تحریر: محمد حسین حافظی
حوزه نیوز ایجنسی | ہر زمانے میں انسان، معنویت اور اخلاقی بحران کا شکار رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خدا کی طرف سے آنے والی تمام ہستیوں کا سب سے بڑا ارمان رہا ہےکہ انسان اخلاقی اقدار اور معنوی فیوضات سے بہرہ مند رہے۔ تاریخ انسانیت میں بھی ہمیں وہی شخص کامیاب نظر آتا ہے جس نے اپنی زندگی میں معنوی اور اخلاقی اصولوں پر چلنے کی کوشش کی ہو۔ ہر دور کی طرح آج کے انسانی معاشرے میں بھی معنوی اور اخلاقی اقدار کو مادی فوائد پر ترجیح دینے والوں کی تعداد کم نظر آتی ہے۔ جس کی وجہ سے انسان اپنی زندگی میں سینکڑوں قسم کی اخلاقی بیماریوں میں مبتلا ہوجاتا ہے۔
انسان کامل بننے کے لئے ضروری ہے کہ اس میں موجود تمام استعدادوں میں تعادل اور توازن برقرار ہو۔ ایک انسان اس وقت کامل بنتا ہے جب اس کا جھکاؤ فقط ایک استعداد کی جانب نہ ہو اور دوسری استعدادوں کی طرف سے غفلت نہ کرے، بلکہ اس کے اندر جتنی صلاحیتیں اور استعداد ہوں وہ ان سب کو ترقی دے ؛یعنی ان میں تعادل اور توازن قائم رکھے۔ اس بات کو سمجھنے کے لئے اس سادہ مثال میں غور کریں، جب ایک انسان کا بدن رشد کرتا ہے تو اس کے ہاتھ ، پاؤں اور سر وغیرہ ایک ساتھ بڑھیں ۔ ایک سالم انسان وہ ہے جس کے تمام اعضاء کے بڑھنے میں ہماہنگی پائی جاتی ہو۔ اب ہم فرض کرتے ہیں کہ ایک انسان اس طرح رشد کرتا ہے جیسے مضحکہ خیز کارٹون؛ یعنی ایسا ہو کہ اس کے بدن کے باقی حصے تو نہ بڑھیں اور فقط اس کی ناک اتنی بڑھے کہ اس کے باقی بدن کے برابر ہوجائےتو ایسا شخص بڑھتا ضرور ہے لیکن اس کے بڑھنے میں ہماہنگی نہیں اس لئے وہ سالم انسان نہیں ہوتا ۔اسی طرح ایک کامل انسان وہ ہے جس کی تمام انسانی قدریں اکھٹی بڑھیں اور ان میں سے کوئی ایسی نہ ہو جو بڑھنے سے رہ جائے۔ یعنی وہ سب ایک دوسری کے ساتھ ہم اہنگ ہو کر بڑھیں اور بڑھ کر اعلی درجے تک پہنچ جائیں جب ایسا ہوجائے تو وہ انسان کامل ہوجاتا ہے۔(مطہری، انسان کامل، مترجم: محمد فضل حق، ص ۴۱۔۴۵) لہذا جتنا ہم جسمانی ضرورتوں پر توجہ دیتے ہیں اتنا ہی معنوی اور اخلاقی ضرورتوں پر بھی توجہ دینا ضروری ہےتاکہ ایک کامل انسان بن سکیں۔یہی وجہ ہے کہ رہبر معظم انقلاب فرماتے ہیں: اگر انسان علم ، دانش اور سیاست میں بحر العلوم بنے؛ یعنی علمی آخری مدارج طے کرنے میں کامیاب ہوجائے ، لیکن وہ اسلامی نیک اخلاق کی صفات سے مزین نہ ہو، ایسا انسان معاشرہ کے لئے سود مند نہیں ( یعنی معاشرے کے لئے نہ صرف سودمند نہیں، بلکہ آفت ہے) (بیانات در دیدار نخبگان جوان، ۲۵۔۰۶۔۱۳۸۵)
تواضع، اخلاص، فروتنی، خدا کے بندوں کے ساتھ مہربانی اور خدا کے دشمنوں کے ساتھ سختی سے پیش آنا، سب سے زیادہ قیمتی گوہر ہے ۔ معنویت اور اخلاق کی اسی اہمیت کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ جاننا ضروری ہے کہ اخلاقی ہونے سے کیا مراد ہے؟ اخلاقی ہونے سے مراد یہ ہے کہ کچھ حقوق ایسے ہیں جن کا تعلق انسان کی فطرت کے ساتھ ہے اور ان کے وجود میں آنے کے لئے کسی قانون کی ضرورت نہیں ہوتی ، بلکہ ان کے وجود میں آنے کو انسان کا ضمیر اور اس کی عقل ضروری سمجھتے ہیں ۔ساتھ ہی یہ حقوق انسان کے باطن کے ساتھ وابستہ ہیں اسی وجہ سے ان کی خلاف ورزی پر انسانی ضمیر ملامت کرتا ہے ( محمد سالم محسنی، ۱۳۹۶ : ۱۱۰)
اسی طرح معنوی ضروریات، مادی ضروریات کی طرح انتہائی اہمیت کی حامل ہیں۔یہی وجہ ہے اللہ تعالی نے انسان کو اپنی عبادت، بندگی اور دعا کرنے کا حکم دیا تاکہ اس کی روحانی اور معنوی ضروریات بھی پوری ہوں۔ اگر انسان، اللہ کی عبادت کو نظرانداز کردے تو اس کی معنوی ضروریات کی نسبت اس نے سہل انگاری سے کام لیا ہے جس کا نقصان اتنا زیادہ ہے کہ جبران کرنا ممکن نہیں ۔اگر انسان مادی لذتوں کو اپنی زندگی سے کم کرے ایسا شخص معنویت کی لذت سے بہرہ مند ہوگا اور جسے معنویت کی لذت ملے اس کا کوئی ثانی نہیں ہے۔ نماز شب پڑھنے والے اہل تہجد اور سحر خیز کو اپنی نماز، دعا اور استغفار سے جو لذت ملتی ہے وہ ایک عیاش کی مادی لذتوں سے قابل مقایسہ نہیں ہے۔ (اندیشہ مطہر، بحث زہد)
دنیا میں اگر کوئی شخص کامیاب ہوا ہے تو اس میں معنویت اور اخلاق کا کردار کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔ انہیں کامیاب اور عظیم شخصیات کی فہرست میں آیۃ اللہ شہید ڈاکٹر محمد حسینی بہشتی کا نام بھی آتا ہے۔ شہید بہشتی کی معنوی اور اخلاقی صفات کے بارے میں لکھی ہوئی کتابیں، مضامین، رسالے اور جرائد کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ بے شمار انسانی اخلاق سے سرشار تھے۔ آپ کی معنوی برجستہ صفت یہ تھی کہ آپ نماز کو ہمیشہ اول وقت میں پڑھنے کے پابند تھے چاہئے کتنے ہی ضروری کام میں مصروف نہ ہو، آپ ایک بہترین سیاست دان تھے لہذا مختلف مٹینگز وغیرہ میں مصروف رہتے تھے، مٹینگ کے دوران اگر نماز کا وقت آجاتا تو چاہئے کتنی ہی اہم مٹینگ کیوں نہ ہوتی اسے چھوڑ کر نماز کی ادائگی کو ضروری سمجھتے تھے۔ اسی طرح آپ نماز تہجد کے بھی پابند تھے۔اتنے بڑے رتبے پر ہوتے ہوئے بھی آپ میں انکساری کی کوئی انتہا نہ تھی، آپ سب کے ساتھ فروتنی اور احترام کے ساتھ پیش آتے تھے۔آج کے زمانے میں جتنا انسان کا رتبہ بڑھتا ہےاتنا ہی وہ مغرور ہوتا جاتا ہے اور دوسروں کو وہ اپنے سے پست سمجھتا ہے، لیکن آپ میں یہ خصوصیت پائی جاتی تھی کہ آپ سب کو ایک نگاہ سے دیکھتے تھے غریب ،فقیر اور امیر میں وہ کوئی فرق نہیں کرتے تھے۔حقیقت یہی ہے کہ انسان کے پاس جتنا علم آتا ہے اتنا ہی اس کے تواضع اور فروتنی میں بھی اضافہ ہوتا ہے ایک درخت میں جتنا زیادہ پھل ہوگا اتنا ہی وہ جھکا ہو نظر آئے گا ۔ شہید بہشتی علمی میدان میں ایک فقیہ کا مقام حاصل کر چکےتھے۔ اس کے باوجود آپ کی تواضع میں کسی قسم کی کمی نہیں آئی ۔شہید باہنر کہتے ہیں: شہید بہشتی اپنے منصب اور شخصیت کے اعتبار سے متانت اور ہیبت کے حامل ہونے کے باوجود تواضع سے برخوردار تھے اور نہایت ادب سے پیش آتے تھے آپ کی نشتیں عام طور پر صداقت و اخلاص کے ہمراہ ہوتی تھیں، آپ کے خیالات اور فیصلے عادلانہ ہوتے تھے، اعتماد بخش تھے اور اطمینان آور تھے۔ (مجلہ مرزداران، سال دوم، ش ۲۲، ص ۱۵)
اسی طرح آپ کے اخلاقی صفات کے بارے میں لکھا ہے کہ حق کو قبول کرنے کی صفت آپ میں موجود تھی۔ انسان کی سب سے بڑی ناکامی اور خامی یہی ہے کہ جب اسے اپنے خلاف حق پر مبنی کوئی فیصلہ یا حکم سننے کو ملتا ہے تو اسے قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتا ، لیکن تاریخ انسانیت میں کچھ ایسے لوگ بھی گزرے ہیں کہ جنہوں نے انسانیت کے اعلی مرتبے پر فائز ہونے کے باوجود ہمیشہ حق کی سربلندی کے لئے کوشش اور جد و جہد کرنے سے گریز نہیں کیا ، انہیں عظیم شخصیات میں سے ایک شہید بہشتی بھی ہیں جنہوں نے اپنی پوری زندگی حق کی سربلندی کے لئے وقف کر دی۔ آپ ہمیشہ حق کے طرف دار تھے خواہ وہ اپنی ذات کے خلاف ہی کیوں نہ ہو ۔آپ کے گھر یلو زندگی پر نظر کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ گھر یلو کاموں میں آپ اپنی زوجہ مکرمہ کا ہاتھ بٹانے میں ہمیشہ پیش پیش رہتے تھے۔ بچوں کی پڑھائی کا خاص خیال رکھتے تھے، آپ اپنے بچوں کو نہ کھلی آزادی دیتے تھے اور نہ ہی انہیں سخت دباؤ میں رکھتے تھے۔ ایک اور مشہور اخلاقی صفت آپ میں یہ تھی کہ آپ نےہمیشہ انسانیت کی خدمت کو عبادت سمجھ کر انجام دیا ہے۔ اس راہ میں آپ کو مخالفین کی طرف سے طرح طرح کی اذیتیں دی گئی، لیکن کبھی بھی آپ نے صبر اور استقامت کا دامن نہیں چھوڑا، بلکہ آپ کا یہ مشہور و معروف جملہ کتابوں میں ملتا ہے کہ ہم خدمت کے مشتاق ہیں نہ اقتدار کے طالب یہی وجہ ہے کہ آپ نے اس راہ میں تمام تر الزام تراشیوں اور تہمتوں کے جواب میں سکوت اختیار کیا اور صرف اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرنے میں مصروف رہے۔ یہ ہمارے لئے بھی ایک عظیم درس ہے کہ جب بھی خدا کی راہ میں کوئی کام انجام دینا ہو تو نظر صرف اپنی ذمہ داروں کو نبھانے پر رکھنی چاہئے بے شک ایسے کاموں میں موانع اور طرح طرح کی رکاوٹیں حائل ہوتی ہیں لیکن ان کی پرواہ کئے بغیر شہید بہشتی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اگر اپنی ذمہ داری ادا کرنے کی کوشش میں مصروف رہیں تو یقینا ہم بھی اپنی مشن میں کامیاب ہوسکتے ہیں۔
شہید ڈاکٹر بہشتی کے بارے میں یہ بھی لکھا ہے کہ آپ خواہشات نفسانی پر کنٹرول کرنے کے گر سے آشنا تھے یہی وجہ ہے کہ آپ نے کبھی بیت المال کو اپنی ذات کے لئے استعمال نہیں کیا، بلکہ اپنی ذاتی محنت اور مشقت کی کمائی سے اپنا گھر چلاتے تھے۔ آپ ایک فقیہ ہونے کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی زبان (انگلش) پر مکمل عبور رکھتے تھے اور مختلف جگہوں میں انگلش پڑھایا کرتے تھے، یہی آپ کا ذریعہ معاش تھا۔ معاشرہ میں لوگوں کی دو قسم پائی جاتی ہیں، ایک قسم کے لوگ وہ ہوتےہیں جو اخلاقی صفات ، صبر ، استقامت، رحم دلی، فدا کاری وغیرہ اس وقت تک اپناتے ہیں جب تک ان میں اپنا مفاد دیکھتے ہیں، دوسرے قسم کے لوگ وہ ہوتے ہیں جو ان اخلاقی صفات کو کسی مفادات کے بغیر اپنا دینی اور شرعی فریضہ سمجھتے ہوئے اپناتے ہیں، شہید ڈاکٹر بہشتی کا تعلق دوسرے قسم کے لوگوں سے تھا آپ کسی بھی مادی مفادات کے بغیر صرف خدا کی خوشنودی حاصل کرنے کی خاطر لوگوں پر احسان کرتے تھے، مشکلات کے وقت صبر و استقامت سے کام لیتے تھے اور ہمیشہ لوگوں کی خدمت کے لئے تیار رہتے تھے۔