۹ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۹ شوال ۱۴۴۵ | Apr 28, 2024
بالصور/ رئيس حوزة النجف العلمية في الهند يتفقد وكالة أنباء الحوزة بمدينة قم المقدسة

حوزہ/ امام جمعہ ممبئی اور جامعۃ الامام امیر المومین علیہ السلام (نجفی ہاؤس)کے مدیر حجۃ الاسلام والمسلمین سید احمد علی عابدی نے ایران کے سفر کے دوران حوزہ نیوز ایجنسی کے مرکزی دفتر کا دورہ کیا اور ایک خصوصی انٹرویو دیا ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، امام جمعہ ممبئی اور جامعۃ الامام امیر المومین علیہ السلام (نجفی ہاؤس)کے مدیر حجۃ الاسلام والمسلمین سید احمد علی عابدی نے ایران کے سفر کے دوران حوزہ نیوز ایجنسی کے مرکزی دفتر کا دورہ کیا اور ہندوستان میں شیعوں کو درپیش مشکلات اور علمائے کرام کی ذمہ داریوں کے متعلق ایک خصوصی انٹرویو دیا ہے جس کا پہلا حصہ قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے:

حوزہ: ہندوستان میں مذہب تشیع کو کن مشکلات اور چیلنجز کا سامنا ہے؟

حجۃ الاسلام والمسلمین سید احمد علی عابدی: سب سے بڑی چیز جو ہر ملک میں ضروری ہے وہ اس کی علمی حیثیت ہے اگر آپ کسی ملک سے بیماریوں کو دور کرنا چاہتے ہیں، تو اس کس سب سے بہترین علاج یہ ہے کہ آپ وہاں پر عمدہ قسم کے ہسپتال قائم کریں، اور اس میڈیکل کالج میں وہیں کے لوگ ہوں، جتنا زیادہ میڈیکل کالج اور اسپتال اچھے ہوں گے، اتنا ہی زیادہ بیماریاں دور ہوں گی، اگر میڈیکل کالج اور ہسپتال اچھے نہیں ہیں تو بیماریاں بھی دور نہیں ہوں گی، ایک ڈاکٹر آئے گا دو چار دن رہے گا اور پھر چلا جائے گا، آج جو بیماریوں کا اچھا علاج ہو رہا ہے اس کا سبب یہ ہے کہ میڈیکل کالج میں اس بیماری پر ریسرچ ہو رہی ہے اور اس کا علاج تلاش کیا جا رہا ہے، بیماریوں پر تحقیقات ہو رہی ہیں اور اچھے اچھے مراکز قائم کیے جا رہے ہیں۔

بالکل اسی طرح علمی اور مذہبی دنیا بھی ہے، اگر آپ چاہتے ہیں کہ مذہبی دنیا بھی اگے بڑھے تو آپ کو اچھے علمی مراکز قائم کرنا ہوگا، اچھے تحقیقاتی ادارے قائم کرنے پڑیں گے، اچھے مدرسے بنانے پڑیں گے، اچھے اساتذہ رکھنے پڑیں گے، جس وقت یہ مراکز قائم ہوں گے اس وقت خود بخود ایک علمی دنیا قائم ہو جائے گی، جس طرح کرونا کے دور میں علمی مراکز اور ڈاکٹرز نے اس مرض کے اوپر تحقیق کی اور اس کا علاج ڈھونڈا، اگر تحقیق نہ کی ہوتی تو آج یہ صورتحال نہ ہوتی، بالکل اسی طرح مذہبی دنیا میں بھی شکوک و شبہات ہیں، مذہبی شبہات بھی بالکل وائرس کی طرح سے معاشرے میں پھیل رہے ہیں، لہذا اس کے لیے ایک سلسلے کی ضرورت ہے جو شکوک و شبہات کے جوابات پر کام کریں، اور مختلف انداز سے اس کا جواب دیں، اس شکوک و شبہات کے وائرس کو پھیلنے سے بچائیں، اور اگر یہ وائرس پھیل چکا ہے تو اس کا علاج کریں۔

