، وَ بِالدِّرَايَةِ لِلرِّوَايَةِ يَعْلُو الْمُؤْمِنُ إِلَى أَقْصَى دَرَجَاتِ الْإِيمَانِ" (حیاة الامام محمد باقر(ع)، شریف قرشى، ص 140 و 141، به نقل از: اعلام الهدایة، المجمع العالمى لاهل البیت(ع) اوّل، 1422، ج 7، ص 291) یعنی شیعوں کے مقام و مرتبہ کو ان کی روایات کی مقدار اور ان کے فہم و معرفت کے مطابق پہچانو، کیونکہ معرفت دراصل روایت کی سمجھ ہے، اور روایت کی سمجھ کے ذریعہ مؤمن (اور شیعہ) ایمان کے بلند ترین درجات تک پہنچ جاتا ہے۔

سوال: انسان کے برترین کمالات کیا ہیں؟

اب جبکہ ہم یہ جان چکے ہیں کہ آپؑ کے ارشادات دلوں کو زندہ کرتے ہیں اور آپ کا شیعہ زندہ دل اور کمالات سے آراستہ ہونا چاہیے، تو یہ جاننا مناسب ہے کہ امام محمد باقر علیہ السلام کی نظر میں انسان کے حقیقی اور اعلیٰ ترین کمالات کون سے ہیں؟

امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے ہیں: "اَلْكَمَالُ كُلُّ الْكَمَالِ التَّفَقُّهُ فِي الدِّينِ، وَ الصَّبْرُ عَلَى النَّائِبَةِ، وَ تَقْدِيرُ الْمَعِيشَةِ" (تحف العقول، ص 292)یعنی مکمل کمال اس میں ہے کہ دین کی گہری سمجھ حاصل کی جائے، مصیبتوں اور پیش آنے والی سختیوں پر صبر کیا جائے، اور زندگی کے معاملات میں اعتدال و اندازہ رکھا جائے۔

سوال: دنیا میں خدا کا سب سے سخت عذاب کیا ہے؟

دوسرے لفظوں میں، ہم جانتے ہیں کہ جو شخص کمال کے راستے پر نہیں چلتا اور گناہ کے راستے پر قدم رکھتا ہے، وہ دنیا اور آخرت میں بلاؤں اور مشکلات میں گرفتار ہوتا ہے۔ بہتر ہے کہ ہم امام محمد باقر علیہ السلام کی زبان مبارک سے جانیں کہ دنیا میں سب سے بڑی عقوبت (سزا) کیا ہے۔

امام محمد باقر علیہ السلام کا جواب: "مَا ضُرِبَ عَبْدٌ بِعُقُوبَةٍ أَعْظَمَ مِنْ قَسْوَةِ الْقَلْبِ" (تحف العقول، صفحہ 296)یعنی کسی بندے کو دنیا میں اس سے بڑی سزا نہیں دی گئی جو دل کی سختی اور سنگدلی کی سزا سے بڑھ کر ہو۔

اس مسئلہ کی حقیقت کو امام باقر علیہ السلام نے ایک اور مقام پر واضح فرمایا: "اعْلَمْ أَنَّهُ لَا عِلْمَ كَطَلَبِ السَّلَامَةِ، وَلَا سَلَامَةَ كَسَلَامَةِ الْقَلْبِ" (تحف العقول، ص 286؛ منتخب میزان الحکمة، ص 370)یعنی جان لو کہ کوئی علم سلامتی کے مطالبہ کے برابر نہیں اور کوئی سلامتی دل کی سلامتی کے برابر نہیں۔

یقیناً آپ کی مراد صرف طبی (میڈیکل) علم یا جسم و جان اور گوشت کے دل کی صحت نہیں، بلکہ گناہوں اور قساوت سے دل کی سلامتی ہے۔

ان گناہوں میں سے جو دل کی سلامتی کو خطرے میں ڈال کر سخت دلی پیدا کرتے ہیں، تکبّر ہے۔ حضرت امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا: "مَا دَخَلَ قَلْبَ امْرِئٍ شَيْءٌ مِنَ الْكِبْرِ إِلَّا نَقَصَ مِنْ عَقْلِهِ مِثْلَ مَا دَخَلَهُ مِنْ ذَلِكَ قَلَّ ذَلِكَ أَوْ كَثُرَ" (بحارالانوار، ج 78، ص 186، ح 16؛ منتخب میزان الحکمة، ص 435، ح 5386)یعنی انسان کے دل میں جب بھی کچھ تکبر اور غرور داخل ہوتا ہے تو اس کی عقل میں بھی اتنی ہی کمی واقع ہوتی ہے، چاہے وہ کم ہو یا زیادہ۔

سوال: برترین عبادت کیا ہے؟

ہاں، ہم نے جان لیا کہ خدا کی نافرمانی سب سے بڑی سزا یعنی دل کو سخت کرتی ہے۔ اب یہ مناسب ہے کہ ہم امام محمد باقر علیہ السلام سے یہ جانیں کہ سب سے اعلیٰ بندگی اور طاعتِ الٰہی کیا ہے تاکہ ہم واجب عبادات کے ساتھ اس پر بھی عمل کریں۔

امام محمد باقر علیہ السلام کا جواب: "مَا عَبَدَ اللّٰهُ بِشَيْءٍ أَفْضَلَ مِنْ عِفَّةِ بَطْنٍ وَ فَرْجٍ" (الکافى، ج 2، ص 79، ح‏1)یعنی خداوند کسی چیز کے ذریعہ اس سے افضل عبادت قبول نہیں فرماتا جو انسان کے پیٹ اور اعضائے عصمت (شرمگاہ) کی پاکیزگی ہو۔

اس روایت سے یہ سمجھ آتا ہے کہ عبادت صرف واجب اور مستحب عبادات تک محدود نہیں؛ بلکہ عام معنوں میں عفت اختیار کرنا اور حرام رزق سے بچنا بھی عبادت ہے، بلکہ افضل عبادت شمار ہوتی ہے۔

مزید برآں، حضرت امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا کہ جب اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰؑ سے کوہ طور پر گفتگو کی تو فرمایا: "أَبْلِغْ قَوْمَكَ أَنَّهُ مَا يَتَقَرَّبُ إِلَيَّ الْمُتَقَرِّبُونَ بِمِثْلِ الْبُكَاءِ مِنْ خَشْيَتِي، وَ مَا تَعَبَّدَ لِي الْمُتَعَبِّدُونَ بِمِثْلِ الْوَرَعِ مِنْ مُحَارِمِي" (منتخب میزان الحکمة، ص 420، ح 5219؛ ثواب الاعمال، صدوق، ص 205، ح 1)

یعنی اپنی قوم کو بتا دو کہ میرے نزدیک سب سے زیادہ قرب وہ نہیں جو صرف خوفِ خدا سے آنسو بہانے سے حاصل ہو، اور میرے نزدیک سب سے زیادہ قیمتی عبادت وہ نہیں جو عبادت گزار صرف عبادات کے ذریعہ کریں، بلکہ سب سے افضل میری عبادت حرام چیزوں سے پرہیز کرنا ہے۔

اس برتری کا راز یہ ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: عبادت (نماز اور دیگر عبادات) حرام رزق کھانے کے ساتھ ایسی ہے جیسے کوئی شخص ریت یا پانی پر گھر بنائے۔ (منتخب میزان الحکمه، ص 326،ح‏3953)

سوال: انسان کی پریشانیوں کی جڑ کیا ہے؟

تمام عام انسان بلا اور مشکلات سے بچنا چاہتے ہیں، سوائے ان بلند پایہ اور برتر افراد کے جو اپنی روحانی اور اخلاقی ترقی کے لئے خدا کی راہ میں بلاؤں اور مشکلات کا استقبال کرتے ہیں۔ لہٰذا، یہ جاننا ضروری ہے کہ عام انسانوں کی گرفتاریوں اور پریشانیوں کی جڑ کیا ہے؟

اس سوال کا جواب ہم امام محمد باقر علیہ السلام کی زبان سے حاصل کر سکتے ہیں، جہاں آپؑ نے فرمایا: "مَا مِنْ نَکْبَةٍ تُصِيبُ الْعَبْدَ إِلَّا بِذَنْبٍ" (الکافى، ج 2، ص 269، ح 4)یعنی کسی بھی بلا یا مصیبت کا انسان پر پہنچنا صرف گناہ کی وجہ سے ہوتا ہے۔

یہی وہ بات ہے جو قرآنِ کریم میں بھی بیان ہوئی ہے: "وَمَا أَصَابَكُم مِّن مُّصِيبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتْ أَيْدِيكُمْ وَيَعْفُوا عَنْ كَثِيرٍ" (سوره شورى، آیت 30)یعنی جو بھی مصیبت تم پر آتی ہے وہ تمہارے کئے ہوئے اعمال کی وجہ سے ہے، اور بہت سی چیزوں کو اللہ معاف بھی کر دیتا ہے۔

سوال: سب سے بڑا شر اور سب سے بڑا گناہ کیا ہے؟

ہم نے یہ جان لیا کہ عام انسانوں کی گرفتاریوں اور پریشانیوں کی جڑ گناہ ہے۔ اب یہ جاننا ضروری ہے کہ امام محمد باقر علیہ السلام کی نظر میں کون سا گناہ یا کون سے گناہ سب سے برے ہیں اور کون سا سب سے بڑا شر ہے جو انسان کی پریشانی کا سبب بنتا ہے۔

حضرت امام محمد باقر علیہ السلام نے اس سوال کے جواب میں فرمایا: "إِنَّ اللّٰهَ جَعَلَ لِلشَّرِّ أَقْفَالاً وَ جَعَلَ مَفَاتِيحَ تِلْكَ الْأَقْفَالِ الشَّرَابَ وَ الْكِذْبَ شَرٌّ مِنْ ذَلِكَ" (بحارالانوار، ج 72، ص 236، ح 3؛ منتخب میزان الحکمة، ص 269)یعنی بے شک اللہ تعالیٰ نے شر اور برائی کے لئے تالا لگایا ہے اور ان تالوں کی چابھیاں شراب ہے اور جھوٹ ہے، جھوٹ بولنا شراب سے بھی بدتر ہے۔

"أِيَّاكَ وَ الْكَسَلَ وَ الضَّجَرَ فَإِنَّهُمَا مِفْتَاحُ كُلِّ شَرٍّ" (تحف العقول، ص 295)یعنی تنہائی اور سستی (کاہلی) سے بچو، کیونکہ یہ دونوں ہر برائی کی چابھی ہیں۔

خاص طور پر نماز میں سستی کے بارے میں فرمایا:‌ "لا تَقُمْ إِلَى الصَّلَاةِ مُتَكَاسِلًا وَلا مُتَنَعِّسًا وَلَا مُتَمَثِّقِلًا فَإِنَّهَا مِنْ خِلَلِ النِّفَاقِ" (منتخب میزان الحکمة، ص 301، تفسیر العیاشى، ج 1، ص 242، ح 134)یعنی نماز کو سستی، نیند آلودگی یا بیحالی کے ساتھ نہ پڑھو، کیونکہ یہ عمل نفاق کے راستوں (یا علامات) میں شمار ہوتا ہے۔

سوال: انسان کو گناہوں اور مصیبتوں سے نجات کیسے نصیب ہوگی؟

یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ گناہ انسان کے مشکلات اور پریشانیوں کا سبب بنتے ہیں۔ اب مناسب ہے کہ یہ جانا جائے کہ انسان کے لئے مصیبتوں، بلاؤں اور گناہوں سے نجات کا راستہ کیا ہے؟

حضرت امام محمد باقر علیہ السلام انسان کی نجات کو پاکیزگی اور تقویٰ میں قرار دیتے ہیں، اور اس بارے میں آپؑ کی نہایت بہترین اور خوبصورت احادیث موجود ہیں، جن میں سے چند بطور نمونے پیش ہیں:

1. امام محمد باقر علیہ السلام نے سعد خیر کو لکھے گئے ایک خط میں فرمایا: "انّ اللّه یقى بالتّقوى عن العبد ما غرب عنه عقله و یجلى بالتّقوى عنه عماه و جهله و بالتّقوى نجا نوحٌ و من معه فى السّفینة و صالحٌ و من معه من الصّاعقة و بالتّقوى فاز الصّابرون و نجت تلک العصب من المهالک" (منتخب میزان الحکمہ، ص 544، ح 6660،به نقل از: الکافى، ج 8، ص 52، ح 16)بے شک اللہ تعالیٰ تقویٰ کے ذریعہ اپنے بندے کو اُن چیزوں سے محفوظ رکھتا ہے جو اس کی عقل کی سمجھ سے اوجھل ہوتی ہیں اور تقویٰ ہی کے ذریعہ اس کی نابینائی (اندھے پن) اور جہالت کو دور کرتا ہے۔ تقویٰ ہی کی بدولت حضرت نوحؑ اور ان کے ساتھ کشتی میں سوار لوگ نجات پا گئے اور تقویٰ ہی کے سبب حضرت صالحؑ اور ان کے ساتھی صاعقہ (عذاب) سے محفوظ رہے۔ نیز تقویٰ ہی کے ذریعہ صبر کرنے والے کامیاب ہوئے اور وہ گروہ ہلاکت سے نجات پا گئے۔

2. ایک اور مقام پر امام محمد باقر علیہ السلام نے سعد خیر سے فرمایا: "اوصیک بتقوى اللّه فانّ فیها السّلامة من التّلف و الغنیمة فى المنقلب" (منتخب میزان الحکمہ، ص 544، ح 6660،به نقل از: الکافى، ج 8، ص 52، ح 16)میں تمہیں تقویٰ الٰہی کی نصیحت و وصیت کرتا ہوں، کیونکہ اسی میں ہلاکت سے سلامتی ہے اور انجام کے وقت کامیابی اور نفع حاصل ہونا ہے۔

اسی کے ساتھ امام محمد باقر علیہ السلام نے متقی لوگوں کی علامتیں اور نشانیاں بھی بیان فرمائی ہیں تاکہ انسان خود اپنا جائزہ لے سکے کہ آیا اس میں تقویٰ کی نشانیاں موجود ہیں یا نہیں۔

امام محمد باقر علیہ السلام نے اپنے جدّ بزرگوار امیرالمؤمنین امام علی علیہ السلام سے روایت نقل کیا ہے کہ آپؑ نے فرمایا: "انّ لاهل التّقوى علاماتٍ یعرفون بها صدق الحدیث و اداء الامانة و الوفاء بالعهد..و قلّة المؤاتاة للنّساء و بذل المعروف و حسن الخلق وسعة الحلم و اتّباع العلم فیما یقرّب الى اللّه" (منتخب میزان الحکمہ، ص 545 - 546، ح 6675؛ الخصال، صدوق، ص 483، ح 56)بے شک اہلِ تقویٰ کی کچھ نشانیاں ہوتی ہیں جن کے ذریعہ وہ پہچانے جاتے ہیں: سچ بولنا، امانت ادا کرنا اور عہد (وعدے) کو پورا کرنا؛ عورتوں سے کم میل جول رکھنا، نیکی اور بھلائی میں خرچ کرنا، خوش اخلاقی، بردباری اور حلم کی وسعت اور اُس علم کی پیروی کرنا جو اللہ کے قریب کر دے۔

سوال: علم میں اضافہ کیسے کریں؟

یہ بات بیان ہو چکی ہے کہ متقین کی نشانیوں میں سے ایک علم و دانش کی پیروی ہے۔ اس ضمن میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا علم و دانش میں اضافہ صرف محنت اور کوشش سے ہی ممکن ہے یا اس کے علاوہ بھی ایسے راستے ہیں جن پر توجہ دینا علم کے حصول کے لئے ضروری ہے؟

اس کے جواب میں حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کی نہایت خوبصورت رہنمائیاں ہیں، جن میں سے بعض کی طرف اشارہ کیا جا رہا ہے۔

امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا: "من عمل بما یعلم علّمه اللّه ما لا یعلم" (اعلام الدین، ص 301، به نقل از: منتخب میزان الحکمة، ص 370، ح 4583)جو شخص اپنے معلوم علم پر عمل کرتا ہے، اللہ تعالیٰ اسے وہ علم بھی عطا فرما دیتا ہے جسے وہ نہیں جانتا۔

امام محمد باقر علیہ السلام نے سلمہ بن کہیل اور حکم بن عتبہ سے فرمایا: "شرّقا و غرّبا لن تجدا علماً صحیحاً الّا شیئاً یخرج من عندنا اہل البیت" (بحارالانوار، ج 2، ص 92، ح 20؛ منتخب میزان الحکمة، ص 370)تم مشرق کی طرف جاؤ یا مغرب کی طرف، تمہیں کوئی صحیح علم نہیں ملے گا مگر وہی جو ہم اہلِ بیتؑ کی جانب سے صادر ہوا ہو۔

ابن ابی الحدید نے شرح نہج البلاغہ کی پہلی جلد کے مقدمہ میں اعتراف کیا ہے کہ تمام علوم کا سرچشمہ اہلِ بیتؑ اور امیر المومنین علیہ السلام کی ذات ہے۔

مزید ان نکات پر بھی توجہ کریں!

1. جہاں بھی علم ملے، اسے حاصل کرو!

حضرت امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا: "خذوا الکلمة الطیّبة ممّن قالها و إن لم یعمل بها" (تحف العقول، ص 291)اچھی بات کو اس کے کہنے والے سے لے لو، اگرچہ وہ خود اس پر عمل نہ کرتا ہو۔

2. بے علم دل، ویران گھر کی طرح ہے

امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا: "إنّ قلباً لیس فیه شیءٌ من العلم کالبيت الخراب الّذی لا عامر له" (الامالى، الطوسى،ص 543، ح 1165، به نقل از: منتخب میزان الحکمة، ص 363.)وہ دل جس میں علم نہ ہو، اس ویران گھر کی طرح ہے جس میں کوئی رہتا نہ ہو۔

3. معلم کا اجر و ثواب

امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا: "من علّم باب هدىً فله مثل أجر من عمل به ولا ينقص أولئك من أجورهم شيئاً" (تحف العقول، ص 297)جو شخص ہدایت کا کوئی راستہ سکھاتا ہے، اسے اس پر عمل کرنے والوں کے برابر اجر ملتا ہے، اور ان کے اجر میں کوئی کمی نہیں ہوتی۔

اور ایک دوسرے مقام پر فرمایا: "معلّم الخير يستغفر له دوابّ الأرض و حيتان البحور و كلّ صغيرة و كبيرةٍ في أرض اللّه و سمائه" (ثواب الاعمال، ص 131)خیر (بھلائی) سکھانے والے معلم کے لئے زمین کے جانور، سمندروں کی مچھلیاں اور اللہ کی زمین و آسمان میں موجود ہر چھوٹی بڑی مخلوق استغفار کرتی ہے۔

سوال: علم و دانش کے حصول میں عقل کا مقام کیا ہے؟

علم کے حصول کی ضرورت اور اس سے متعلق نکات کے بیان کے بعد یہ سوال سامنے آتا ہے کہ حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کے نزدیک عقل، بطورِ ذریعۂ حصولِ علم و دانش، کس مقام و مرتبہ پر فائز ہے؟

حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کے نزدیک عقل اللہ تعالیٰ کی سب سے برتر مخلوق ہے، جس سے بڑھ کر کوئی چیز پیدا نہیں ہوئی۔ اسی لئے آپؑ نے فرمایا: "لمّا خلق اللّه العقل قال له اقبل فاقبل ثمّ قال له ادبر فادبر فقال و عزّتى و جلالى ما خلقت خلقاً احسن منک ایّاک آمر و ایّاک انهى و ایّاک اُثیب و ایّاک اُعاقب" (الکافى، ج 1، ص 26، ح 26؛ منتخب میزان الحکمة، ص 358)جب اللہ تعالیٰ نے عقل کو پیدا کیا تو اس سے فرمایا: آگے آ، تو وہ آگے آ گئی۔ پھر فرمایا: پیچھے ہٹ، تو وہ پیچھے ہٹ گئی۔ تب اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اپنی عزت اور جلال کی قسم! میں نے تجھ سے بہتر کوئی مخلوق پیدا نہیں کی۔ میں ہی تجھے حکم دیتا ہوں، میں ہی تجھے روکتا ہوں، میں ہی تجھے ثواب دیتا ہوں اور میں ہی تجھے (نافرمانی کی صورت میں) سزا دیتا ہوں۔

اور آپ کے فرمان کے مطابق، ان باتوں میں سے جو اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰؑ کی جانب وحی فرمائی ہے ، یہ بھی تھا: "انا اؤاخذ عبادى على قدر ما اعطیتهم من العق" (المحاسن، برقى، ج 1، ص 308، ح 608، به نقل از: منتخب میزان الحکمة، ص 358)میں اپنے بندوں سے اسی قدر بازپرس کروں گا جتنا میں نے انہیں عقل عطا کی ہے۔

حضرت امام محمد باقر علیہ السلام نے مزید فرمایا: "وجدت فى الکتاب (یعنى کتاباً لعلىٍّ) انّ قیمة کلّ امرءٍو قدره معرفته انّ اللّه تبارک و تعالى یحاسب النّاس على قدر ما آتاهم من العقول فى دار الدّنیا" (معانى الاخبار، صدوق، ج 1، ص 2، به نقل از منتخب میزان الحکمة، ص 358)میں نے کتاب میں (یعنی امیر المومنین امام علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی تحریر کردہ کتاب میں) یہ بات پائی ہے کہ ہر انسان کی قیمت اور اس کی قدر و منزلت اس کی معرفت کے مطابق ہے، اور بے شک اللہ تبارک و تعالیٰ دنیا میں لوگوں کو عطا کی گئی عقل کے مطابق ہی حساب لے گا۔"

یہ تمام احادیث حضرت امام باقر علیہ السلام کے نزدیک عقل کے بلند مقام کو بخوبی واضح کرتی ہیں اور یہ بتاتی ہیں کہ عقل اللہ تعالیٰ کی سب سے اعلیٰ مخلوق ہے، شریعت کی ذمہ داری کا معیار ہے اور قیامت کے دن حساب و کتاب کا بنیادی پیمانہ ہے۔

سوال۔ اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے محبوب عمل کون سا ہے؟

ہر وہ عمل جو اللہ کے لئے انجام دیا جائے محبوبِ الٰہی ہے، لیکن ان میں سب سے برتر وہ عمل ہے جو کسی موسم یا کسی خاص وقت تک محدود نہ ہو، بلکہ اس میں دوام اور تسلسل ہو۔ اسی بنا پر حضرت امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا: "ما من شیءٍ أحبّ إلی اللّٰه من عملٍ یداوم علیه وإن قلّ" (الکافى، ج 2، ص 82، ح 1 و 3؛ منتخب میزان الحکمة، ص 373)یعنی اللہ کے نزدیک اس عمل سے زیادہ محبوب کوئی چیز نہیں جو پابندی اور مسلسل انجام دیا جائے، چاہے وہ مقدار میں کم ہی کیوں نہ ہو۔

مثال کے طور پر روزانہ قرآن کی ایک ہی صفحہ تلاوت کرے، مگر اسے ہمیشہ جاری رکھے یا ہفتہ میں دو مرتبہ زیارت پر جائے، لیکن باقاعدگی کے ساتھ انجام دے۔

بعض لوگ ماہِ رمضان میں قرآن کی تلاوت میں حد سے زیادہ مشغول ہو جاتے ہیں، مگر سال بھر قرآن کو کھولتے تک نہیں۔

اصل راہی وہ ہے جو آہستہ مگر مسلسل چلے، راہی وہ نہیں جو کبھی تیز اور کبھی تھک کر رُک جائے۔

سوال: روزِ قیامت سب سے پہلا سوال کس چیز کے بارے میں ہوگا؟ اور قیامت کے دن سب سے زیادہ پشیمان اور شرمندہ شخص کون ہوگا؟

اس سوال کے پہلے حصے کے جواب میں کہا جا سکتا ہے کہ سب سے پہلی چیز جس کا حساب اور جانچ کی جائے گی وہ نماز ہے۔

حضرت امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا: "اِنَّ اَوَّلَ ما یُحاسَبُ بِهِ العبدُ الصَّلاةُ، فَاِن قُبِلَت قُبِلَ ما سِواها" (الکافى، ج 3، ص 268، ح 4)یعنی روزِ قیامت بندے سے سب سے پہلے نماز کا حساب لیا جائے گا، اگر نماز قبول ہو گئی تو باقی تمام اعمال بھی قبول کر لئے جائیں گے۔

واقعی وہ دن بڑا ہی جان گداز ہوگا، سب سے پہلا سوال نماز ہی کا ہوگا اور اس عظیم اہمیت کا راز امام محمد باقر علیہ السلام نے ایک اور حدیث میں یوں بیان فرمایا: "اَلصَّلاةُ عَمودُ الدِّینِ، مَثَلُها کَمَثَلِ عَمودِ الفُسطاط، اِذا ثَبَتَ العَمودُ ثَبَتَتِ الاَوتادُ وَالاَطناب، وَاذا مالَ العَمودُ وَانکَسَرَ لَم یَثبُت وَتَدٌ وَلا طُنُب" (المحاسن برقى، ج 1، ص 116، ح 117، به نقل از: منتخب میزان الحکمة، ص 298)یعنی نماز دین کا ستون ہے، اس کی مثال خیمے کے مرکزی ستون جیسی ہے؛ جب ستون مضبوط اور قائم ہو تو میخیں اور رسیاں بھی مضبوط رہتی ہیں اور اگر ستون ٹیڑھا ہو جائے یا ٹوٹ جائے تو نہ کوئی میخ باقی رہتی ہے اور نہ کوئی رسی۔

اور سوال کے دوسرے حصے کے بارے میں حضرت امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے ہیں: "اِنَّ اَشَدَّ النّاسِ حَسرَةً یَومَ القِیامَةِ عَبدٌ وَصَفَ عَدلاً ثُمَّ خالَفَهُ اِلٰی غَیرِه" (بحارالانوار، ج 78، ص 179)یعنی قیامت کے دن سب سے زیادہ حسرت و ندامت میں مبتلا وہ بندہ ہوگا جو انصاف کی بات تو کرتا رہا، مگر خود اس کے خلاف عمل کرتا رہا۔

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha