تحریر: مولانا سید علی ہاشم عابدی
حوزه نیوز ایجنسی| عقلی اور نقلی (قرآن و احادیث) دلیلوں کی بنیاد پر ہمارا عقیدہ ہے کہ ہمارے بارہ امام علیہم السلام سب کے سب انسان کامل، اللہ کی جانب سے معصوم امام ہیں، ان کا علم لدنی ہے، وہ زمین کے وارث اور تمام مخلوقات پر اللہ کی حجت ہیں، جس طرح خدا کو کوئی مانے یا نہ مانے، کوئی اسکی عبادت و اطاعت کرے یا نہ کرے اس کی خدائی میں فرق نہیں آنے والا اسی طرح کوئی بارہ اماموں کو اپنا امام، رہبر، پیشوا مانے یا نہ مانے ان کی امامت میں کوئی فرق نہیں آنے والا ہے۔
کائنات میں جو چیزیں فضیلت ہیں اللہ نے وہ سب انکو عطا کی ہیں۔ اگر کوئی چیز ان سے دور ہے تو بھلے ہی وہ لوگوں کی نظر میں فضیلت ہو لیکن در حقیقت وہ فضیلت نہیں ہے۔ نیز ائمہ معصومین علیہم السلام امامت ، علم و فضیلت میں مساوی ہیں لیکن زمانے کے حالات اور تقاضوں کے سبب بعض فضیلتیں کسی ایک سے مخصوص ہو گئی ہیں لیکن اس کا قطعاً یہ مطلب نہیں کہ دیگر ائمہ علیہم السلام کے یہاں اس کا فقدان ہے بلکہ اگر ان کے زمانے کے حالات بھی ویسے ہی ہوتے تو وہ بھی وہی عمل انجام دیتے جو انھوں نے انجام دیا ہے۔
معلم بشریت، مربی انسانیت حضرت ابو جعفر امام محمد باقر علیہ السلام کے زمانے کے حالات کا تقاضہ تھا اور آپؑ کو موقع بھی ملا کہ آپؑ لوگوں کی تعلیم و تربیت فرمائیں تو آپؑ نے اور آپؑ کے بعد آپؑ کے فرزند ارجمند امام جعفر صادق علیہ السلام نے لوگوں کی تعلیم و تربیت فرمائی اور چار ہزار سے زیادہ شاگرد تربیت کئے اور ان شاگردوں میں جناب زرارہ، جناب ابوبصیر ، جناب محمد بن مسلم اور جناب برید بن معاویہ رضوان اللہ تعالیٰ علیہم سر فہرست ہیں کہ جنہوں نے آل محمد علیہم السلام کا تذکرہ اور احادیث امام محمد باقر علیہ السلام کو احیاء کیا۔
آج ہمارا دین چاہے وہ عقائد ہوں یا احکام و اخلاق سب کے سب امام محمد باقر علیہ السلام اور امام جعفر صادق علیہ السلام کی احادیث کے مرہون منت ہیں ۔ نہ صرف شیعہ فقہ بلکہ اہل سنت کی بھی چار فقہیں بھی آپؑ ہی کے زیر اثر ہیں کیوں کہ ان چاروں اماموں نے بلا واسطہ یا با واسطہ آپ حضرات سے ہی کسب فیض کیا تھا۔
ذیل میں امام محمد باقر علیہ السلام کی دس خصوصیات پیش ہیں۔
1۔ ولادت سے برسوں پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے آپؑ کی ولادت کی خبر دی۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنے جلیل القدر صحابی جناب جابر بن عبداللہ انصاری ؓ سے فرمایا: ‘‘اِنّكَ سَتَدْرِكُ يا جابِرُ رَجُلاً مِنْ اَهْلِ بيتي اِسْمُهُ اِسْمِي وَ شمائِلُهُ شَمائِلي، يَبْقَرُ الْعِلْمَ بَقراً فَاِذا لَقِيتُهُ فَأقْرأهُ عَنِي السّلام’’ عنقریب تم میرے اہل بیت میں سے ایک ایسے شخص سے ملو گے جو میرا ہمنام ہوگا ، میرے ہم شکل ہو گا ، وہ علم کو نشر کرے گا لہذا جب تم اس سے ملنا تو میرا سلام کہنا۔
(عوالم العلوم و المعارف و الأحوال من الآیات و الأخبار و الأقوال , جلد 19 , صفحه 186)
2۔ ولادت سے پچاس برس قبل لقب ‘‘باقر’’ سے ملقب ہوئے
دوسری خصوصیت یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم نے امام محمد باقر علیہ السلام کو ان کی پیدائش سے پچاس سال پہلے ایک خاص لقب (باقر: علم کو پھیلانے والا) سے یاد کیا ، آپؐ نے یہ اس وقت فرمایا جب جناب جابرؓ سے آپؐ کی ملاقات ہوئی۔ ‘‘اِسْمُهُ اِسْمِي وَ شمائِلُهُ شَمائِلي، يَبْقَرُ الْعِلْمَ بَقرا’’ وہ میرا ہم نام اور ہم شکل ہو گا اور علم کو پھیلائے گا۔ (بحارالانوار، جلد 46، صفحہ 294)
شیخ صدوقؒ نے امام محمد باقر علیہ السلام کےلقب ‘‘باقر’’ کے سلسلہ میں اس طرح روایت بیان فرمائی۔ عمر بن شمر کا بیان ہے کہ میں نے جناب جابرؓ سے پوچھا کہ امام محمد باقر علیہ السلام کو ‘‘باقر’’ کیوں کہتے ہیں؟ فرمایا: اس کی وجہ یہ ہے کہ بَقَرَ الْعِلْمَ بَقْرَا اى شَقَّهُ وَ اَظْهَرَهُ اَظْهارا۔ علم کو شگافتہ کیا اور اسے ظاہر کیا جو ظاہر کرنے کا حق تھا۔
3۔ ماں باپ دونوں لحاظ سے پہلے علوی اور فاطمی
امام محمد باقر علیہ السلام کے والد ماجد حضرت امام زین العابدین علیہ السلام ہیں اور والدہ ماجدہ امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام کی دختر نیک اختر حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا تھیں۔
4۔ واقعہ کربلا کے گواہ
خود امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا: جب میرے جد بزرگوار امام حسین علیہ السلام کو شہید کیا گیا تو اس وقت میری عمر چار برس تھی ، انکی شہادت مجھے یاد ہے۔ (تاریخ یعقوبی، جلد 2، صفحہ 320)
روایت میں ہے کہ اس کمسنی میں بھی امام ؑ نے یزید پلید کا مقابلہ کیا اور اسے خود اس کے دربار میں رسوا کیا کہ جب یزید نے اپنے درباریوں سے اسیران کربلا کے سلسلہ میں مشورہ کیا تو ان خبیثوں نے کہا کہ تمام اسیروں کو قتل کر دیا جائے تو امام محمد باقر علیہ السلام نے اللہ کی حمد اور نبیؐ پر درود و سلام کے بعد فرمایا: ائے یزید! تیرے درباری تو فرعون کے درباریوں سے زیادہ برے ہیں کہ جب فرعون نے ان سے جناب موسیٰ اور جناب ہارون علیہما السلام کے سلسلہ میں مشورہ کیا تو ان لوگوں نے کہا کہ انہیں مہلت دی جائے لیکن تیرے درباریوں نے ہمارے قتل کا مشورہ دیا ہے، جانتے ہو اس کی وجہ کیا ہے؟ یزید نے پوچھا وجہ کیا ہے؟ امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا : فرعون کے درباری حلال زادے تھے لیکن تیرے درباری حرام زادے ہیں کیوں کہ پیغمبروںؑ اور انکی اولاد کو حرام زادے کے سوا کوئی قتل نہیں کرتا ۔ امام باقر علیہ السلام کی گفتگو سن کر یزید حیرت زدہ اور خاموش ہو گیا اور اہل حرم کے قتل سے رک گیا ۔ (اثبات الوصیہ مسعودی، صفحہ 181)
5۔ 57 برس اموی اور مروانی حکمرانوں کے دور اقتدار میں
امام محمد باقر علیہ السلام پہلی رجب سن 57 ہجری کو مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے اس وقت اموی حاکم معاویہ کی حکومت تھی اور 7؍ ذی الحجہ سن 114 ہجری کو شہید ہوئے اس وقت مروانی حاکم ہشام بن عبدالملک کی حکومت تھی۔ ان تمام ظالموں کے باوجود آپؑ نے شیعیت کو بقا عطا فرمائی ۔ مثلاً ایک مختصر حدیث کے ذریعہ آپؑ نے شیعیت کو پہچنوایا:
‘‘بنی الاسلام علی خمسه اشیا الصلاه،واالزکاه، و الحج، والصوم، والولایه ’’ اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے۔ نماز، زکات، حج، روزہ اور ولایت۔ یعنی آپ نے اس پر آشوب ماحول میں بھی خالص شیعوں کو ولایت کی اہمیت سے آگاہ فرمایا۔
6۔ اجتہاد کے احکام و قواعد کا بیان
مروانی حکومت اہل بیت مخالف فقہ کو پروان چڑھانے میں مشغول تھی اور دباری مُلّا قیاس و استحسان کو رائج کرنے میں مصروف تھے ، امام محمد باقر علیہ السلام نے استصحاب، تجاوز وفراغ، لاضرر، لا تعاد اور علاج تعارض در اخبار جیسے قواعد پیش کر کے قرآن و سنت کے مطابق عمل کرنے کی رہتی دنیا تک لوگوں کو دعوت دی۔
7۔ احیاء احادیث
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بعد انکی جگہ پر زبردستی آنے والوں نے یہ کہہ کر کہ قرآن ہمارے لئے کافی ہے خود حضورؐ کی حدیثوں پر پابندی لگا دی اور کعب الاحبار جیسے یہودیوں کو نام نہاد اسلامی حاکم کا مشاور خاص بنا دیا گیا نتیجہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی احادیث کے بجائے اسرائیلیات اسلام میں داخل ہو گئیں ، جب اسلامی حکومت مدینہ سے شام منتقل ہوئی تو سرجون جیسے عیسائی کو حاکم نے مشاور بنا لیا ۔ اس کے بعد یہ سلسلہ چلتا رہا ، یہاں تک عمر بن عبدالعزیز حاکم ہوا تو اس نے نشر احادیث پر لگی پابندی کو ہٹایا۔ امام محمد باقر علیہ السلام نے ایسے ماحول میں احادیث رسولؐ کا احیاء فرمایا کہ جناب محمد بن مسلم ؒ نے تیس ہزار حدیثیں حفظ کی اور جناب جابر جعفی نے ستّر ہزار حدیثیں حفظ فرمائی۔ یہی سبب ہوا کہ آپ کی علمی شہرت زباں زد خاص و عام ہو گئی۔
8۔ علم کلام و مناظرہ کو فروغ۔
علم کلام و مناظرہ کے سلسلہ میں تاریخی شواہد کتب تاریخ و احادیث میں کثرت سے مرقوم ہیں کہ آپؑ نے مختلف ادیان ومذاہب سے مناظرہ فرمایا اور مقابل کو شکست قبول کرنے پر مجبور کیا۔
9۔ مدرسہ علمیہ کا قیام
امام محمد باقر علیہ السلام نے باقاعدہ طور پر مدرسہ علمیہ کو قائم فرمایا، جسمیں چار ہزار سے زیادہ شاگرد پروان چڑھے ، جنمیں سے بعض حسب ذوق دینی اور عصری علوم کے ایسے ماہر ہوئے کہ ان کی علمی جلالت و عظمت کا ذکر آج بھی اہل علم کی بزم کی زینت ہے۔
10۔ واقعہ کربلا کا تعارف۔
امام محمد باقر علیہ السلام نے زیارت عاشورا تعلیم فرمائی۔ سو لعن اور سو سلام کے ذریعہ تولا اور تبرا کی تعلیم دی یعنی مظلوموں کی مظلومیت اور ظالموں کے ظلم کو ہمیشہ کے لئے ظاہر فرما دیا۔
خدایا! ہمیں امام محمد باقر علیہ السلام کی معرفت عطا فرما اور انکی اطاعت کی توفیق کرامت فرما۔