لہذا ضرورت ہے ایسے علمی ادارے قائم کرنے کی جس میں پڑھے لکھے اور مضبوط افراد موجود ہوں، جب تک آپ علمی ادارے نہیں بنائیں گے تب تک ہندوستان کی علمی اور مذہبی حیثیت کو بہت زیادہ مضبوط نہیں بنا پائیں گے۔

جس طرح قوم المقدسہ ہے، اس شہر کی آپ جس بھی گلی میں جائیں وہاں آپ کو دو چار اچھے قسم کے علمی ادارے موجود ملیں گے، مختلف موضوعات پر بحمدللہ یہاں کام ہو رہا ہے، اور بہت ہی مضبوط تحقیقی کام ہو رہا ہے، جس کا آپ تصور بھی نہیں کر سکتے، لیکن اس کے برعکس اگر آپ ہندوستان میں چراغ لے کر بھی ڈھونڈیں تو شاید ہی آپ کو دو چار ایسے ادارے ملیں گے جو اس طرح کے علمی اور تحقیقی موضوعات پر کام کر رہے ہوں، یہ بات قابل افسوس ہے کہ وہاں کے علماء اور ان کی کتابوں پر ایران میں تو کام ہو رہا ہے، اور ہندوستان میں اس طرح کے کام نہیں ہو رہے ہیں، ہماری باغ کے پھول دوسروں کے چمن میں کھل رہے ہیں، اور خود ہمارے باغ میں خزاں آئی ہوئی ہے، ہمارے باغ کے پھول دوسرے باغوں میں بہاریں پھیلا رہے ہیں، اور ہمارے یہاں خزاں کا موسم ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے یہاں وہ تحقیقی ادارے نہیں ہیں جو کام کریں۔

یہ کوئی شکایت نہیں ہے، بلکہ اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ ہمارے یہاں وہ وسائل موجود نہیں ہیں، میں اگر آپ کسی موضوع پر کام کریں تو آپ کو دسیوں قسم کے معاونین اور تعاون کرنے والے مل جائیں گے، میں آپ کو جگہ دے دی، کسی نے امکانات فراہم کر دیے، اس کے برعکس ہندوستان میں اگر آپ ایک چھوٹا سا مدرسہ بھی کھولیں تو دو وقت کی روزی روٹی کے لیے آپ کو بڑی محنت کرنی پڑ جاتی ہے، تو جہاں آپ کو صبح کے ناشتے اور دوپہر کے کھانے کی فکر ہوگی، فکری طور پر کس طرح اپنے مدرسے کو اوپر لا سکتے ہیں؟

ہندوستان میں اگر کوئی تحقیقی کام کرے تو اس کا پرسان حال کون ہے؟ اس عالم دین کی دو وقت کی روزی کا انتظام کرنے والا کون ہے، کسی کتاب کی ضرورت ہو تو وہ کتاب فراہم کرنے والا کون ہے، پہلے زمانے میں جب یہ ذمہ داری ختم نہیں ہوئی تھی،تو جو لوگ صاحبان حیثیت سے وہ لوگ علمائے کرام کی مدد کیا کرتے تھے اور ان سے ملتے تھے، اور اس سے ان علماء کا کام آسان ہو جایا کرتا تھا، اس کی ضروریات بھی پوری ہو جایا کرتی تھیں، لیکن اب دور یہ ہے کہ اپنی زندگی کی ضروریات بھی خود کو ہی فراہم کرنا ہے، ہے کہ ہندوستان میں اگر کوئی کتاب تالیف کرنا چاہے یا لکھنا چاہے تو صورتحال یہ ہے کہ خود ہی تحقیق کیجئے، اس کو لکھیے، خود ہی کو ٹائپ کرائیے، اس کو چھپوائیے اور خود ہی اس کو لے جا کر کے بازار میں بیچیے، اور اگر کوئی جان پہچان کا مل گیا تو آپ کتابیں اسے ہدیہ دیجیے۔ حالات میں انسان تحقیق کس بنیاد پر کرے؟

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .