تحریر: محمد بشیر دولتی
حوزہ نیوز ایجنسی | کوئی بھی باشعور انسان کتاب کی اہمیت اور مطالعے کی افادیت کا انکار نہیں کرسکتا۔ انسان کا شعوری ارتقاء اور فکری ترقی میں کتاب اور مطالعے کا شروع سے ہی اہم کردار رہا ہے، اگرچہ طول تاریخ میں کتاب نے بھی کئی نشیب و فراز دیکھی ہے۔ خود کتاب کی شکل و شمائل نے بھی کئی ارتقائی منازل طے کیں ہیں۔ سرکنڈے کے قلم کی مٹیالی روشنائی سے درخت کے چھلکوں تک، جانوروں کی ہڈیوں سے لے کر کھالوں تک، کپڑوں سے لے کر معمولی کاغذوں تک اور اب بہترین و قیمتی کاغذوں سے لے کر ڈیجیٹل کتاب و قلم اور پرنٹنگ مشینوں تک، سفر کی ہے۔ افادیت و اہمیت کے حوالے سے کتاب اور کتاب کا مطالعہ شروع سے اب تک اہمیت کا حامل رہا ہے اور تا قیامت رہے گی۔
حقیقت کے متلاشی افراد مطالعے کے ساتھ ساتھ کتابوں کی تشخیص اور انتخاب پر بھی غور و فکر کرتے ہیں۔ ساتھ ایسی کتابوں کا انتخاب کرتے ہیں کہ جو حقائق کو کشف کرنے، فکروں کو پرواز دینے، کرداروں کو بلند کرنے، شخصیت کو مستحکم کرنے اور عقائد کو تحقیقی و منطقی کرنے میں مددگار ثابت ہوں ۔ ہر قسم کی شخصیات اور موضوعات کا انتخاب کرتے ہیں تاکہ اس کی فکر اور کردار کی بنیاد فقط ایک کتاب یا ایک ہی شخصیت تک محدود دائرے میں مقید نہ ہو۔ اس قسم کے افراد کو چاہئے کہ وہ ایسی شخصیات کو پڑھیں جن کی نظریات اور کتابیں افراد سے نکل کر معاشرے پر، ملکی سرحدوں سے نکل کر دنیا پر اثر انداز ہوئی ہوں۔ طالب علموں کو چاہئے کہ ان کا تعلق کسی بھی ملک، قوم یا مذہب سے ہوں وہ آثار شہید مطہری کا ایک دفعہ مطالعہ ضرور کریں۔ آثار شہید مطہری کوئی آثار قدیمہ نہیں بلکہ آج کے جدید دور میں بھی انسانی فلسفہ حیات سے آشنائی، علمِ عقائد سے علم اخلاق تک کی بہترین تبیین، جدید اعتراضات و شبہات کی جوابات سے لے کر فکر و شعور میں بلندی اور مختلف موضوعات پر سیر حاصل گفتگو سے لے کر مضبوط کردار سازی و معاشرہ سازی کا بہترین وسیلہ ہے۔
شہید مطہری دوسرے مصنفین اور مقررین سے اس حوالے سے بھی منفرد ہیں کہ دوسرے افراد کی ایک کتاب دوسری کتاب کی رد، ایک تقریر دوسری تقریر کو جھٹلاتی ہے مگر شہید کی تمام کتابیں اور تقریریں بغیر کسی الجھن کے فکر انسانی کی بلندی، بصیرت میں اضافہ اور کردار میں پختگی اور آفاقی بنانے کا بھی باعث ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ امام خمینی نے آپ کے تمام آثار کو بہترین قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ "جو خدمت شہید مطہری نے جوانوں اور دوسرے افراد کی کی ہے بہت کم لوگوں نے کی ہے۔ ان کے آثار بلا استثناء قابل قبول ہیں۔ میں کسی ایسے بندے کو نہیں جانتا جن کے بارے میں، میں کسی استثناء کے بغیر کہہ سکوں کہ ان کے آثار بہتر ہیں۔ شہید مطہری کے آثار بغیر کسی استثنا ء کے سب سے بہتر اور انسان ساز ہیں"۔(صحیفہ امام ج16)
اسی طرح رہبرِ انقلاب نے بھی یوم معلم پر ملاقات کے لئے آنے والے طلاب و اساتید کو حکم دیا کہ وہ شہید کی تمام کتابوں کو پڑھیں اور ان کی تمام تقاریر کو سنیں۔ طلاب کو چاہیئے کہ وہ نصابی کتابوں کے حصار کو توڑ کر شہید مطہری، شہید باقر الصدر، شہید بہشتی، رہبر معظم، امام خمینی اور دیگر عالمی و علمی شخصیات کی کتابوں کا مطالعہ و مباحثہ کریں۔پھر انہیں معاشرے میں بیان کریں تو یقیناً معاشرے کے اندر فکری و عملی انقلاب بپا ہو گا۔
فرد محوری کے بتوں کو توڑ کر مختلف عالمی شخصیات کی کتابوں کا مطالعہ کریں گے تو بصیرت اور درک فہم میں اضافہ ہوگا۔ زرخیز زمین کا اصول یہ ہے کہ آپ اس میں ایک ہی بیج بوتے رہیں گے تو اس کی زرخیزی ختم ہوتی ہے اور مختلف بیج بوئیں گے تو اس کی زرخیزی میں بھی مزید اضافہ ہوگا۔ اسی طرح ہمارا ذہن بھی زرخیز زمین کی مانند ہے ایک ہی شخص کو سنتے اور پڑھتے رہیں گے تو ذہن کند، مطالعہ محدود، شخصیت پرست اور دوسروں سے متنفر ہوں گے، جبکہ مختلف عظیم شخصیات کو پڑھنے اور سننے سے ذہن زرخیز، مطالعے میں وسعت اور شرح صدر کے ساتھ قوت فہم و فراست اور بصیرت میں بھی اضافہ ہوگا۔