۱۷ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۲۷ شوال ۱۴۴۵ | May 6, 2024
آية الله بهشتي والإمام الخامنئي

حوزه/ شہید بہشتی کی شخصیت اب بھی ناشناختہ ہے۔ طول تاریخ میں مفکرین اور معماران ہمیشہ ہی اپنے عصر میں یا تو گمنام رہے ہیں یا غیر معروف رہے ہیں۔ یہ لوگ اپنے عصر میں نہیں بلکہ بعد کے زمانے کی ترجمانی کر رہے ہوتے ہیں۔ شہید آیت اللہ ڈاکٹر محمد حسین بہشتی کی شخصیت بھی اپنی زندگی میں بے قدری کا شکار رہی ہے۔

تحریر: عارف بلتستانی

حوزه نیوز ایجنسی| شہید بہشتی کی شخصیت اب بھی ناشناختہ ہے۔ طول تاریخ میں مفکرین اور معماران ہمیشہ ہی اپنے عصر میں یا تو گمنام رہے ہیں یا غیر معروف رہے ہیں۔ یہ لوگ اپنے عصر میں نہیں بلکہ بعد کے زمانے کی ترجمانی کر رہے ہوتے ہیں۔ شہید آیت اللہ ڈاکٹر محمد حسین بہشتی کی شخصیت بھی اپنی زندگی میں بے قدری کا شکار رہی ہے، لیکن آج ایک ایسی شخصیت کی زبانی شہید بہشتی کو پڑھیں گے جو ساری دنیا کے انٹلکچولز کی نظر میں ذہن و فطین، بصیر و حکیم، مدیر و مدبر اور دانا ترین و آگاہ ترین شخصیت ہے۔ وہ بزرگوار، سید علی خامنہ ای مد ظلہ العالی کی شخصیت ہے۔ جنہوں نے شہید بہشتی کی شخصیت کو اپنی زبانی بیان کئے ہیں۔ ہم موصوف کے مختلف بیانات کو اختصار کی خاطر بغیر کسی شرح و تفصیل کے قارئین تک پہنچا رہے ہیں۔

رہبر معظم سید علی خامنہ ای شہید کی برسی پر اور مختلف حکومتی وفد کے ساتھ ملاقاتوں میں شہید کی مختلف پہلو پر روشنی ڈالتے ہوئے بیان کرتے ہیں۔ہم یہاں شہید بہشتی کے بارے میں رہبر انقلاب کے بعض فرامین کو نقل کریں گے۔

"شہید بہشتی بہت ہی عظیم شخص تھے۔ میری نظر میں، لوگوں کو ابھی بھی شہید بہشتی کی شناخت نہیں ہوئی ہے۔ مستقبل میں شہید بہشتی شناخت ہو جائے گی۔ ہم شہید بہشتی کو جانتے تھے۔ انقلاب کو آگے بڑھانے کی راہ میں کئی سالوں سے ان کی کوششیں دیکھی تھیں۔ ہمیں کچھ دکھانے اور ثابت کرنے کی ضرورت نہیں، خود ثابت ہو جائے گا۔‘‘

"شہید بہشتی کی خصوصیات میں سے ایک خصوصیت تقویٰ تھی۔ شہید بہشتی کے بارے میں میرا تاثر یہ ہے کہ انہوں نے گناہ نہیں کیا، میں یہ نہیں کہنا چاہتا کہ وہ معصوم تھے۔ لیکن میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ان کا ہمارے ساتھ برتاؤ اور ان کے دوستوں کے ساتھ ان کا تعلق ایسا تھا کہ انہوں نے ان کے ساتھیوں کے ذہنوں میں اس کے لیے گناہ کا شبہ بہت کمزور کر دیا تھا اور میرا خیال ہے کہ انہوں نے کوئی گناہ نہیں کیے۔"

"میں خود ان لوگوں میں سے ہوں جو یہ سمجھتے ہیں کہ مجھے ان کی شخصیت کے زیادہ تر پہلوؤں کو بیان کرنا ہے اور مجھے یقین ہے کہ میں ایسا نہیں کر سکتا۔ وجہ یہ ہے کہ شہید بہشتی حقیقی معنوں میں ہمارے نایاب شخصیات میں سے ایک تھے۔ شہید بہشتی کی شہادت کے بعد میں نے اپنے قریبی دوستوں کو یہ بات کئی بار بتائی ہے کہ شہید کوئی معمولی شخصیت نہیں تھے بلکہ ایک فوق العادہ شخصیت تھے۔ جس کو ہم نے ان میں مشاہدہ کیا۔ جن عالمی شخصیات نے اسے دیکھا تھا ان کا بھی یہی احساس تھا... وہ فقہ اور فلسفہ میں ماہر تھا اور برسوں کی مبارزے کے دوران انہوں نے اپنی مہارت کو دوسرے طریقوں سے جو حوزے سے حاصل کیا تھا اس کو استعمال کرکے دکھایا۔ یقیناً اگر وہ حوزے میں ٹھہرتے تو اس وقت کے مسلم مجتہد ہوتے اور لوگ ان کے مقلد ہوتے۔"

"شہید بہشتی کے علمی پہلوؤں کے بارے میں، سب سے پہلے، وہ علم فقہ میں ایک برجستہ شخصیت تھے۔ قم میں بہت اچھی تعلیم حاصل کی تھی۔ آپ جانتے ہیں کہ "مرحوم داماد" کا فقہ کا درس تھا کہ اگرچہ ان کے درس میں زیادہ لوگ شریک نہیں تھے لیکن مرحوم کے درس میں اکثر نامور اور ممتاز علماء موجود تھے۔ البتہ ان میں سے بعض ان کے درس کے ساتھ مخصوص تھے اور شہید بہشتی مرحوم داماد کے درس فقہ کے ممتاز اور نمایاں شاگرد تھے۔ جب میں قم گیا تھا تو شہید بہشتی قم کے مشہور بزرگوں میں سے تھے۔ یعنی اس وقت وہ استاد تھے اور سطوح عالیہ کے طلاب کو پڑھاتے تھے اور میں شہید بہشتی کی کلاس میں جانے والے طلبہ کو جانتا ہوں۔ ان میں "مرحوم داماد" کے فرزندان بھی تھے جنہوں نے بہشتی مرحوم کے دروس میں شرکت کی اور شہید نے اپنے استاد کے بچوں کی تربیت کی۔ فقہ کے نقطہ نظر سے اس بات کی نشاندہی ہوتی ہے کہ شہید بہشتی ایک بزرگ شخصیت تھے۔"

" بعد میں ہم نے شہید بہشتی کی اسی وسیع ظرفی اور مضبوط فکر کے اثرات، مختلف مسائل و حالات اور مبارزے کے دوران ہونے والے مباحثوں میں دیکھے۔ شہید کو موضوع پر مکمل دسترس حاصل تھا اور مسائل کو بہترین طریقے سے حل کرتے تھے۔ بعد میں فلسفیانہ مباحث میں یہ بات بالکل واضح تھی کہ مرحوم بہشتی ایک ممتاز شخصیت ہیں۔"

"آپ بہت ہی دیندار اور متقی تھے۔ شروع ہی سے دین اور شریعت کو صحیح طور پر قبول کیا اور پوری پاکیزگی اور خلوص کے ساتھ وہ شریعت کے داعی اور دین کے ماننے والے تھے۔ وہ دکھاوے اور منافقت اور اخلاص اور پاکیزگی کے خلاف کاموں سے کنارہ کشی اختیار کر لیتے تھے اور اس شخص کو ناپسند کرتے تھے جس میں یہ صفات ہوں۔"

"مرحوم شہید بہشتی اہلِ تحقیق تھے اور ان کا تحقیقی کام خود ایک انقلاب اور مبارزہ تھا۔ آپ جوانی اور نوعمری سے ہی، مبارزہ کے مسائل میں مشغول ہو گئے اور تنظیموں اور سیاسی تحریکوں سے آشنا ہو گئے، پھر قم تشریف لے آئے اور تحصیلی سلسلے جاری رکھا۔ مگر اس دوران بھی سیاسی فکر اور سیاسی رجحانات نے آپ کے ذہن سے پیچھا نہیں چھوڑا۔"

"آپ قم میں اس فکر میں پڑ گیا کہ اگر ہم سیاسی طور پر مبارزہ کرنا چاہتے ہیں تو اس کا ہدف کیا ہونا چاہئیے اور کن ذرائع سے لڑائی لڑنی چاہیے؟ واضح رہے کہ یہ بنیادی طور پر شہید بہشتی کے تحقیقی کام کی روح تھی۔ ہدف ایک آئیڈیل اور مثالی معاشرہ بنانا تھا لیکن وہ معاشرہ کس کے ساتھ چلائے کہ وہ اپنے اصل ٹریک پر واپس آئے؟ یہیں سے شہید بہشتی کو احساس ہوا کہ اس کےلئے ایک موثر انسانی قوت کی ضرورت ہے۔ لیکن وہ کن اوزاروں اور رہنمائی کے ساتھ آگے بڑھانا چاہتے ہیں، یہ یقینی تھا کہ وہ اوزار اور رہنمائی، اسلامی آئیڈیالوجی تھی اور یہیں سے شہید کو اسلام کے اصولی اور بنیادی افکار کا ادراک ہوا۔ ان کی تحقیق اس لیے تھی کہ اسلام کے فکری و اصولی بنیاد سے ہی مبارزے کی ابتدا سے فتح تک رہنمائی کر سکے اور اس فتح کے بعد نئے معاشرے کی بنیادیں ڈال سکیں۔"

"شہید بہشتی خستہ ناپذیر شخصیت تھے۔ انہوں نے فلاحی سکول میں، ہمارے کاموں میں، قرض الحسنہ کے قرض کے فنڈز میں، اشاعت کے دفتر میں، مختلف کتابوں کی طباعت میں، دوست احباب کے کاموں میں، اسلامی تنظیموں کے اقتصادی امور میں، تنازعات کے حل میں بہت زیادہ تعاون کیا اور بہت سے دوسرے کاموں میں جن میں دماغی اور جسمانی مشاغل بھی شامل تھے، لیکن اس کے باوجود کبھی کسی نے نہیں دیکھا کہ شہید بہشتی کو تھکاوٹ کی شکایت ہو، عام طور پر شہید بہشتی ایک حیرت انگیز انسان تھے اور ان میں بے پناہ صلاحیتیں موجود تھیں۔"

"شہید بہشتی، اچھے اور پسندیدہ خصائص کا مجموعہ تھے اور میں نے ذاتی طور پر شہید بہشتی جیسا شخص ماضی یا حال میں نہیں دیکھا۔ آپ کی شہادت واقعی ان کے کردار کی تکمیل تھی اور طبیعی موت ان کے لیے یقیناً معمولی تھی۔ جب شہید بہشتی زندہ تھے تو انہوں نے اپنی تمام تر طاقت اور استعداد اسلام کی ترویج کے لیے استعمال کی اور ان کی شہادت بھی اسلام کی ترویج کے لیے کارگر ثابت ہوئی۔ بلاشبہ ہمیں ان کی شہادت کا بہت دکھ ہوا اور وہ ہم سے اس وقت چھین لیے گئے جب ہمیں ان کی سب سے زیادہ ضرورت تھی۔"

"شہید بہشتی سب سے زیادہ مؤثر تھا، یعنی خود امام کو چھوڑ کر، اس جدوجہد میں کردار ادا کرنے والے، اس جدوجہد کی قیادت کرنے والے اور اس انقلاب کو سنبھالنے والے، سب سے اہم اور متاثر کن شش شخصیت مرحوم شہید بہشتی تھے۔"

"روز ہفتم تیر (ایرانی سال کا ایک مہینہ) اقتدار و استحکام کی علامت ہے۔ اس لیے کہ اگر کوئی شہید بہشتی کو جانتا ہو اور ان کی فیصلہ و اقدام، فکر و خلاقیت اور انتظام و مدیریت کی قوت سے آشنا ہو تو وہ اچھی طرح سمجھ سکتا ہے کہ ایسے شخص کو ملک کے انتظامی نظام سے ہٹانے کا کیا مطلب ہوتا ہے؟ شہید بہشتی واقعی ایک مہنگے ایشیائی پتھر کی طرح تھے جس نے اپنی حرکت سے دسیوں چیزیں پیدا کیں۔ شہید جیسی شخصیت، جو انتظام(management) میں، عمل میں، فکر میں، فقہی اور فلسفیانہ بنیادوں میں، تجربے اور عالمی نظریے میں، روشن خیال اور وسیع النظر میں اس مقام و مرتبے پر تھا کہ اگر اس نوخیز نظام کی مدیریت سے باہر نکالا جائے تو وہ نظام مفلوج ہو کر رہ جائے گا۔"

"شہید بہشتی زندہ ہے ملک کے جدید عدالتی نظام کا بانی معمار تھے. اگر شہید بہشتی، کسی ایسے ملک میں جہاں کوئی عدالتی و قضائی نظام نہیں، وہاں اسکی بنیاد رکھنا بہت آسان ہے بہ نسبت اسکے جہاں کے عدالتی اور قضائی نظام اچھے و برے اور صحیح و غلط پر مخلوط ہو۔ اس نظام کی سمت درست اور اسلامی عدالت کے قالب میں ڈھالنا بہت ہی سخت اور مشکل کام ہے۔"

"شہید بہشتی جیسی شخصیات کی شہادت انقلاب کی حقانیت اور اس کے حامیوں کے اخلاص اور صداقت کو ظاہر کرتی ہے۔ یقیناً اس دن (روز شہادت شہید بہشتی) صرف شہید بہشتی کو شہید کرنا مقصود نہیں تھا۔ بلکہ سب (پارلیمنٹیرینز) کو مارنا مقصود تھا۔ یعنی انہوں نے منصوبہ صرف شہید بہشتی کے لیے نہیں بنایا۔ اس واقعے میں آیت اللہ ہاشمی ، میں(سید علی خامنہ ای حفظه) ، شہید باہنر اور دیگر مارے جانے والے تھے۔ انقلاب کے دوران، انقلاب کی یہ تمام مشہور اور ہمہ گیر شخصیتیں شہادت سے روشناس ہوئیں اور اس مسئلہ سے منہ نہیں موڑا۔"

"بلاشبہ ایران کی سیاسی شخصیات میں شہید بہشتی پہلی شخصیت تھے۔ اس دن نہیں جس دن وہ شہید ہوا تھا۔ شروع سے ہی ایسا تھا۔ انقلابی کونسل میں شروع سے ہی، (ابھی امام کے ایران میں آنے سے پہلے اور امام کی آمد اور حکومت کے قیام کے بعد بھی) وہ انقلابی کونسل کی فعالیت میں مرکزی شخصیت تھی۔ اس چیز کو سب قبول کرتے ہیں۔ اگر انقلابی کونسل کے ارکان میں سے کوئی بھی اس واضح حقیقت سے انکار کرے تو یہ غیر منصفانہ اور ظالمانہ رویہ ہے۔" امام نے فرمایا کہ شہید بہشتی مظلوم تھے۔ ہمیں یہ بھی یاد ہے کہ وہ کتنا مظلوم تھا۔ لیکن اس پر یہ ظلم کن کی طرف سے کیا؟ جن لوگوں کو شہید کے ظلم کا جواب دینا ہے، ان میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو اسلامی ایرانی معاشرے میں اسلامی انصاف کو برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں تھے۔"

(Farsi.khamenei.ir)رہبر انقلاب کے آفیشل سایٹ سے ترجمہ کیا گیا ہے۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .