۳ آذر ۱۴۰۳ |۲۱ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 23, 2024
بالصور/ رئيس حوزة النجف العلمية في الهند يتفقد وكالة أنباء الحوزة بمدينة قم المقدسة

حوزہ/ امام جمعہ ممبئی اور جامعۃ الامام امیر المومین علیہ السلام (نجفی ہاؤس)کے مدیر حجۃ الاسلام والمسلمین سید احمد علی عابدی نے ایران کے سفر کے دوران حوزہ نیوز ایجنسی کے مرکزی دفتر کا دورہ کیا اور ایک خصوصی انٹرویو دیا ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، امام جمعہ ممبئی اور جامعۃ الامام امیر المومین علیہ السلام (نجفی ہاؤس)کے مدیر حجۃ الاسلام والمسلمین سید احمد علی عابدی نے ایران کے سفر کے دوران حوزہ نیوز ایجنسی کے مرکزی دفتر کا دورہ کیا اور اس دوران ایک خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے ہندوستان میں تبلیغ کی ضرورت اور علمائے کرام کی ذمہ داریوں کی جانب اشارہ کیا ہے، اس انٹرویو کا تیسرا حصہ قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے:

حوزہ: ہندوستان میں تبلیغ کی ضروریات کے پیش نظر قم المقدسہ میں موجود طلاب کے نام پیغام دینا چاہتے ہیں؟

حجۃ الاسلام والمسلمین سید احمد علی عابدی: سب سے اہم بات یہ ہے کہ جب آپ نے علم دین کے لیے قدم بڑھایا ہے راہ میں قدم رکھا ہے تو ہمیں یہ سوچ لینا چاہیے کہ ہماری زندگی شاہانہ زندگی کی طرح نہیں ہوگی، آپ سوچیں کہ آپ نے کس راستے کا انتخاب کیا ہے؟ آپ نے معصومین علیہم السلام کے راستے کا انتخاب کیا ہے،اپنے اس راستے پر قدم رکھا ہے تو آپ کو پتہ ہونا چاہیے کہ یہ راستہ مشکلات کا راستہ ہے، آسانیوں کا راستہ نہیں ہے، ہمارا ہدف کیا ہے اور ہم کس ہدف سے اس راستے پر آ رہے ہیں، ہے ہمارا مقصد یہ ہے کہ ہم اس راستے پر آئیں اور ہمیں شاہانہ زندگی ملے؟ تو جب یہ معصومین علیہم السلام کا راستہ ہے، تو یہ تکلیفوں کا راستہ ہے، لیکن کامیابی کا راستہ ہے، اگر آپ کو انبیاء اور معصومین علیہم السلام کے راستے پر چلنا ہے تو بتائیں سلیمان علیہ السلام کو چھوڑ کر کس نبی یا کس امام کی زندگی آسائشوں کے ساتھ گزری ہے؟ کے کس صحابی نے اپنی زندگی بہت زیادہ آسائشوں کے ساتھ گزاری ہے ؟

جنہوں نے اس راستے پر قدم بڑھایا اور مشکلات کا سامنا کیا، ان درجات ملے، زندگی جو چند روزہ زندگی تھی اور تکلیفوں کے ساتھ ختم ہو گئی، جو اجر ملا اور ثواب ملا،غور کریں کہ وہ مرنے کے بعد کیسی عظیم ترین آسائش ترین زندگی گزار رہے ہیں، لہذا ہمیں یہ پہلے سوچ لینا پڑے گا کہ یہ راستہ مشکلوں کا راستہ ہے، یہ راستہ آسانیوں کا راستہ نہیں ہے۔

دوسری بات یہ کہ ہم جب اس راستے پر چل رہے ہیں تو ہم اپنے آپ کو لاوارث نہ سمجھیں، خود کو لاوارث اور بے سہارا کیوں سمجھتے ہیں؟ ہمارا امام موجود ہے۔ ایک معمولی سے ادارے کا ذمہ دار اپنے اراکین کے لئے یہ گوارا نہیں کرتا کہ اس کے اراکین کسی دوسرے کے سامنے ہاتھ پھیلائیں، تو اگر ان کی غیرت گوارا نہیں کرتی اور ہم خدا اور رسول کے لیے کام کرتے ہیں اور امام کے لیے یہ کام کر رہے ہیں تو کیا ان کی غیرت گوارا کرے گی کہ ہمارے یہاں کام کرنے والے دوسروں کے سامنے ہاتھ پھیلائیں؟ لیکن اگر خدا ہے اور خدا کا دین ہے اور ہم واقعا خدا اور خدا کے دین کے لیے کام کر رہے ہیں تو کیا خدا اپنے خدمت گزاروں کو چھوڑ دے گا۔ جناب موسی علیہ السلام خدا کے لیے نکلے، اللہ نے کہاں راستہ خود پیدا کیا؟ جہاں راستہ نہیں تھا، سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ دریا میں راستہ بن سکتا ہے وہاں اللہ نے جناب موسی علیہ السلام کے لیے راستہ بنایا، انسان سوچ نہیں سکتا وہاں اللہ تعالی نے راستہ پیدا کیا، ان کی قوم کے لیے اللہ نے جنت سے منی اور سلویٰ نازل کیا کہ نہیں کیا؟ لہذا ہمیں بھی خدا اور رسول پر توقع کرنا پڑے گا، اور اس زمانے میں جو شخص ان غریب مومنین کا خیال رکھے گا، اور ان غریب مومنین کی دینی ضرورتوں کو پورا کرے گا، ہمارا غیرت دار امام اس کا خاص خیال رکھے گا۔

خطیب اعظم مولانا غلام عسکری صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا ایک جملہ یاد آ رہا ہے کہ میں ممبئی میں ان کے ہمراہ بیٹھا ہوا تھا، اور ایک بات نکل آئی جس پر وہ کہنے لگے کہ میرے رفقاء کہتے ہیں کہ آپ ہر سال مدرسے کا بجٹ بڑھاتے چلے جا رہے ہیں، اور ہم کو بجٹ پورا کرنے میں نہ جانے کتنی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، تو مرحوم عسکری صاحب کہنے لگے کہ یہ بتائیں کہ کوئی ایک ایسا سال بتائیے کہ جس میں ہم نے بجٹ بتایا ہو اور ہمیں اس سے زیادہ نہ ملا ہو؟ تو جب ہمارا بجٹ کوئی دوسرا پورا کر رہا ہے تو ہمیں بجٹ میں کوتاہی کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ اور ہم جس امام کے ماننے والے ہیں وہ غیبت میں تو ہے غفلت میں نہیں ہے، ہاتھ کھلے ہوئے ہیں، امام کے ہاتھ اج بھی ویسے ہی کھلے ہوئے ہیں جس طرح ظہور کے بعد کھلے ہوئے ہوں گے، ہماری مشکل اور پریشانی کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ہم اپنے پدر مہربان، پدر شفیق اور پدر رؤف سے دور ہو چکے ہیں، میں عوام پر بھروسہ کم ہے۔

خدا مغفرت فرمائے، ہمارے استاد تھے وہ ایک جملہ فرمایا کرتے تھے کہ ایک بچہ ہے اور اس کو امتحان دینا ہے اور اس کی پنسل ٹوٹ گئی ہے، وہ ا کر اپنے باپ سے کہتا ہے کہ مجھے نئی پنسل لا کر دیں، کل ہمارا امتحان ہے، یہ پنسل ہماری ٹوٹ گئی ہے، تو باپ غصے میں کہتا ہے کہ میں کتنی مرتبہ تمہیں پینسل لا کر دوں، ابھی کل ہی تو لا کر دی تھی، بیٹا پریشان نہیں ہوتا، کیونکہ اسے پتہ ہے کہ یہ اس لیے ڈانٹ رہے ہیں کہ کل ہی پنسل لا کے دی تھی اور میں نے توڑ دی، لیکن دیکھ لینا کل صبح یہی پنسل بھی لا کر دیں گے اور یہی امتحان کے لیے ہمیں اسکول بھی پہنچائیں گے۔ اتنا اس بچے کو اپنے باپ پر اعتماد ہے، ہمیں اپنے امام پر اعتماد ہو، تو امام ہماری ہر ضرورت کو پورا کریں گے، مشکلات کی وجہ ہی یہی ہے کہ ہم اپنے شفیق باپ سے دور ہیں۔

ہم دین کے مالک نہیں ہیں، اگر ہم دین کہ مزدور ہو جائیں تو ہم نے بڑا کام کیا ہے، ہماری مزدوری کو قبول کر لیں پسینہ خشک ہونے سے پہلے ہماری مزدوری دے دیں گے، ہماری اس امام رؤوف سے توجہ کم ہو گئی ہے، ایک بار امام سے تو مانگ کر دیکھیں پھر دیکھیں کس طرح سے مشکلیں آسان ہوتی ہیں، جب مشکلات حل کریں گے تو عزت کے ساتھ حل کریں گے، آپ کی ابرو کی حفاظت کے ساتھ مشکلات کو حل کریں گے، کسی بھی صورت میں آپ کو ذلیل نہیں ہونے دیں گے، لیکن ہم اس امام رؤف سے غافل ہو گئے ہیں۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .