تحریر: محمد بشیر دولتی
حوزه نیوز ایجنسی| کچھ شخصیات کئی اہم صفات کا مجموعہ ہوتی ہیں۔ آیت اللہ شہید ڈاکٹر محمد حسین بہشتی بھی انہیں نابغہ افراد میں سے ایک تھے۔ مشہور مقولہ ہے کہ "وہ اپنی ذات میں ایک انجمن تھے"۔ شہید بہشتی اس خوبصورت جملے کا عملی مصداق تھے۔تنظیم سازی اور اجتماعی کاموں میں ید طولی رکھتے تھے۔ وہ ایک ہی وقت میں فقیہ بھی تھے، معروف فلسفی بھی تھے، کئی دانشمندوں کو حیرت میں ڈالنے والا ایک دانشمند بھی تھے، سوئے ہوئے جذبات اور منجمد فکروں کو بیدار کرنے والا شعلہ بیان خطیب بھی تھے۔تاریخ کے اوراق کو لحظوں میں ورق گردانی کرنے والا بہترین مورخ بھی تھے۔ الجھنوں کو لفظوں میں تراش خراش کر سلجھانے والا قلم کار بھی تھے، دینی سانچے میں ڈھلا اور پلا بڑھا زیرک و ذی فہم سیاست دان بھی تھے، خود پسندی کے ٹیلوں پر چڑھے ہوؤں کو ایک تسبیح کے دانے میں پرونے والا ناظم بھی تھے، انفرادی زندگی میں مگن لوگوں کو اجتماعی پلیٹ فارم پر لانے والے مدیر بھی تھے، جدید علوم سے آشنا، صاحب نظر اور پانچ عالمی زبانوں انگریزی، جرمن، فرانسوی، عربی اور فارسی زبان کے بہترین سخنور بھی تھے۔
آپ بچپن سے ہی انتہائی ذہین و فطین تھے۔ انیس سو اٹھائیس میں نصف جہاں سے معروف اصفہان میں پیدا ہوئے۔ چار سال کی عمر میں ابتدائی دینی تعلیم کا آغاز کیا۔ آغاز کرنے کی دیر تھی پھر مڑ کر پیچھے نہیں دیکھا۔انیس سال کی عمر میں ہی عربی ادبیات، منطق، علم کلام ،فلسفہ اور فقہ و اصول کی ابتدائی تعلیم حاصل کی پھر اعلیٰ دینی تعلیم کے لئے حوزہ علمیہ قم میں تشریف لائے۔
آپ نے اپنے بزرگ اساتید ،استاد میر داماد،آیت اللہ بروجردی، آیت اللہ محمد تقی خوانساری اور امام راحیل امام خمینی سے کسب فیض کیا۔ مکاسب و کفایہ جیسی کتابیں چھے ماہ کی قلیل مدت میں ختم کر کے اجتھاد کے لئے درس خارج میں شرکت کرنے لگے۔
امام خمینی رح نے آپ کے بارے میں فرمایا کہ "شہید بہشتی ایک ملت تھا"رہبر معظم کے مطابق یہ ایک قرآنی اصطلاح ہے جیسا کہ قرآن حضرت ابراھیم کے بارے میں فرماتا ہے(ان ابراھیم کان امۃ) ایک انسان کبھی ایک اجتماع کی مانند ہے اور یہ بات اس بندے کی ہمہ جہت اور کئی پہلوؤں کو واضح کرتا ہے"۔
رہبر معظم شہید بہشتی کے بارے میں فرماتے ہیں کہ شہید بہشتی کی کئی اہم خصوصیات میں سے ایک گروہی یا تنظیمی کام کرنے کی عادت تھی۔ شہید کے کام کا محور ہی گروہی تھا۔بہتر ہے کہ ہم یہاں پر شھید بہشتی کی شخصیت کو اس نگاہ سے تحلیل کرے شاید میں یہ کہہ سکوں ایک گروہی مدیر کی تمام خصوصیات ان میں تھیں۔نہ صرف گروہی کام کا بلکہ گروہی مدیریت کی تمام خصوصیات بھی تھیں"۔
امام خمینی جب فرانس میں تھے تو شہید بہشتی آپ سے ملنے فرانس پہنچے اس وقت امام خمینی کے حکم پر آپ نے ایران میں ایک تنظیم کی بنیاد رکھی۔
ایران کی معروف تنظیم حزب جمہوری اسلامی جس میں دکتر جواد باھنر، سید عبدالکریم موسوی اردبیلی، اکبر ہاشمی رفسنجانی اور رہبر معظم سید علی خامنہ ای تھے کی تشکیل میں آپ نے بنیادی کردار ادا کیا۔
بعد میں جب اس کی ضرورت باقی نہ رہی تو امام خمینی کے حکم پر رھبر معظم اور آیت اللہ رفسنجانی نے اسے تحلیل کردیا۔
آپ پانچ سال تک جرمنی کے شہر ہیمبرگ میں تبلیغ دین کا فریضہ ادا کرتے رہے۔ آپ نے وہاں ایک تنظیم کی بنیاد بھی رکھی۔آپ کے وعظ ونصیحت اور تبلیغ سے ایرانیوں کے علاؤہ دیگر اقوام کے لوگ بھی شرکت کرنے لگے۔ آپ کی تنظیم اور مسجد تبلیغ کا بہترین اور معروف مرکز بن گیا۔ جب ایران میں شاہ کے خلاف انقلاب کا آغاز ہوا تو آپ کے دوست احباب اور عزیز رشتہ دار سب چاہتے تھے کہ أپ جرمنی میں ہی رہ کر آرام سے دین کی تبلیغ کرتے رہیں لیکن آپ نے اپنا فریضہ سمجھ کر اس پرآشوب دور میں خود کو انقلاب کے لئے وقف کرنا ضروری سمجھا اور ایران تشریف لائے۔ ایران پہنچ کر آپ نے اپنے آپ کو انقلاب اسلامی کے لئے وقف کیا۔
امام خمینی جب ملک بدر ہوکر عراق میں تھے اس وقت بھی آپ نے شھید بھشتی کے نام پیغام میں فرمایا کہ آپ ملت ایران کی مشکلات کو مدیریت کریں۔آپ انقلاب اسلامی سے بہت پہلے ہی اسلامی حکومت کے خد و خال اور ہماری زمہ داریوں کے موضوع پر درس دیا کرتے تھے۔آپ کا بیٹا سید علی رضا بہشتی فرماتے ہیں کہ میرے والد محترم ہمیشہ کہا کرتے تھے کہ "میں سچائی اور حقیقت کی تلخی اور کڑواہٹ کو منافقت کی شیرینی اور مٹھاس پر ترجیح دینا ذیادہ پسند کرتا ہوں،میرے والد محترم منافقت اور دوغلے پن سے شدید نفرت کرتے تھے۔
آپ فقط تنظیم سازی اور مدیریت میں ہی یکتا نہیں تھے بلکہ اپنی ذاتی زندگی میں بھی بہت منظم تھے۔آپ اپنی ذاتی زندگی میں بھی نظم و ضبط کے انتہائی پابند تھے یہی وجہ ہے کہ میر داماد بیان کرتے ہیں کہ ایک رات میں مرحوم بھشتی کے ساتھ گاڑی میں ان کے گھر جارہا تھا۔سڑک پر دور دور تک سناٹا تھا۔ایک چوراہے پر پہنچا تو دیکھا لال بتی جل رہی تھی۔ڈرائیور نے گاڑی کو آگے بڑھانا چاہا تو آپ نے منع کردیا۔
میں نے کہاحضور آپ تو شاہی حکومت کے خلاف ہو تو ٹریفک قانون کا اس وقت اتنا احترام کیوں؟ تب شہید بہشتی نے فرمایا کہ میں شاہ کی حکومت کا مخالف ہوں لیکن نظم و ضبط کا مخالف نہیں ہوں۔
آپ اپنے روز مرہ کے کاموں کو بھی باقاعدہ ٹائیم ٹیبل بنا کر انجام دیتے تھے۔ایک دفعہ آپ کے کسی جاننے والے نے قم سے فون کر کے آپ سے ملاقات کے لئے وقت مانگا تو آپ نے ڈائری دیکھ کر دوماہ بعد کا وقت دیا۔ عزیز ناراض ہوگئے تو دوسرے عزیز نے کہا کہ آپ پھر فون کر کے کہیں کہ ایک مشکل میں ہوں ضروری ملنا ہے آپ کے مشورے کی سخت ضرورت ہے۔
جب اس بندے نے دوبارہ فون کر کے تقاضا کیا تو آپ نے چھے دن بعد نماز فجر سے دس منٹ پہلے کا وقت دیا۔
وہ بندہ رات کو قم سے نکلا مطلوبہ وقت پر دروازے پر پہنچا تو شہید أپ کے استقبال کے لئے پہنچے۔ شہید فرماتے ہیں کہ میں نے یہ نظم و ضبط نماز کی پابندی سے سیکھا ہے۔
جب آپ چیف جسٹس تھے تو کسی خاندانی دعوت میں آپ کے ایک عزیز نے کہا کہ میرا کیس فلاں عدالت میں ہے تمام کاغذی مراحل بھی میں طے کر چکا ہوں بس اس حوالے سے میری مدد کریں تو آپ نے فرمایا کہ اگر حق آپ کا ہے تو آپ کو ہی مل جائے گا۔آپ کا حق نہیں ہے تو مجھے بتانے کا کوئی فایدہ نہیں ہے۔دشمنوں سے ایک بہترین دانشور، فلاسفر، سیاست دان اور مدیر دیکھا نہیں گیا۔
حوالہ جات:
1۔احزاب وگروہ ھای سیاسی از دیدگاہ امام خمینی، موسسہ نشروآثار امام خمینی
2۔ذوالفقاری، تشکیلات بہشتی، نشر معارف، قم
3۔ شہید بہشتی بے مثال لوگ