تحریر: مولانا سید علی ہاشم عابدی
حوزہ نیوز ایجنسی | اسلام دین فطرت ہے، اسلام کے تمام قوانین انسانی فطرت کے عین مطابق ہیں، انسانی زندگی کا کوئی گوشہ ایسا نہیں ہے کہ جس میں اسلام نے اپنا نظریہ نہ بیان کیا ہو۔ اسلام نے انسانی زندگی کے لمحہ لمحہ کے لئے قانون معین کئے ہیں کہ ایک انسان کیسے سوئے اور کیسے بیدار ہو، اس کا ظاہر کیسا ہو اور اس کا باطن کیسا ہو، سفر میں کیسا ہو اور حضر میں کیسا ہو؟
اسی طرح اسلام نے مزدوروں اور ملازموں کے بھی حقوق بیان کئے ہیں اور اہل بیت علیہم السلام نے اس سلسلے میں بھی اپنی سیرت کے نقوش چھوڑے ہیں کہ جن پر چلتے ہوئے نہ مالک مزدور پر ظلم کر سکتا ہے اور نہ ہی مزدور مالک سے خیانت کر سکتا ہے۔
اس سلسلہ میں مندرجہ ذیل نکات قابل غور ہیں۔
1. مزدور سے کام لینے میں عدالت کی رعایت۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اکلوتی یادگار بیٹی حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی کنیز جناب فضہ تھیں۔ ظاہر ہے گھر کے تمام کام کرنا کنیز کی ذمہ داری ہے اور اس کو ہدایت اور حکم دینا مالکہ کا حق ہے۔ لیکن اس کے بر خلاف شہزادی کونین حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا نے جناب فضہ سے فرمایا کہ ایک دن گھر کے کام تم کرو گی اور دوسرے دن گھر کے کام میں کروں گی۔
مزدور کا کیا حق ہے؟ مالک کو چاہیے کہ تمام مزدوروں اور ملازموں کو ایک نظر سے دیکھے اور ہر ایک کو اس کی صلاحیت کے مطابق ذمہ داری دے اسی طرح ہر ایک کی کوتاہی میں ان کے حالات کو بھی پیش نظر رکھے۔ مشہور واقعہ ہے کہ دوسرے دور خلافت میں ایک زانیہ خاتون کو رجم کرنے، سنگسار کرنے کے لئے لے جایا جا رہا تھا، راستہ میں امیر المومنین علیہ السلام کہ نظر پڑی تو پوچھا اسے کہاں لے جا رہے ہو تو حکومت کے کارندوں نے بتایا کہ اس کے گناہ کی سزا دینے اور سنگسار کرنے کے لئے لے جا رہے ہیں، امیر المومنین علیہ السلام نے فرمایا اس کو سنگسار نہ کیا جائے کیونکہ یہ حاملہ خاتون ہے اور حاملہ خاتون کو اس وقت تک سزا نہیں دی جا سکتی جب تک کہ اس کے یہاں ولادت نہ ہو جائے۔
غور طلب بات ہے کہ جب ایک گنہگار کے لئے اسلام کا یہ نظریہ ہو تو جو گنہگار نہ ہوں ان کے لیے اسلام نے کیا بہتر نظریہ رکھا ہوگا۔
2. کام کے انجام پر نظر۔
کسی کے بھی کام پر تعریف یا تنقید کرنے سے پہلے یہ ضرور غور کر لینا چاہیے کہ یہ کام مکمل ہوا یا نہیں۔ عالم تشیع کے عظیم عالم فقیہ مجتہد مرجع عالی قدر آیۃ اللہ العظمیٰ بروجردی رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں ایک میگزین پیش کی گئی اور درخواست کی گئی کہ آپ اس سلسلے میں کچھ تحریر فرما دیں۔ آپ نے تحریر سے منع کر دیا تو عرض کیا گیا کہ آپ نے فلاں فلاں کتاب پر تو تقریظ لکھی ہے اور لکھنے والے کی ستائش بھی کی ہے۔ آپ نے فرمایا چونکہ وہ کتاب مکمل ہو گئی تھی اور میں نے پوری کتاب پڑھی تو اس پر تقریظ بھی لکھ دی، لیکن یہ میگزین ہے، میگزین کا یہ شمارہ تو اچھا ہے لیکن آئندہ شماروں میں کیا چھپے گا اس کا مجھے علم نہیں لہذا جس چیز کا مجھے علم نہیں تو اس سلسلے میں کوئی تحریر پیش کرنا یا کہنا مناسب نہیں ہے۔
لہذا کام کے سلسلے میں بھی اپنا نظریہ بیان کرنے سے پہلے انجام کار پر ضرور غور کر لینا چاہیے کہ ایسا نہ ہو کہ ہم غلط کو صحیح یا صحیح کو غلط کہہ دیں۔
3. صلاحیتوں میں فرق اجتماعی زندگی کا لازمہ ہے۔
قران کریم نے تمام انبیاء علیہم السلام کو برابر نہیں کہا ہے بلکہ بعض پر بعض کی فضیلت بیان کی ہے۔ انسانی ہاتھ کی پانچوں انگلیاں بھی برابر نہیں ہوتیں۔ لہذا جس مزدور یا ملازم کو کوئی ذمہ داری سونپی جائے تو اس کی بھی صلاحیت کو دیکھ کر وہ ذمہ داری سونپی جائے۔ ایک ڈاکٹر کچہری میں کھڑے ہو کر مقدمہ نہیں لڑ سکتا اور نہ ہی ایک انجینیئر علاج کر سکتا ہے۔ لہذا صلاحیتوں کو پرکھ کر ملازم یا مزدور سے کام لینا چاہیے۔
ایک ڈاکٹر اپنے کسی مریض سے کہتا ہے کہ آپ گوشت نہ کھائیں لیکن دال چاول کھائیں، دوسرے مریض سے کہتا ہے کہ آپ دال چاول نہ کھائیں کیونکہ اناج کھانا آپ کے لیے مناسب نہیں ہے، کسی مریض سے کہتا ہے کہ آپ کھانا ہی نہ کھائیں۔ ڈاکٹر کو کسی مریض سے دشمنی نہیں ہے بلکہ جس کی جو حالت ہے اس کے مطابق حکم دیتا ہے۔
4. صلاحیتوں اور ذمہ داریوں کے مطابق تنخواہ دینا۔
جس کی جیسی صلاحیت ہو اور جس کا جیسا کام ہو اور جو جیسی کوشش کرے اس کی اسی صلاحیت، کام اور کوشش کے مطابق مزدوری اور تنخواہ دینی چاہیے لیبر اور کاریگر کی مزدوری برابر نہیں ہو سکتی۔ بلکہ مزدور کی مناسب مزدوری طے ہو اور اس کی غلطی پر نرمی سے پیش آیا جائے۔
امام جعفر صادق علیہ السلام نے ایک مزدور کو کام کے لئے بھیجا اس نے کام انجام دیا یا نہیں دیا لیکن وہ واپس نہیں آیا تو امام علیہ السلام اس کی جستجو میں نکلے تو دیکھا کہ وہ سو رہا ہے تو آپ اس کے سرہانے بیٹھ گئے اور ایک کپڑے کو ایسے ہلانے لگے کہ اس کے چہرے پر ہوا لگے۔ جب وہ بیدار ہوا تو آپ نے انتہائی مہربانی اور محبت سے فرمایا کہ تم یا رات میں سو اور دن میں کام کرو یا دن کے کسی حصے میں سو اور کام کرو۔ امام عالی مقام نے نہ اس پر غیض و غضب فرمایا اور نہ ہی اس سے کوئی سخت گفتگو کی بلکہ انتہائی نرمی سے اس کو اس کی غلطی کا احساس دلایا۔
اسی طرح روایت میں ہے کہ ایک دن امام علی رضا علیہ السلام نے دیکھا کہ آپ کے غلاموں کے ساتھ ایک سیاہ فام کام کر رہا ہے تو آپ نے اپنے غلاموں سے سوال کیا کہ یہ کون ہے تو انہوں نے بتایا کہ یہ ہمارے ساتھ کام کرتا ہے امام علیہ السلام نے پوچھا کہ تم نے اس کی مزدوری طے کی ہے تو انہوں نے بتایا کہ یہ بہت ہی غریب انسان ہے ہم اس کو اپنے ساتھ کام پر لگا لیتے ہیں اور شام کو تھوڑا بہت دے دیتے ہیں تو امام رؤوف ناراض ہو گئے اور فرمایا بغیر مزدوری طے کئے ہوئے اگر تم تین برابر بھی مزدوری دو تو مزدور کو اعتراض کا حق ہے کہ تم نے کم دیا ہے لہذا پہلے مزدوری طے کرو اس کے بعد اس سے کام لو۔
5. مزدوری اور ملازمت میں مشکلات
امیر المومنین امام علی علیہ السلام کی حدیث کی روشنی میں مالک یعنی جو کام کرا رہا ہے اس کے اندر مندرجہ ذیل باتیں نہ پائی جائیں
بخیل نہ ہو یعنی جو کام لے رہا ہے وہ کنجوس نہ ہو، دوسرے جاہل نہ ہو۔ یہاں جاہل سے مراد وہ نہیں ہے جو پڑھا لکھا نہ ہو بلکہ وہ مراد ہے جس کے پاس شعور و بصیرت نہ ہو۔ کیونکہ ممکن ہے ایک انسان کے پاس ڈگریاں تو ہوں لیکن شعور نہ ہو اور یہی فقدان شعور کے سبب وہ نہ تو صحیح کام کرا سکتا ہے اور نہ ہی صحیح افراد اس کے ساتھ کام کر سکتے ہیں۔
تیسرے کام کرانے والا رشوت لینے والا نہ ہو، چوتھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اولیاء الہی علیہم السلام کی سنتوں کو نظر انداز کرنے والا نہ ہو۔ بلکہ ہر لمحہ خاص طور سے کام کے وقت سنتیں اس کے پیش نظر رہیں۔ پانچویں جفا کرنے والا نہ ہو یعنی مالک مزدور پر ظلم نہ کرے اس پر جفا نہ کرے۔
(دعائم الاسلام، جلد 2، صفحہ 531)
اس حدیث کے مطابق کام لینے والے کے لئے معیوب ہے کہ وہ کنجوس، جاہل، جفا کار اور رشوت لینے والا ہو۔
اسی طرح جس سے کام لیا جا رہا ہے اسے تجربہ ہو، مالک و مزدور میں حیا پائی جائے، نیک اور صالح ہوں (نہج البلاغہ، خط 53)
مزدور یا مالک میں سے کوئی دھوکہ دینے والا نہ ہو جیسا کہ روایت میں ہے کہ جو دوسرے کو دھوکہ دیتا ہے اسے بھی دھوکہ ملتا ہے۔ (کافی، جلد5، صفحہ 160)
یعنی نہ مالک مزدور کو دھوکہ دے اور نہ ہی مزدور مالک کو دھوکہ دے۔
6. لقمہ حلال حاصل کریں۔
روایت میں ہے کہ مال حرام نسلوں میں ظاہر ہوتا ہے۔ مزدور کو نہیں چاہیے کہ وہ مالک کے ساتھ دھوکہ کرے اور اس سے اضافی پیسہ لے کیونکہ وہ پیسہ لینا جائز نہیں ہوگا، اسی طرح ملازم اگر ڈیوٹی نہ کرے یا کم کرے تو اس کا تنخواہ لینا جائز نہیں ہوگا۔
امیر المومنین امام علی علیہ السلام کی حدیث کی روشنی میں مالک یا مزدور لالچی نہ ہوں۔ کیونکہ اگر یہ لالچی ہوں گے تو یہ اپنی لالچ میں حلال کے ساتھ ساتھ حرام بھی اکٹھا کریں گے، ممکن ہے اس سے ان کے جسموں کو تو سکون ملے لیکن ان کی روح بے چین اور بیمار پڑ جائے گی۔
خدا ہمیں سیرت اہل بیت علیہم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