تحریر: جعفر تبسم
حوزه نیوز ایجنسی| شہید بہشتی کا اصل نام سید محمد حسین بہشتی ہے۔ آپ ایران کے مشہور اور تاریخی شہر اصفہان میں پیدا ہوئے۔ آپ کا شمار ان محدود افراد میں ہوتا ہے جن کا انقلابِ اسلامی کے قیام میں بنیادی کردار رہا ہے، لیکن بدقسمتی سے آج بھی بہت سے انقلاب کے طرف دار ان کی شخصیت اور خدمات سے واقف نہیں ہیں۔ اس مختصر سی تحریر میں آپ کی شخصیت کے سارے پہلوؤں اور خدمات کے بارے میں سیر حاصل بحث تو نہیں ہوسکتی، لیکن کسی کی شخصیت کے بارے میں جاننے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ کسی دوسری شخصیات کا ان کے بارے میں رائے دیکھا جائے۔ اس لئے اس مختصر تحریر میں امام خمین کی نگاہ میں شہید بہشتی کی شخصیت،مقام اور امنزلت کو بیان کریں گے ۔ امام آپ کا شہید کے بارے میں یہ قول زبان زد عام ہے کہ:
بہشتی یک ملت بود۔
شہید بہشتی اپنی ذات میں ایک ملت تھے۔
امام خمینی نے آپ کے بارے میں وہ جملہ فرمایا ہے جو کسی دوسرے کے بارے میں نہیں ملتا ۔ یقینا امام خمینی نے یہ جملہ صرف احساسات اور جذبات کی بنا پر نہیں فرمایا ہے ،بلکہ حقیقت کے پیش نظر فرمایا ہے۔ شہید بہشتی کے بارے میں امام کایہ جملہ اور حضرت ابراہیم کے بارے اللہ تعالی کے اس فرمان میں کتنی شباہت ہے کہ فرمایا: إِنَّ إِبْرَاهِيمَ كَانَ أُمَّةً بے شک ابراہیم ( اپنی ذات میں) ایک امت تھے۔)
یہاں سے سمجھ میں آتاہے کہ بے شک علماء انبیاء کے وارث ہیں،لیکن علماء بھی علم اور تقوی کے اعتبار سے برابر نہیں ہوتے ہیں۔ کچھ علماء مقام ومنزلت کے اعتبار سے اعلی منزل پر فائز پر ہوتے ہیں ۔ انہی علماء میں سے ایک شہید بہشتی بھی تھے، لہٰذا جس طرح اللہ تعالی نے اکیلے ابراہیم کے لئے امت کا لفظ استعمال کیا، اسی طرح امام خمینی نے بھی بہشتی کو ملت سے تعبیر فرمایا۔ جس طرح سارے انبیاء کے درمیان حضرت ابراہیم کو ایک نمایاں حیثیت حاصل ہے بالکل اسی طرح شہید بہشتی کا شہیدوں اور علماء میں ایک نمایاں مقام ہے۔ علماء اور مفسرین نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ان خصوصیات کے بارے میں تفصیل سےبحث کی ہے کہ جن کی وجہ سے اللہ نے ابراہیم کو تنہا امت سے تعبیر کی ہے۔ وہ سب یہاں بیان کرنے کا مقام نہیں ہے۔
یہاں صرف ان خصوصیات کی طرف اشارہ کرنا مقصود ہے جو شہید بہشتی اور حضرت ابراہیم میں مشترک تھیں کہ جن کی وجہ سے ایک کو امت واحدہ کہا تو دوسرے کے لئے ملت کا لقب ملا ۔ اگر ملت اور امت کی خصوصیات کا علم ہوجائے تو حضرت ابراہیم اور شہید بہشتی کی خصوصیات کاسمجھنا آسان ہوگا ۔ ایک امت اور ملت کی سب سے آشکار اور نمایاں خصوصیت یہ ہوتی ہے کہ ان میں مختلف قسم کی صلاحیتیں پائی جاتی ہیں۔ ہر فرد کے اندر کچھ ایسی صلاحتیں ہوتی ہیں جو عام طور پر دوسروں میں نہیں ہوتی ہے ۔لیکن بحیثیت ملت ہر فرد اپنی صلاحیت کو قوم اور ملت کی ترقی اور کمال کے لئے صرف کرتا ہے۔ ایک ہی ہدف کے لئے ہر ایک اپنی صلاحیت کو برو کار لاتاہے۔ لہذا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ مختلف صلاحیتوں اور استعدادوں کو ایک ہی مقصد اور ہدف کے حصول کے لئے برو کار لانے کو ملت اور امت کہا جاتاہے۔ اس سے معلوم ہوتاہے کہ حضرت ابراہیم کی طرح شہید بہشتی میں بھی وہ ساری صلاحیتیں موجود تھیں جو ایک ملت کے بہت سے افراد میں ہوتی ہیں ۔ ایک ملت کے افراد میں جتنی صلاحیتیں ہوتی ہیں اتنی صلاحیت صرف ایک بہشتی میں تھی۔
آپ نے ان تمام تر صلاحیتوں کو الہی ا ہداف کے لئے وقف کردیا ۔ آپ نے ایک طاقتورقوم اور ملت کی طرح قیام کیا۔ جو اپنے ارادوں میں مستحکم تھے۔ حضرت ابراہیم کی طرح وقت کے طاغوت کےخلاف قیام کیا اور فتح حاصل کی۔ اسی لئے امام خمینی (رح )نے آپ کے بارے میں فرمایا کہ"
شہید بہشتی دشمن کے آنکھوں میں کانٹا تھا۔
امام خمینی رحمہ اللہ علیہ نے آپ کے مختلف صلاحیتوں کے بارے میں بیان کرتے ہوئے فرمایا:
میں ان کو وفادار، وعدوں کا پابند، سخت کوشش کرنے والا، دیندار، اپنی قوم کو چاہنے والا، اسلام سے قلبی لگاو رکھنے والا اور معاشرے کے لئے کار آمد شخص سجھتا ہوں۔
امام خمینی نے شہید بہشتی کے بارے میں جو بیانات دئیے وشہ شہید کی اعلیٰ منزلت کی علامت ہے:
میں انہیں بیس سال سے زیادہ عرصے سے پہچانتا تها. میں ان کے مرتبے، ان کے فکری مقام اور ان کےایمانی مقام سے آگاہ تها میں ان کی جس بات سے متاثر ہوں وہ اس ملک کے اندر ان کی مظلومیت کا پہلو ہے .ان کی شہادت ان کے مقابلے میں معمولی ہے.