۱۶ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۲۶ شوال ۱۴۴۵ | May 5, 2024
شہید صدر

حوزہ|شہید صدر(رح) کا یہ عقلی استدلال ، موجودہ دور میں رائج اصولی ذہنیت کا عکاس ہے جہاں شرعی قوانین و احکام کو واقعیت سے زیادہ «احتمال عقوبت» پر تولا جاتا ہے، ہمارے اصولی نظریات میں بہت زیادہ اسی اصول کو مد نظر رکھ کر مجتہد کی ذمہ داریوں کا تعین کیا جاتا ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی|

تحریروتحلیل: حجۃ الاسلام والمسلمین جناب فرقان گوہر زید عزّہ

شہید محمد باقر الصدر رحمۃ الله علیہ نے مشہور اصولیوں کے مقابلے میں حق الطاعۃ کا نظریہ پیش کیا ہے، جس کے تحت ،خداوند متعال کے سامنے انسان کی ذمہ داریوں کا دائرہ کار عقلی اعتبار سے کافی زیادہ وسیع پیمانے پر ترسیم ہوا ہے اور یوں آزادی عمل کا دائرۂ کار نہایت محدود ہے۔

شہید صدر کی رائے میں عام امور میں انسان جب اپنے مافوق کی اطاعت کے فرائض سر انجام دیتا ہے تو اس میں صرف ایسی ذمہ داریاں شامل ہوتی ہیں جن کا اسے علم یا اطمینان ہو، اور جہاں کہیں انسان نہ جانتا ہو کہ اس پر اس حوالے سے کوئی ذمہ داری نہیں ڈالی گئی تو پھر وہ اپنے آپ کو «بریء الذمہ» ٹھہراتا ہے۔

مشہور اصولیوں کا یہ ماننا تھا کہ اللہ تعالی کی ذات کا بھی انسانوں پر اسی قسم کا حق ہے، عقلی طور پر ہماری ذمہ داریوں اور فرائض کا دائرہ کار وہیں تک ہے جہاں تک ہمیں اپنی ذمہ داریوں اور فرائض کا علم ہو سکے ، جہاں ہمیں علم یا اطمئنان نہیں ہوگا، وہاں ہمارے اوپر کوئی ذمہ داری عائد نہیں ہوتی۔ کیونکہ کسی بھی صاحب حکمت ذات کے لیے ، اپنے احکام واضح کیے بغیر ان کی مخالفت پر سزا دینا قباحت رکھتا ہے۔

شہید صدر یہاں مشہور نظریے سے عدول کرکے حق الطاعۃ کا نظریہ پیش کرتے ہیں جس کے تحت انسان پر اللہ تعالی کا حق بہت وسیع و عظیم ہے۔ یہ اس کے صبح و شام اور ہر سانس پر محیط ہے، لہذا اسے ہر دم ہر گھڑی اللہ تعالی کی اطاعت کے لیے آمادہ رہنا ہے ۔ اس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ نہ صرف ان موارد میں جہاں اسے اپنی ذمہ داریوں کا علم ہے، بلکہ ان موارد میں بھی جہاں اسے تھوڑا سا شک یا گمان بھی گزرے کہ شریعت کا اس بارے میں کوئی حکم ہو سکتا ہے تو عقل یہ کہتی ہے کہ یہاں شریعت کی مرضی کو سامنے رکھا جائے اور احتیاط سے کام لیا جائے۔

شہید صدر کا یہ عقلی استدلال ، موجودہ دور میں رائج اصولی ذہنیت کا عکاس ہے جہاں شرعی قوانین و احکام کو واقعیت سے زیادہ «احتمال عقوبت» پر تولا جاتا ہے، ہمارے اصولی نظریات میں بہت زیادہ اسی اصول کو مد نظر رکھ کر مجتہد کی ذمہ داریوں کا تعین کیا جاتا ہے۔ جو اس کی لاشعوری ذہنیت کے تشکیل دینے میں موثر واقع ہوتا ہے۔ مجتہد لاشعوری طور پر احتیاط کے تقاضوں کو ملحوظ خاطررکھتے ہوئے، ہمیشہ ایسے احکام صادر کرتا ہے جہاں عقوبت کا خطرہ زیادہ سے زیادہ ٹالا جا سکے۔

یوں اجتماعی واقعیات کے ادراک اور ان کا گہرائی سے جائزہ لے کر تجزیاتی نتائج دینے کے بجائے، چند ظاہری روایات پر عمل کرنے میں اپنی فلاح و نجات محسوس کی جاتی ہے۔ یہ رویہ ہماری رائج فقہ کے بہت سے ابواب میں دیکھا جا سکتا ہے۔ احتیاطی احکام کی کثرت موجودہ دور کے عملی رسائل کا خاصہ بن چکی ہے۔

شہید صدر اپنا عقلی استدلال پیش کرنے کے بعد، یہ اعتراف کرتے ہیں کہ شرعی دلائل کی روشنی میں وہی مشہور کا نظریہ ہی درست معلوم ہوتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ شرعی دلائل کی روشنی میں ہم جس خدا کو پہچان رہے ہیں وہ بہت ہی آسانی پیشہ ہے، اس کے ہاں وسعت قلبی و نظری بہت زیادہ مقدار میں ہے۔ جبکہ ہم آج جس اصولی عقل (ذہنیت)کے تحت جارہے ہیں وہ شرعی عقل سے بہت پیچھے رہ چکی ہے۔ اور بے انتہا کنزرویٹو اور محتاط ہے۔

قابل غور امر یہ ہے کہ یہاں تو شہید صدر «شرعی عقل»کے سامنے تسلیم ہو گئے، شعوری اور لاشعوری ذہن کی اس کشمکش کے بیچ یہاں فتح اسی شعوری ذہنیت کی ہی ہوئی، لیکن کہاں کہاں اس لا شعوری ذہنیت نے فقہی استباط میں اپنا رنگ بھرا ہوگا۔ اسے سمجھنے کے لیے مزید تحقیقات کی ضرورت ہے۔

تحریر و تحلیل:محمد فرقان گوہر

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .