حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، امام جمعہ ممبئی اور جامعۃ الامام امیر المومین علیہ السلام (نجفی ہاؤس)کے مدیر حجۃ الاسلام والمسلمین سید احمد علی عابدی نے ایران کے سفر کے دوران حوزہ نیوز ایجنسی کے مرکزی دفتر کا دورہ کیا اور ہندوستانی مدارس میں طلاب کی کمی اور اس کے اسباب و علل، اور علمائے کرام کی معاشی حالات کے متعلق ایک خصوصی انٹرویو دیا ہے جس کا دوسرا حصہ قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے:
حوزہ: ایک زمانے میں ہندوستان میں حوزات علمیہ کم تھے، اس میں طلاب کی تعداد زیادہ تھی، اس زمانے میں ہر شہر میں حوزہ علمیہ ہے، لیکن طلاب کی تعداد کم ہے اور اس مدرسے کا اس شہر پہ بھی اثر بہت کم ہی دیکھنے کو مل رہا ہے، اس کی کیا وجہ ہے؟
حجۃ الاسلام والمسلمین سید احمد علی عابدی: واضح سی بات ہے کہ جب مدرسے کم تھے اور 100طلاب ایڈمیشن کے لئے آنے والے تھے تو پانچ مدرسوں میں بٹتے تھے، لیکن اب اگر س مدرسے ہیں اور 100 طلاب ایڈمیشن کے لیے آ رہے ہیں تو ظاہر سی بات ہے ہر مدرسے میں ایک ایک طالب علم ہی آئیں گے، مدرسوں کی تعداد تو بڑھ گئی لیکن دین کی طرف آنے والوں کی تعداد میں اضافہ نہیں ہوا، جس طرح تیزی سے مدرسے کھلے جو کہ بہت اچھی بات ہے، اسی طرح لوگوں کا مدرسے کی جانب رجحان بھی بڑھنا چاہیے تھا، لیکن ایسا نہیں ہوا، وہی 100 یا ڈیڑھ سو طلاب جو مدرسوں میں آتے تھے پہلے پانچ مدرسے میں بٹ جایا کرتے تھے، لیکن اب سو مدرسوں میں بٹ جا رہے ہیں۔
اور دوسری وجہ جو سب سے اہم ہے وہ یہ ہے کہ لوگوں کے ذہن میں سوال یہ ہے کہ بچے یہ تعلیم حاصل کر کے کریں گے کیا؟ اس میں ان بچوں کا مستقبل کیا ہے؟ ہم کریں گے کیا ہم کریں گے کیا؟ اگر مدرسوں میں جا رہے ہیں تو وہ مدرسے جو حکومت سے وابستہ ہیں، اس میں اساتذہ کا داخلہ آسانی سے نہیں ہو سکتا، آپ کا اپوائنٹمنٹ ہونا چاہیے اور اس کے لیے ایک الگ داستان ہے کہ کیسے اپوائنٹمنٹ ہوگا؟ اور وہ مدارس جو حکومت سے وابستہ نہیں ہیں اور حکومت سے انہیں کوئی مدد نہیں ملتی، ان مدارس میں پیسہ ہی نہیں ہے، پانچ یا 10 ہزار تنخواہ ہوا کرتی ہے، تو پھر اس کم رقم میں انسان کیسے اپنا خرچ پورا کرے گا؟
اور اگر آپ مسجدوں کی بات کریں تو وہاں پر بھی آپ کی کوئی مستقل حیثیت نہیں ہے، اگر مسجد والے آپ سے راضی ہیں تو ٹھیک ہے، ورنہ والسلام۔
حوزہ/ جس طرح سے کالج اور یونیورسٹی میں ایک نظام ہوتا ہے کہ فارغ التحصیل ہونے کے بعد ان کی پلیسمنٹ کی جاتی ہے، کیا اس طرح سے آج یہ کام نہیں ہو سکتا کہ حوزہ علمیہ کی جانب سے علماء کی مساجد یا مدارس میں پلیسمنٹ ہو اور ان کی حمایت کی جائے؟
حجۃ الاسلام والمسلمین سید احمد علی عابدی:آج اگر ایک بچہ کسی اچھے کورس پر کام کرتا ہے، اور اس نے محنت کی، اگر یہ بچہ واقعا باصلاحیت اور پڑھا لکھا ہے، تو اس کا کیمپس سلیکشن ہو جاتا ہے، اور کبھی کیمپس سلیکشن ہزاروں میں نہیں ہوتا، اگر کسی کے سلیکشن 10 لاکھ کے اوپر ہے تو اس کا مطلب ہے کہ اسے مہینے میں 80 یا 90 ہزار روپے ملنے والے ہیں، تو اس بنا پر لوگ وہاں جاتے ہیں، آج آپ حوزہ علمیہ قم میں ہیں اور ماشاءاللہ یہاں پر علماء اور فضلاء اور محققین کی ایک بڑی تعداد ہے، وہ علماء اور فضل اور محققین جو یہاں موجود ہیں اور مفصل تحقیقات انجام دے رہے ہیں،ہندوستان سے مسلسل قافلے آتے رہتے ہیں اور ان میں بہت سے ادارے کے ذمہ داران بھی آتے رہتے ہیں، تو اب تک کتنے لوگوں نے ان محققین سے یہ کہا کہ سرکار آپ ہندوستان تشریف لے چلیں اور ہم آپ کے لیے تمام چیزیں مہیا کریں گے اور آپ وہاں پر تحقیق کریں؟ کیا کوئی ایسا ہے جس نے ان علماء کی خدمت میں اس طرح کی کوئی پیشکش کی ہو؟ آپ چلیں آپ محقق ہیں عالم دین ہیں عالم با عمل ہیں، آپ کو تاریخ پر عبور حاصل ہے، آپ بہت ہی بڑی شخصیت ہیں، ہم آپ کی تمام ضروریات کو پورا کریں گے، کیا اج تک کسی نے اس طرح کی کوئی پیشکش کی ہے؟ کوئی نہیں ہے، تو اس صورت میں آپ کیا توقع رکھیں گے۔
حوزہ/ ہم نے ایرانی علماء اور طلاب دیکھا ہے کہ وہ تعلیم کے ساتھ ساتھ اپنا کسب معاش کا بھی کوئی ذریعہ رکھتے ہیں، لیکن اگر یہی چیز کوئی عالم دین ہندوستان میں کرتا ہے تو لوگ اس کے پیچھے نماز پڑھنا تک چھوڑ دیتے ہیں، اس سلسلے میں آپ کیا کہنا چاہتے ہیں ؟
حجۃ الاسلام والمسلمین سید احمد علی عابدی: بالکل کرنا چاہیے، لیکن پیش نمازی کے ساتھ بقیہ دوسرے کام نہیں ہو سکتے، وجہ یہ ہے کہ اس کی ذمہ داریاں زیادہ ہیں، صبح اٹھنا ہے اور نماز صبح پڑھانا ہے، دوپہر میں وقت پر مسجد پہنچ جانا ہے، چاہے مامومین آئیں یا نہ آئیں، لیکن اسے نماز سے پہلے پہنچ جانا ہے، اسی طرح نماز مغرب سے پہلے اسے مسجد پہنچ جانا ہے، اس میں جو تھوڑا سا وقفہ ہے، آدمی کس جگہ کام کرے گا، اگر یہ دکان کھولے بھی اور دکان کے ساتھ نماز بھی پڑھائے، تو اسے اپنی دکان 12 بجے بند کر دینی ہے، اور اگر اس کے بعد کوئی پروگرام ہے تو اس پروگرام میں بھی شرکت کرنا ہے، یعنی وہ نماز پڑھ کر فوراً باہر نہیں آ سکتا، یا مثلا نماز مغرب میں نماز پڑھائی اس کے بعد مجلس رکھ دی گئی، اب اسے مجلس بھی پڑھنا ہے، پتہ چلا ان سب میں دو گھنٹے خرچ ہو گئے، واپس دکان پر پہنچے تو دکان بند کرنے کا وقت ہو گیا، اس طرح کے مسائل درپیش ہیں۔
لیکن ایسا نہیں ہے کہ کام نہیں کرنا چاہیے،بہت سارے ایسے کام ہیں جو ایک عالم دین کر سکتا ہے، جیسے انٹرنیٹ کا کام ہے، یا کتابیں ٹائپ کرنے کا کام ہے، یا ترجمے کا کام ہے، اردو ٹائپنگ کا کام ہے، ایسے لوگ ہمارے پاس نہیں ہیں جو پڑھے لکھے ہوں اور صحیح ٹائپ کر سکتے ہوں، جو لوگ ٹائپ کر رہے ہیں وہ اردو سے عربی سے اور فارسی زبان سے واقفیت نہیں رکھتے، اگر یہی کام سیکھ لیں اور کام کرنے لگیں تو اج اچھا خاصہ کام مل سکتا ہے اور عزت کے ساتھ کام بھی کر سکتے ہیں۔ خلاصہ یہ ہے کہ راستے اور بھی ہیں لیکن اس میں آپ کو مستقل مزاجی سے کام کرنا پڑے گا۔