آج یکم مئی یوم مزدور ہے۔
محنت کش طبقہ ہمارے سماج کا مظلوم ترین طبقہ ہے۔ جو محنت مزدوری بھی کرتا ہے، جسمانی صعوبتیں بھی برداشت کرتا ہے، اور روحانی اذیت و تکلیف بھی ان کا مقدر ہوتی ہے۔
اس کو سماج میں بے اوقات، کمی، نیچ اور گھٹیا تصور کیا جاتا ہے۔ جبکہ خان، ملک، راجپوت، سردار جیسے القاب اغلب وڈیروں اور کم کاروں کو پیدائشی طور پر مل جاتے ہیں۔
یہ ہندوآریائی تہذیب کی « باقیات السیئات» ہیں، جو مسلمانوں کے توسط سے مشرف بہ اسلام ہو کر اسلامی سماج میں پوری یکسوئی سے رائج ہو چکی ہیں۔ اور اپنے آپ کو مسلمان کہنے والے ان تصورات پر صدیوں سے عمل پیرا ہیں۔ اس سوچ کو بدلنے کی زحمت گوارا ہی نہیں کرتے۔
اسلامی مساوات و برادری کا تصور مسجد و محراب اور منبر و وعظ کے اونچے سپیکروں سے دھیمی آواز میں بھی نہ دیا جا سکا۔
یوں اشرافیہ نے اپنا کلچر باقی رکھا کہ ان کی بقا اسی کلچر کے طفیل ہے۔
یہ نکتہ بھی اہمیت لائق ہے کہ مزدوری فقط جسمانی نہیں ہوتی، بلکہ فکر و ہنر بھی مزدوری کے دائرے میں آتا ہے۔ اگرچہ کچھ مزدوریوں کی افادیت اب واقعی سوالیہ نشان ہے۔
مزدور ڈے پر *ڈاکٹر اقبال* کے کچھ اشعار کی روشنی میں چند نکات یادآوری کے طور پر پیش خدمت ہیں۔
سرمایہ داری نے جو مزدور کا استحصال کیا ہے، اس پر سب اہل دل رنجور و غمگین ہیں، اس سے نکلنے کی ترکیب ہونی چاہیے۔ اقبال معروف انقلابی لیڈر «لینن» کی زبانی یہ دعا نقل کرتے ہیں:
تو قادر و عادل ہے مگر تیرے جہاں میں
ہیں تلخ بہت بندہ مزدور کے اوقات
_کب ڈوبے گا سرمایہ پرستی کا سفینہ_
_دنیا ہے تیری منتظر روز مکافات_
(بال جبریل)
تاہم اس شعر میں بھی فقط شکوہ شکایت ہے۔ کہ اے پروردگار تیرے بندہ مزدور کے اوقات بڑے تلخ ہیں۔
پھر علامہ نے روز مکافات کے انتظار پر بات کو تمام کر دیا۔ روز مکافات سے مراد انقلاب ہے یا نہیں؟ اس حوالے سے کچھ نہیں کہا جا سکتا
۔۔۔۔
کیونکہ وہ بال جبریل میں ہی ایک دوسری جگہ پر لکھتے ہیں:
_زمام کار اگر مزدور کے ہاتھوں میں ہو پھر کیا_
_طریق کوھکن میں بھی وہی حیلے ہیں پرویزی_
بظاہر اس شعر میں مزدور کے حقوق کے نام پر سوشلسٹ تحریک پر تنقیدی رویہ ہے کہ واقعی مزدور کے ہاتھ میں اگر سیاسی امور دے دیئے جائیں تو کیا ہی بات ہے، لیکن ایسا ممکن نہیں لگتا، بلکہ اس میں بھی اقتدار تک پہنچنے کے حیلے بہانے نظر آرہے ہیں۔ کوہ کن یعنی پہاڑ کھودنے والا مزدور، یہ مزدوری کا سب سے سخت شعبہ ہے۔ اس کے راستے میں وہی پرویزی حیلے ہیں۔ خسروپرویز ایرانی بادشاہ تھا، جسے یہاں مستعار لیا گیا ہے۔
اسی کا اگلا شعریہ ہے
_جلال پادشاہی ہو کہ جمہوری تماشا ہو
_ _جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی_
(بال جبریل)
یعنی اقبال کی نظر میں دین اور سیاست سے جدائی کا تصور درست نہیں ہے۔ اگرچہ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ مولوی حکمران رہیں، بلکہ اسلام کے دیئے گئے بنیادی سیاسی اصولوں پر مبنی سیاست مراد ہے۔ ایسی سیاست جہاں اقتدار ایک امانت الاہی ہوتا ہے۔ ذاتی خواہشات کی سیڑھی نہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اقبال کی نظم « خضر راہ » کو علامہ کا انقلابی شاہکار قرار دیا جا سکتا ہے۔
اس نظم میں وہ رقم طراز ہیں:
بندہ مزدور کو جا کر میرا پیغام دے
خضر کا پیغام کیا، ہے یہ پیام کائنات
یعنی مزدور کے لیے یہ پیغام صرف خضر ہی کا نہیں، بلکہ پوری کائنات کا پیغام ہے۔ یہ عالم ہستی کی آواز ہے۔
_اے کہ تجھ کو کھا گیا سرمایہ دار حیلہ گر_
_شاخ آہو پر رہی صدیوں تلک تیری برات_
سرمایہ دار کے متعلق آگاہی کا پیغام اس شعر میں ہے۔ ایک طبقہ جو حیلوں بہانوں سے مزدور کی مزدوری کو «ثمن بخس» میں خرید کر اپنی من مانی سے فروخت کرتا ہے۔
دوسرے شعر میں «شاخ آہو»سے جھوٹا وعدہ مراد ہے۔ آہو ہرن کو کہتے ہیں۔ برات شادی اور خوشی مراد ہے۔ یعنی تیری خوشیاں ہمیشہ جھوٹے وعدوں کی نذر ہو گئیں۔
_دست دولت آفریں کو مُزد یوں ملتی رہی_
_اہل ثروت جیسے دیتے ہیں غریبوں کو زکات_
دست دولت آفرین یعنی دولت کو وجود میں لانے والا ہاتھ۔
مزدور کا ہاتھ اصل دولت کو وجود میں لاتا ہے، اس کو مزدوری اس انداز میں دی جاتی رہی جیسے امیر لوگ غریبوں کو خیرات دیتے ہیں۔ احسان الٹا مزدور پر ہوتا ہے کہ ہم نے تمہیں کام دیا ہے۔
اسی نظم کے تسلسل میں اقبال مزدور کو بیداری کا پیغام دیتے ہیں، کہتے ہیں
_اٹھ کہ اب بزم جہاں کا اور ہی انداز ہے_
_مشرق و مغرب میں تیرے دور کا آغاز ہے_
اب اٹھ کھڑا ہو کہ دنیا کے تیور بدل چکے ہیں، مشرق و مغرب میں تیرے دور کا آغاز ہو چکا ہے۔
یہ غزل 1922 میں پڑھی گئی تھی، جہاں روس میں سوویت یونین کے انقلاب کو پانچ سال گزر چکے تھے۔ شاید اس کی طرف اشارہ ہے۔
یہ بھی کہا گیا ہے کہ اقبال نے یہ نظم انجمن حمایت اسلام کے سینتیسویں اجلاس میں پڑھی جو 13 اپریل 1922 ءکو اسلامیہ ہائی سکول اندرون شیرانوالہ دروازہ لاہور میں منعقد ہوا تھا(بحوالہ رمضان یحیی، خضر راہ کا تعارف)
۔۔۔۔۔
نکتہ آخر:
مزدور کے لیے آواز اٹھانے کا ایک مطلب کام کی اہمیت کو اجاگر کرنا ہے۔
اشرافیہ کلچر کام کو بے وقعت قرار دے دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے ملک میں کوئی ڈھنگ کی صفائی کرنے والا بھی نہیں ملتا۔ ہم مسیحیوں اور دوسرے مذاہب کے لوگ ڈھونڈ رہے ہوتے ہیں، اپنے گند صاف کروانے کے لیے۔ ایسا کیوں ہے؟ اسی اشرافیہ کلچر کی پھیلائی ذہنیت کا نتیجہ ہے کہ ہم کام کو عبادت تو درکنار اسے انسان کی شان کے بھی خلاف سمجھتے ہیں۔
کام عبادت ہے۔ مزدوری عبادت ہے۔ صفائی عبادت ہے۔ بیکاری جرم ہے۔ نکما رہنا جرم ہے۔ فارغ سردار بننا جرم ہے۔ سرداری کام کرنے اور محنت کرنے کا نام ہے۔
محمد فرقان گوہر
یکم مئی، 2023
─── ◈☆◈ ───