۹ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۹ شوال ۱۴۴۵ | Apr 28, 2024
شهید بهشتی

حوزه/ عدالت خواہی اور معاشرے سے پسماندگی اور محرومیت کو دور کرنا انبیائے الہی کے بنیادی اور اساسی کاموں میں شمار ہوتا تھا۔ انبیاء کی پیروی اور ان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے شہید بہشتی نے اپنے سیاسی اور سماجی آرمانوں کو قرآن کے مطابق لانے کی کوشش کی۔ شہید بہشتی قیام عدل اور معاشرے سے پسماندگی اور محرومیت کو دور کرنے کیلئے ہمیشہ کوشاں رہے۔

تحریر: ڈاکٹر فرمان علی سعیدی شگری

حوزه نیوز ایجنسی| عدالت خواہی اور معاشرے سے پسماندگی اور محرومیت کو دور کرنا انبیائے الہی کے بنیادی اور اساسی کاموں میں شمار ہوتا تھا۔ انبیاء کی پیروی اور ان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے شہید بہشتی نے اپنے سیاسی اور سماجی آرمانوں کو قرآن کے مطابق لانے کی کوشش کی۔ شہید بہشتی قیام عدل اور معاشرے سے پسماندگی اور محرومیت کو دور کرنے کیلئے ہمیشہ کوشاں رہے۔ انقلاب اسلامی ایران کو اپنے قیام سے لے کر اب تک، شہید بہشتی جیسی عظیم شخصیات اور افراد نصیب ہوئے ہیں جنہوں نے انقلابی سوچ اور فکر کے ساتھ اپنی جان و مال، ثروت اور آبرو الہی اور انقلاب اسلامی کے آرمانوں اور بلند اہداف کے لیے قربان کر دئیے۔ شہید بہشتی نے انقلاب کے ابتدائی ایام سے ہی اپنی تمام تر قوت اور طاقت کے ساتھ امام خمینی(رح) کے ساتھ دیا اور کسی بھی قسم کی قربانی دینے سے دریغ نہیں کیا۔

ان مجاہدانہ کوششوں نے ان کو یہاں تک پہنچا دیا اور اپنی جان اور خون سے انقلاب اسلامی سے اپنی وابستگی، والہانہ محبت اور سچائی کو ثابت کردیا اور خود کو اس آیۂ کریمۂ کے مصادیق میں سے قرار دے دیا:"مِنَ المُؤمِنينَ رِجالٌ صَدَقوا ما عاهَدُوا اللَّهَ عَلَيهِ ۖ فَمِنهُم مَن قَضىٰ نَحبَهُ وَمِنهُم مَن يَنتَظِرُ ۖ وَما بَدَّلوا تَبديلًا"(احزاب/22)

مومنین میں ایسے بھی مرد میدان ہیں جنہوں نے اللہ سے کئے وعدہ کو سچ کر دکھایا ہے ان میں بعض اپنا وقت پورا کرچکے ہیں اور بعض اپنے وقت کا انتظار کررہے ہیں اور ان لوگوں نے اپنی بات میں کوئی تبدیلی نہیں پیدا کی ہے۔

مردان خدا ہمیشہ اپنی رفتار و گفتار کو الہی اور قرآنی تعلیمات سے ہماہنگ اور مطابق رکھنے کی کوشش کرتے ہیں اور جو راستہ اللہ تعالی نے ان کے لیے مشخص اور معین کیا ہے اسی راستہ پر چلتے اور انبیاء اور اولیاء الہی کی سیرت اور راستہ کو اپنے لیے آئیڈیل اور نمونۂ عمل قرار دیتے ہیں۔

شہید بہشتی انہی افراد میں سے ایک تھے جو اسلامی تعلیمات کے حصول کے ساتھ ایک خستۂ ناپذیر مجاہد کی طرح، ایسے راستے کو انتخاب کیا جو انبیاء کی راہ و روش تھی۔ امام خمینی(رح) شہید بہشتی کی عظمت اور مقام کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:" بہشتی یک ملت بود، برای ملت ما" شہید بہشتی ایک ملت تھا، ہماری قوم اور ملت کیلئے۔ یہ عبارت ایسے شخص کے لیے ججتا ہے جس کی طرز زندگی مورد تائید ہو اور اولیاء الہی کی سیرت اور روش کے مطابق ہوں۔ امام خمینی(رح) کی یہ عبارت قرآن کریم کی آیات میں مشاہدہ کیا جاسکتا ہے۔

1۔توحیدی زندگی شہید بہشتی کا طرز زندگی :

شہید بہشتی جیسے مرادن الہی کی خصوصیات میں سے ایک خصوصیت، خداپر یقین اور معرفت میں غرق ہونا ہے۔ ڈاکٹر بہشتی اپنی زندگی میں اس طرح خداوند متعال کے بارے میں بولتے تھے گویا کہ خدا کو تمام عظمت اور بزرگی کے ساتھ مشاہدہ کرتاہو۔ کفر اور نفاق کے مقابل میں ان کی استقامت اور پائیداری کا راز یہی خدائی جذبہ تھا۔ شہید بہشتی کی زندگی استقامت صبر اور تحمل سے بھری ہوئی تھی۔ان کو یقین کامل تھا کہ اپنے خالق اور پالنے والا کبھی ان کو تنہا نہیں چھوڑے گا بلکہ ہر موڑ پر خداوند متعال ان کی مدد کرے گا۔بہشتی خدا کے لیے بولتےتھے، صبر کرتے تھے اور صرف خدا کے رضا کے لیے قیام کرتے تھے۔(علی کردی، مرکزاسناد انقلاب اسلامی، زندگی و مبارزات شهید بهشتی، ص44)

2۔حق کا دفاع اور باطل سے مقابلہ:

انبیاء الہی کے اہم ترین اور واضح ترین خصوصیات اور صفات میں سے ایک حق طلبی، حق کا دفاع کا اور ستکباراور باطل سے مقابلہ تھیں۔ گرچہ بعض افراد کی راہ و روش گوشہ نشینی اور معاشرے سے کٹ کے رہنا ہے۔ لیکن انبیاء الہی کی طرز زندگی اور راہ وروش گوشہ نشینی نہيں ہے اسی لیے ابنیاء الہی ہمیشہ باطل، طاغوت اور استکبار سے مقابلہ کے لیے صف اول میں کھڑے ہوتے تھے۔نمونہ کے طور پر حضرت ابراہیم علیہ السلام کی کفار اور ناحق سے برائت اور تبری کو ان کی زندگی میں مشاہدہ کیا جاسکتا ہے:" وَ إِذْ قالَ إِبْراهیمُ لِأَبیهِ وَ قَوْمِهِ إِنَّنی‏ بَراءٌ مِمَّا تَعْبُدُون"۔(زخرف/26)

شہید بہشتی کی طرز زندگی میں باطل اور استکبار سے مقابلہ کرنے کی سوچ اور فکر کو مشاہدہ کیا جاسکتا ہے۔ چنانچہ شہید بہشتی ایک جگہ پر فرماتے ہیں:" ہم نے انقلاب سے سیکھا ہے کہ جب انسان ذمہ دار اور تعلیم یافتہ انسان، چاہے مرد یا عورت، جب انسان کا حق پائمال ہورہا ہو، جب اس کے حقوق پر حملہ کیا جاتا ہے، جب اس دین اور ایمان پر حملہ اور تجاوز ہوتا ہے،جب اس کے آرمان پر حملہ ہوتا ہے، جب اس کے گھر، زندگی، ناموس اور عزت اور آبرو پر حملہ ہوجائے، جب جو چیز صحیح اور جائز طریقے سے حاصل کیا ہو، اس پر حملہ اور تجاوز ہوجائے، ایسا شخص آرام اور سکون سے نہیں بیٹھے گا اور تسلیم نہیں ہوگا۔ایسا انسان خاموش نہیں بیٹھے گا بلکہ مقابلہ کے لیے کھڑا ہوتا ہے، اپنے حقوق کے حصول کیلے جوش و جذبہ کے ساتھ اٹھ کھڑا ہوتا ہے، کوشش کرے گا اور قیام کرے گا۔(حسن اردشیری لاجیمی، گزده ای از دیدگاه های شہید بهشتی، ص 212

3۔ قیام عدل کے لیے کوشش اور محرومیت اور پسماندگی کے خاتمہ کے لیے جد و جہد

قیام عدل اور عدل اجتماعی کے قیام کے لیے جد و جہد اور معاشرے سے محرومیت اور پسماندگی کا خاتمہ انبیاء الہی کا ایک بنیادی اور اساسی مشن رہا ہے۔ شہید بہشتی جیسے افراد نے بھی اپنی سیاسی اور اجتماعی آرمانوں کو قرآنی اور الہی اہداف کے مطابق قرار دینے کی کوشش کی ، عدل اجتماعی کے قیام اور محرومیت کے خاتمہ پر خاص توجہ دیتے تھے۔ شہید بہشتی کی بہت ساری تقریریں اسی موضوع پر ہے۔ چنانچہ آپ فرماتے ہیں:" ہر معاشرہ اور اجتماع میں تمام فساد اور فتنوں کا جڑ ایک طاقتور اور عادل نظام کا نہ ہوناہے کہ اس کا نام حکومت صالح رکھتے ہیں، مشکل کو یہاں سے حل کرنی چاہے، جمہوری اسلامی جب تک عدل اقتصادی، سیاسی اور اجتماعی کے قیام میں کامیاب نہیں ہوجائے، اپنی ذمہ داری کو ادا نہیں کیا ہے، نص قرآنی کے مطابق، اسلامی اور دینی معاشرہ وہ معاشرہ ہے جس میں لوگ انبیاء الہی کے تعلیمات پر عمل پیرا ہوکروہاں عدل قائم کریں"۔(ایضا،ص208)

4۔ خود پر اعتماد، عزت نفس، استقلال اور کفار پر اعتماد اور تکیہ نہ کرنا:

شہید بہشتی جیسے انقلابیوں کی کامیابی کے رازوں میں سے ایک راز، کفار اور سامراجی اور اسکتباری طاقتوں پر اعتماد اور اعتماد نہ کرنا ہے۔ "وَ لا تَرْکَنُوا إِلَى الَّذینَ ظَلَمُوا فَتَمَسَّکُمُ النَّارُ وَ ما لَکُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ مِنْ أَوْلِیاءَ ثُمَّ لا تُنْصَرُونَ"۔(ہود/13)اور خبردار تم لوگ ظالموں کی طرف جھکاؤ اختیار نہ کرنا کہ جہّنم کی آگ تمہیں چھولے گی اور خدا کے علاوہ تمہارا کوئی سرپرست نہیں ہوگا اور تمہاری مدد بھی نہیں کی جائے گی۔

شہید بہشتی فرماتے ہیں:"ہمارا ایحنڈا اور پروگرام یہ ہے کہ ہم خود بوئیں،خود کھائیں اور اپنی زمین پر خود بیٹھیں،امریکہ اور روس اور کسی بھی بڑی طاقت کو باج نہ دیں، ہماری خارجہ پالیسی کے اصولوں میں سے ایک اہم اصول یہ ہے کہ ہر مہاجم اور حملہ کرنے والے سے دفاع کے لیے ہم خود اپنے پیروں پر کھڑے ہوجائیں، افسوس ہے ہماری اس حالت پر جب دوسری طاقتیں ہمیں چلانے اور ادارہ کرنے کی کوشش کریں،طول تاریخ میں صرف وہ قومیں اور ملتیں عزت اور واقعی کامیابی حاصل کر لی ہیں جنہوں نے وابستگی اور غلامی سے چشم پوشی کی ہیں۔"(ایضا،ص210)

تبصرہ ارسال

You are replying to: .