۶ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۶ شوال ۱۴۴۵ | Apr 25, 2024
محمد بشیر دولتی

حوزه/نصاب تعلیم ہی قوم کی تشکیل اور بقاء کا ضامن ہوتا ہے۔ کسی بھی قوم کی آنےوالی نسل کی باگ دوڑ اس قوم کے نصاب اور نصاب سازوں کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔ نئی نسل اور آنے والی نسل کو کس بنیاد اور نظریات کے ذریعے کہاں تک لےکر جانا ہے اس کا فیصلہ نصاب کرتا ہے۔

تحریر: محمد بشیر دولتی

حوزہ نیوز ایجنسی| نصاب تعلیم ہی قوم کی تشکیل اور بقاء کا ضامن ہوتا ہے۔ کسی بھی قوم کی آنےوالی نسل کی باگ دوڑ اس قوم کے نصاب اور نصاب سازوں کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔ نئی نسل اور آنے والی نسل کو کس بنیاد اور نظریات کے ذریعے کہاں تک لےکر جانا ہے اس کا فیصلہ نصاب کرتا ہے۔ نصاب میں انصاف اور عدالت کی باتیں ہوں تو آنے والی نسل منصف مزاج ہوگی۔ نصاب میں عادل حکمرانوں اور شخصیات کی حالات زندگی ہوں تو اسے پڑھ کر بچے کے اندر ایک عادلانہ سوچ کا حامل انسان پروان چڑھتا ہے۔ نصاب میں سخاوت ، شجاعت اور کرامات والی شخصیات کی حالات زندگی شامل ہوں تو بچے میں ایک مضبوط اور رحم دل شخصیت کی تعمیر ہوگی۔ اگر نصاب میں ظالم جابر جھوٹے اور مکار لوگوں کی زندگی کو شامل کریں گے تو بچے کے اندر منفی صفات کا حامل ایک شخصیت بنے گی۔

اسی طرح اگر نصاب میں دین دار و ایمان دار افراد کا ذکر ہوں تو بچہ بھی دین دار و ایمان دار ہی بنے گا۔

نصاب میں تاریخ کے متفق علیہ شخصیات کو شامل کریں گے تو نئی نسل میں اتحاد پروان چڑھے گا اگر متنازع افراد کا زکر ہوگا تو نئی نسل اور معاشرے میں اختلافات و عدم برداشت فروغ پائیں گے۔

نصاب میں اگر مسلکی شخصیات کا زکر کریں گے تو بچے مسلک پرست ہونگے جس کے نتیجے میں دوسرے مسلک کے ساتھ دل میں بعض و عداوت پالینگے یونہی منفی صفات کے ساتھ وہ معاشرے میں پروان چڑھیں گے ایسے بچے جوان ہوکر فرقہ واریت کو ہی ہوا دیں گے۔

پاکستان میں یکساں نصاب تعلیم کا پہلا پرچم دار:

شہید آغا ضیاالدین رضوی کو بلامبالغہ ہم یکساں قومی نصاب کا اولین پرچم دار کہہ سکتے ہیں۔آپ کا ہم و غم آنے والی نسلوں کی تربیت پر تھا۔ شہید آغا نے موجودہ تعلیمی نصاب سے شیعہ عقائد کے منافی مطالب کو الگ درج کرکے حکومت کے سامنے سراپا احتجاج کیا۔ آپ نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ اس قسم کے متنازعہ و یک طرفہ مطالب کو درسی کتابوں سے حذف کریں۔

دوسرا اہم ترین مطالبہ آپ نے یہ کیا کہ حکومت مستند سازی کے ساتھ تاریخ کے متفق علیہ شخصیات کو نصاب میں شامل کریں ۔ آپ کا یہ نعرہ یکساں قومی نصاب کے لئے ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔

ایک قوم اور ایک نصاب تعلیم کا نعرہ شہید نے اس دور میں لگایا جب سب لوگ اس موضوع پر بلکل خاموش تھے اور اس موضوع کی طرف متوجہ بھی نہیں تھے۔ اس سوچ کے حوالے سے بلکل بھی شعور نہیں رکھتے تھے۔

آپ نے اس جدوجہد کو اپنی زندگی کا مقصد بنایا۔آپ نے اس ضرورت اور فکر کو عام کرنے کے لئے گلگت سے بلتستان تک اور کراچی سے اسلام آباد تک کئی دورے کئے۔

اس مطالبے کی عقلی و منطقی ضرورت کی دلیلوں کو شیعہ سنی عوام نے قبول کرلیا لیکن افسوس کہ دونوں طرف کے خواص اس نعرے کو ہضم نہ کرسکے۔ یہی وجہ ہے کہ عوامی مقبولیت کے باوجود آپ خواص میں تنہا ہوتے چلے گئے۔

اپنی تنہائی کے باوجود آپ اپنوں اور غیروں کو قانع کرنے کی مسلسل جدوجہد کرتے رہے۔ حکومت سے بھی مزاکرات کرتے رہے۔مزاکرات میں مسلکی مطالب سے بھر پور نصاب کے نقصانات کو اجاگر کرنے کے ساتھ یکساں قومی نصاب کی ضرورت و افادیت کو واضح کرتے رہے۔ اپنوں اور غیروں میں ایک طبقہ مسلسل آپ کے جائز اور منطقی موقف کو بےاہمیت سمجھتے رہے۔بالآخر تین جون دوہزار چار کو عوام کے درمیان آنے کا فیصلہ کیا یوں عوام نے آپ کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے حکومت کی دوغلی پالیسی کے خلاف بھر پور احتجاج کیا۔اس احتجاج کو روکنے کے لئے حکومت وقت نے طاقت کا غلط استعمال کرتے ہوئے اندھادھند فائرنگ کی جس کے نتیجے میں ایک نوجوان شہید اور کئی زخمی ہوئے۔لیکن شہید اپنے موقف پر مسلسل ڈٹے رہے۔ حکومت وقت نے ڈرانے دھمکانے کے علاوہ دنیاوی مال و متاع اور عہدوں کے دروازے آپ پر کھول دئے مگر آپ نے مولاعلی ع کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ان سب کو ٹھکرادیا اگرچہ خواص نے آپ کو تنہا کیا مگر عوام میں آپ کی مقبولیت بڑھتی چلی گئی۔ آخر کار اس مرد قلندر کو، یکساں قومی نصاب کا خواب دیکھنے پر، ایک متحد ملت پاکستان کی آرزو کرنے پر، آنے والی نسلوں کی بہتر تربیت کا بھیڑا اٹھانے پر، کم فہم لوگوں کو فہم دینے پر، بےشعور لوگوں میں شعور بانٹنے پر، خواب غفلت میں سوئے ہوئے لوگوں کو جگانے پر، سینکڑوں نصابوں میں الجھے ہوئے لوگوں کو ایک ہی نصاب کے لئے سلجھانے پر،وطن عزیز کی نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کرنے پر ملک و دین دشمن عناصر اور ابن ملجم کی اولادوں نے نو جنوری دوہزار پانچ کو نماز ظہر کے لئے مسجد جاتے ہوئے قاتلانہ حملہ کر کے شدید زخمی کردیا یوں تیرہ جنوری کو ہم ایک باشعور بابصیرت اور بےباک لیڈر سے محروم ہوگئے۔

یکساں قومی نصاب:

لیکن ہاں، جو بات رات کے اندھیرے میں بھی کرنے سے لوگ ڈرتے تھے آج دن کے اجالوں میں بھی کرنے لگے ہیں۔ جو بات آپ کو اپنے مسلک کے مدرسے میں کرنے نہیں دیا تھا آج وہ ٹی وی چینلز کے ٹاک شوز تک پہنچ گئے۔ شہید آغاضیاالدین نے اپنی جدوجہد سے جس یکساں نصاب تعلیم کی بنیاد رکھی تھی آج اس کی ضرورت کا سب معترف ہیں۔ آج پاکستان کے گوش و کنار میں سب کی زباں پر یہی نعرہ ہے۔ شہید کے خون کی تاثیر ہے کہ آج عوام سے خواص اور خواص سے حکومتی ایوانوں تک یہی نعرہ گونج رہا ہے۔ اب حکومت پاکستان کی طرف سے معاشرتی ناہمواریوں اور مسلکی لڑائیوں اور طبقاتی تقسیمات کے خاتمے کے لئے یکساں قومی نصاب کے لئے عملی جدوجہد ایک مستحسن عمل ہے۔ ہمیں افسوس ہے کہ یہ مستحسن عمل بھی ہمارے ملک میں افتراق و اختلاف کا باعث بنتا جارہا ہے۔

یکساں قومی نصاب اختلافات کا شکار کیوں؟

جب سب لوگ تسلیم کرچکے کہ یکساں نصاب تعلیم ہماری ضرورت ہے تو پھر اس میں اختلافات کیوں ہیں۔یہاں بھی لگتا ہے کہ ملک دشمن عناصر ملک سے مخلص لوگوں پر سبقت لے گئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں بنیادی مسائل کو بلکل نظر انداز کیا گیا۔

سب سے پہلے اسلامی نکتہ نظر سے تمام نصابی کتب کو تحریر کرنے کی بجائے لارڈ میکالے کی پیروی کرتے ہوئے دین کو فقط ایک سبجیکٹ تک محدود کرنا ہی غلط ہے ۔ دین اور شریعت ایک مکمل ضابطہ حیات کا نام ہے تو اس کا رنگ تمام سبجیکٹ میں عیاں ہونا چاہئےتھا۔

برصغیر کے لئے انگریزوں کا معین کردہ پاسنگ مارکس کو ختم کرنا چاہئے تھا۔تاکہ ہم اپنے ذہنی استطاعت پر فخر کرتے ہوئے احساس کمتری کی کیفیت سے باہر نکل جاتے۔ یکساں قومی نصاب میں تاریخ کے متنازعہ شخصیات کو لانے کی بجائے تاریخ کے متفق علیہ شخصیات کو لاتے تاکہ ایک قوم ایک نصاب کا نعرہ عملی ہوجاتا۔ خلفا ء سے لے کر اصحاب کرام تک ،امھات المؤمنین سے لے کر تابعین تک ایسی شخصیات بھی ہیں جو سب کے لئے قابل احترام اور قابل قبول ہیں۔ ایسی شخصیات کو نصاب میں لانے سے ایک قوم ایک نصاب کا خواب پایہ تکمیل کو پہنچ جاتا۔

متنازعہ نصاب کا نتیجہ:

حکومت نے دیگر سیبجیکٹس سے مذہبی تنظیموں اور شخصیات کی توجہات کو سمیٹ کر فقط اسلامیات پر لگادیا۔ اسلامیات میں بھی جدید درود پاک کے ذریعے جزئیات میں الجھادیا۔اپنی پسندیدہ شخصیات کا ذکر شامل کرنے کے سبب سب سے پہلے ایک کالعدم تنظیم نے اس کی حمایت کی اور ریلیاں نکالی۔

اس نصاب کا متنازعہ ہونے کے لئے کالعدم تنظیم کی یہی ریلی کافی تھی۔ اس صورت حال کے بعد کچھ شیعہ تنظیموں نے اس نصاب کے خلاف پریس کانفرنس اور بیانات دیئے جس میں اسلامی تحریک پاکستان پیش قدم تھی۔

شیعہ تنظیموں کی کوتاہی:

یکساں قومی نصاب کے خلاف شیعہ تنظیموں نے آواز تو اٹھائی لیکن پانی سر سے گزرنے کے بعد آواز اٹھائی گئی۔اگر ہم شہید آغاضیاالدین کے مشن پر چل رہے ہوتے تو اس موقع پر ہماری طرف سے سستی و کاہلی نہ ہوتی۔ اگر ہم شہید کی فکر و تحریک کو زندہ رکھتے تو اس موقع پر ہمارے پاس واضح روڈ میپ ہوتا۔ ہمارے پاس فقط اسلامیات کے لئے کمیٹی نہ ہوتی بلکہ پورے نصاب کے لئے پہلے سے ہی افراد کا ایک کھیب ہوتا۔ نصاب سازی کے لئے ہم تہی دست نہ ہوتے۔مقام غور یہ ہے کہ حکومتی نصاب کمیٹی کی طرف سے اول کلاس سے پنجم تک کے نصاب ترتیب دینے کے بعد اسی نصاب کے تحت سیلبس بھی چھپ کر آگیا۔تب ہماری تنظیموں کو ہوش آیا۔ واضح رہے کہ حکومت کی طرف سے تین ماہ تک نصاب ان کی سائیڈ پر عوامی نقد اور مشوروں کے لئے موجود رہا مگر کسی کو یہ توفیق نہیں ہوئی کہ وہ اس وقت اس نصاب پر تنقید کرتے اور اس کے نقائص کو اجاگر کرتے۔خیر دیر آید درست آید کے مصداق کے مطابق بعد میں اعتراضات کئے اور اس سلسلے کو رکوا دیا۔دوسری اہم کوتاہی ہماری طرف سے یہ ہوئی کہ اسلامیات میں متنازعہ مواد کے باوجود ہمارے نمائندگان نے اس پر دستخط کر دیئے۔ ایک اہم کوتاہی ہماری تنظیموں اور اکابرین سے یہ ہوئی کہ نصاب کمیٹی میں شامل ہماری ایک بہت ہی لائق و قابل احترام بزرگ شخصیت جناب قاضی انتقال کر گئے۔ ہماری لاپروائی دیکھیں کہ تقریبا دو سال تک وہ سیٹ خالی رہی۔اتنی اہم کمیٹی میں انتہائی حساس موقع پر اس طرح کی کوتاہی شاید قابل معافی نہیں ہے۔

شہید آغاضیاالدین رضوی کی سوچ اور فکر کے متعلق ہم سے کافی کوتاہیاں ہوئی ہیں۔ ان تمام کوتاہیوں کا بہترین ازالہ یہی ہے کہ ہماری تنظیمیں اور بزرگ شخصیات یکساں نصاب تعلیم کو شہید کے خوابوں کے سانچے میں ڈھالنے کی بھر پور کوشش کریں۔شاید اس طرح سے ہی ہم شہید کی روح کو شاد اور اپنی آنے والی نسلوں کا حق ادا کرسکیں۔

بدلا نہ تیرے بعد بھی موضوع گفتگو

تو جاچکا ہے پھر بھی میرث محفلوں میں ہیں۔

نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .