۱ آذر ۱۴۰۳ |۱۹ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 21, 2024
بشیر دولتی

حوزه/ شہید ڈاکٹر مصطفیٰ چمران کی برسی کے موقع پر میں ان کی کتاب لبنان پڑھ رہا تھا۔ کئی دفعہ پڑھنے کے باوجود میں سال میں ایک مرتبہ اس کتاب کا مطالعہ ضرور کرتا ہوں۔ یہ اب بھی لبنان، فلسطین اور شام کے حالات کو سمجھنے کے لئے بہت مؤثر کتاب ہے۔ یہ ہر زمانے اور ہر خطہ کے لوگوں کے ضمیروں کو جھنجھوڑنے والی کتاب ہے۔

تحریر: محمد بشیر دولتی

حوزه نیوز ایجنسی| شہید ڈاکٹر مصطفیٰ چمران کی برسی کے موقع پر میں ان کی کتاب لبنان پڑھ رہا تھا۔ کئی دفعہ پڑھنے کے باوجود میں سال میں ایک مرتبہ اس کتاب کا مطالعہ ضرور کرتا ہوں۔ یہ اب بھی لبنان، فلسطین اور شام کے حالات کو سمجھنے کے لئے بہت مؤثر کتاب ہے۔ یہ ہر زمانے اور ہر خطہ کے لوگوں کے ضمیروں کو جھنجھوڑنے والی کتاب ہے۔

شہید نے لبنان کی خانہ جنگی میں اپنی زندگی کے بہترین آٹھ سال حالت جنگ میں گزارنے کے بعد یہ کتاب لکھی ہے۔

انقلاب اسلامی کی کامیابی کے بعد آپ ایران آگئے۔

جب آپ نے دیکھا کہ غیر تو غیر اپنے بھی لبنان کے حوالے سے غیر مربوط اور غیر مستند افراد اور منابع سے خبریں لیتے ہیں ۔ اس وقت آپ نے فرمایا کہ "میں ان مظلوموں،تشدد کے شکار لوگوں اور اسیروں کی چیخ وپکار ہوں جو تاریخ کے مختلف ادوار میں استعمار پرستوں، مصلحت پسندوں اور منفعت خواہوں کےتشدد کاشکار ہوگئے ہیں"۔

"میں دل شکستہ یتیموں کی دلخراش فریاد ہوں، میں وہ آہ سحر گاہی ہوں جو بیوہ عورتوں کے دل پرسوز سے نکلتی ہے، میں شہیدوں کا خون ہوں جو دور دراز کے پہاڑوں، گہرے کھڈوں اور دشت و صحرا ء کے دامنوں میں جاری ہے، میں زندہ دلوں کی آرزو ہوں جنہیں عدل و انصاف کی تلاش ہے۔میں آزاد مردوں کی جانبازیوں اور فدا کاریوں کا گواہ ہوں۔ میں دنیا کے نوجوانوں کے ذہنوں کی آبیاری کرتا رہوں گا تاکہ وہ ظلم و ستم کے مقابل کھڑے ہوجائیں"۔

پھر شہید نے ایک عرصے بعد تھوڑی دیر کے لئے اسلحے کو کنارے پر رکھ کر قلم اٹھایا اور کتاب لبنان لکھی ہے۔

ایسی کتاب جو لبنان و فلسطین اور شام کے حوالے سے ہمیشہ کے لئے ایک بہترین سند اور ہمیشہ کے لئے راہنما بن گئی۔

آپ جانتے ہیں کہ اس وقت مشرق وسطیٰ کا منظر بدل چکا ہے۔شہید قاسم سلیمانی نے جس روڈ میپ کے لئے اپنا خون دیا وہ کامیاب و کامران ہوچکا ہے۔جس بشارالاسد اور شام کو عرب لیگ سے نکالا گیا وہ عرب لیگ اب "شام میں شامل ہوچکا ہے"۔ دمشق کی مرکزی مسجد میں نماز جمعہ ادا کرنے کی خواہش اردگان کے دل میں ہمیشہ کے لئے آسودہ خاک ہوگئی ہے۔ فری سیرین آرمی اور داعش کے ذریعے جس شام کے ٹکڑے کرنا چاہ رہے تھے آج اسی شام کا جھنڈا سعودی عرب میں قابل تعظیم بن گیا ہے ۔ اسرائیل و امریکہ دوبرادر اسلامی ملکوں ایران و سعودی عرب کو لڑانے کی سازش کررہے تھے آج ان دوملکوں میں دوستی ہوگئی ہے۔ فلسطینی مقاومت کو فقط غزہ تک محدود کرنے کی سازشیں ناکامی سے دوچار ہوچکی ہیں ۔اب یہ مقاومت اور مسئلہ فلسطین غزہ سے مغربی کنارے و غرب اردن اور عرب لیگ کے اجلاس میں پھر سے زندہ ہوا ہے۔پھلتا پھولتا اسرائیل اب سکڑتا چلا جارہا ہے۔ بقول شہید چمران کے عشق اور بے نیازی سے سرشار مقاومتی بلاک کی بابصیرت قیادت و استقامت کا سفر کامیابی کی طرف رواں دواں ہے۔

لیکن پاکستان میں ہمارا میڈیا اور شخصیات نہ ایران و سعودی عرب دوستی پہ بول رہی ہیں، نہ شام کی عرب لیگ میں واپسی پر، نہ مقاومتی شخصیات کو ملک میں مدعو کررہی ہیں نہ ہی ہم مقاومتی شخصیات و منابع سے خبریں لے رہے ہیں۔ ہم اب بھی وہی قدیمی ماحول میں جی رہے ہیں جب شامی جہازوں کو اسرائیلی میڈیا نے دشمن کا جہاز لکھا تو ہمارے میڈیا نے بھی دشمن کا جہاز ہی لکھا تھا۔ جب صدام کی فوجی جمہوریت و بربریت میں اس کی تصاویر روضہ امام حسین ع کے ساتھ آئی تھیں تو اسے دیواروں سے لگاکر صدام کے حق میں دعائیں مانگی گئی تھیں۔

ہم آج بھی مقاومت اور استعمار کے آلہ کاروں اور ظالموں کو پہچاننے میں غلطی کررہے ہیں۔

فلسطین کے مجاہدین کو غلیل کے دور سے نکال کر میزائل اور ڈرون سے لیس کرنے والی مقاومتی تحریک سے ہم دور ہورہے ہیں۔

ہم آج بھی فلسطینیوں کی آواز سمجھ کر شیخ نواف تکروری جیسوں کو پاکستان میں دعوت دیتے ہیں۔ ہم آج بھی فلسطین کو نواف تکروری سے سنتے،ان کی نگاہ سے دیکھتے اور ان کے اشاروں پر سمجھنے کی کوشش کررہے ہیں۔

یہ وہی نواف تکروری ہے جو فلسطین کے نام پر ترکی میں زندگی گزار رہاہے۔ یہ وہی بندہ ہے جو نہ فقط نظریہ ولایت فقیہ اور اسلامی انقلاب کا مخالف ہے بلکہ مقاومتی بلاک کا ہی مخالف و دشمن ہے۔

یہ شروع سے ہی شہید قاسم سلیمانی کی جدو جہد اور قربانیوں کا بڑا مخالف رہا ہے۔

اس نے اپنے مختلف بیانات میں بشار الاسد کو ظالم، داعشیوں اور فری سیرین آرمی کو شامی عوام کا محافظ قرار دیتے ہوئے شہید قاسم سلیمانی کا ملک شام کو تکفیری دھشت گردوں اور استعمار کی سازشوں سے بچانے پر شکریہ ادا کرنے کی بجائے شامی بچوں کا قاتل قرار دیا تھا۔

حماس کے رہنما اسماعیل ہانیہ نے شہید قاسم سلیمانی کو فلسطین کے لئے ان کی خدمات اور کوششوں پر شہید قدس قرار دیا تھا مگر یہ بھی اس بندے سے ہضم نہیں ہوا تھا۔

شہید قاسم سلیمانی کی شہادت پر اس شخص نے کہا تھا کہ"امریکہ نے ہمیشہ ظالموں کاساتھ دیا ہے اور مظلوموں کو مارا ہے۔حق و باطل کی جنگ میں ہمیشہ باطل کا ساتھ دیا ہے لیکن کبھی کبھی ظالموں اور قاتلوں کو بھی مارا ہے اس کا یہ مطلب نہیں کہ امریکہ کے مارنے سے اس مجرم کا جرم ختم ہوگا اور ہم اس مجرم کو مجاہد یا ہیرو سمجھنا شروع کریں، اس کے اس طرح کے بیانات اب بھی اس کے فیس بک اکاؤنٹ پر موجود ہے۔

اس نے نہ فقط شام کے جمہوری صدر بشارالاسد کی مخالفت کی بلکہ اس کے خلاف فری سیرین آرمی بنانے اور النصرہ فرنٹ جیسی خونخوار تنظیم کو منظم و مضبوط کر کے شام کو اجاڑنے اور بے گناہ مسلمانوں کے سرقلم کرانے میں بنیادی کردار ادا کیا۔

اس نے اپنی مکروہ کوششوں سے ایک وقت میں فلسطینی مقاومتی تنظیم حماس کو داعش کی حمایت اور بشارلاسد کے مقابلے میں لایا تھا۔ایران سے بھی دور کرنے کی کوشش کی تھی۔

اس کے باوجود ایران اپنی بصیرت کے ساتھ حماس کی حمایت کرتے رہے پھر ایران نے حماس کا بشارالاسد کے ساتھ صلح کرایا۔ شیخ نواف تکروری وہی بندہ ہے کہ جو ترکی کا کھاتا اور ترکی کا گاتا رہتا ہے۔ اس کی نظر میں فقط ترکی فلسطینیوں کی حمایت کررہا ہے جبکہ ترکی کے اسرائیل سے سفارتی تعلقات کے علاؤہ تجارتی تعلقات بھی قائم ہیں۔ وہ ملائشیا جائے تو کہتا ہے کہ ملائشین قوم فلسطین کو آزاد کرے گی۔ اسے فلسطین کے لئے ایران کی قربانیاں اور خدمات نظر نہیں آتیں۔

ایسے بندے کو اگر طاہر اشرفی فلسطینی رہنما یا نمائندہ کے عنوان سے دعوت دیں۔ جماعت اسلامی، اسلامی جمعیت طلبہ، جمعیت اہل حدیث اور الخدمت جیسا ادارہ فلسطینی لیڈر اور نمائندے کے عنوان سے بلائیں اور ان سے تقریر کرائیں تو ہمیں تعجب ہوتا ہے۔ کیا اس دور میں بھی ہمیں مقاومتی شخصیات اور درست منابع کی شناخت نہیں یا ہماری اور کوئی مجبوری اور وابستگی ہے؟ ان تنظیموں کے علاؤہ یہ بندہ ہماری معروف دینی درسگاہ جامعہ عروۃ الوثقی کا بھی دورہ کرتا ہے پھر اس کے دورے کو خفیہ رکھنا بھی حیرت اور تعجب کا باعث ہے۔

خدا ہمارے میڈیا، تنظیموں اور شخصیات کو درست منابع اور درست شخصیات سے استفادہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

آخر میں شہید مصطفیٰ چمران کے انہی جملوں کے ساتھ اجازت چاہتا ہوں کہ "کچھ لوگ ضرورت سے زیادہ پُھرتی دکھاتے ہیں ،ہمارے انقلاب میں غلطیاں نکالتے ہیں اور بیرونی ممالک کے نمونوں کو ہمارے انقلاب سے بہتر گردانتے ہیں۔ یہ بہت بڑا جرم ہے"۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .