۸ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۸ شوال ۱۴۴۵ | Apr 27, 2024
شهید مطهری

حوزہ/ حج پر جانے سے پہلے میرے عقیدہ کے مطابق وہ تمام دروس جو حج کے لئے سیکھنا چاہیئے منجملہ وہ امور جو حج کے لئے ہر مرد و عورت کو انجام دینا چاہیئے یہ ہے کہ کم از کم ایک مہینہ تک حج کی آمادگی کے لئے کلاس میں شرکت کرے، یعنی پہلے سے ایک کلاس حج کی آمادگی کے لئے تشکیل پائے تاکہ حاجی بصیرت کے ساتھ حج کے لئے جائے۔

از آیت اللہ شہید مرتضیٰ مطہری

حوزه نیوز ایجنسی | وہ دروس جو ہمیں حج کے عظیم اجتماع سے حج کے لئے سیکھنا چاہیئے وہ اسلام کے عظیم مقاصد تک پہنچنے کے لئے مقدماتی طور پر ہیں اور ہم نے ان اہداف و مقاصد کو قرآن و سنت سے حاصل کیا ہے۔ صرف ہمیں اس بات کا پاس و لحاظ رکھنا چاہیئے کہ یہ اہداف واقعاً پورے ہوں۔ اسلام نے ہم کو یعنی مختلف ملتوں کو جو ایک دوسرے سے غیر مرتبط ہیں جن کہ نہ زبان ایک ہے نہ ہی نسل، اسی طرح نہ رنگ ایک ہے نہ ہی حکومت و ملیت ایک ہے، سب کو ایک ہی سرزمین میں غیر عادی روحانی آمادگی کے ساتھ جمع کیا ہے۔ جو اجتماع یقینا بے مثال ہے ایسا اجتماع جو کمیت و تعداد کے لحاظ سے کم نظیر اور شاید بے نظیر ہے اور تقریباً 320000/ بیرون ملک اور ایک ملین افراد خود مملکتِ سعودیہ سے امسال (1387ہجری قمری) جمع ہوئے تھے۔ لیکن کیفیت کے لحاظ سے قطعاً بے نظیر ہے اس لئے کہ سب سے پہلے طبیعی اور بالکل خاص ہے، ان کے لئے کوئی زور زبردستی حکم فرما نہیں ہے، ایسا اجتماع جو کسی حرص و لالچ کی بنیاد پر نہیں ہے بلکہ تمام طمع و حرص کو پس پشت ڈال دیا ہے، ایسا اجتماع کہ جس میں جنسیاتی یاسیرو تفریح کا کوئی عامل نہیں پایا جاتا، حداکثر یہ ہے کہ آخر میں وہ اپنا رنج و غم کم کئے ہوتے ہیں، ایسا اجتماع جو اگرچہ وقتی طور پر ہے اپنے افتخار ات اور آرزوﺅں کو پس پشت ڈال کر، تمام افراد ایک قسم کی فکر ایک ہی قسم کے ذکر ایک قسم کے لباس و عمل کے ساتھ ایک ہی راہ میں قدم اٹھاتے ہیں ۔

یہاں تک اسلام نے انجام دیا ہے، یہاں کے بعد سے یعنی اس عظیم خالص اجتماع سے استفادہ کرنا ہم سے مربوط ہے۔

حضرت علی ؑ نے فرمایا: بغیر کسی شک و شبہ کے خود یہی اجتماع جو صرف افراد ایک دوسرے کا دیدار کرتے ہیں دین کی تقویت میں موثر ہے لیکن کافی نہیں ہے۔

اسلام کی تقویت کا کیا مطلب ؟ اسلام تقویت پائے گا اس کا کیا معنی ہے؟ اسلام کا تقویت پانے کا معنی یہ ہے کہ پیروانِ اسلام کے ایمان میں اضافہ ہو اور پیروانِ اسلام کا عمل اسلام کے ساتھ منطبق ہو نیز پیروان اسلام کی تعداد میں اضافہ ہو۔ اسلام کی تقویت کا دوسرا معنی یہ ہے کہ مسلمان افراد قوی تر ہوں اور ان کے قوی تر ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ان کے درمیان اتحاد ویگانگی زیادہ محکم ہو۔

لہٰذا اسلام کی تقویت کا لائحہ عمل دو حصوں میں نافذ ہونا چاہیے۔ پہلے حصہ میں یہ ہے کہ تمام لائحہ عمل ، نشریات اور اسلامی تعلیمات ایام حج میں انجام دینی چاہیے۔ حج کی فرصت سے استفادہ کرنا چاہیے اسلامی حقائق کی نشرواشاعت کرنی چاہیے۔ مواعظ و نصائح کے ذریعہ لوگوں کی طبیعت اور حوصلے کو اسلام پر عمل کرنے کے لئے آمادہ کرنا چاہیے تاکہ وہ افراد جب وہاں سے واپس ہوں تو بہترین آمادگی کے ساتھ پلٹیں۔ البتہ اس قسم کے امور مملکت حجاز(سعودیہ) کے تعاون سے انجام پائے۔ وہ اصلاحات جو امور کے لحاظ سے حج سے مربوط ہیں انہیں بھی انجام دینا اسی حصہ میں شامل ہے۔

دوسرا حصہ مسلمانوں کے روابط کو تقویت دینے اور ایک دوسرے کو نزدیک کرنے سے مربوط ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

”اے ایمان و الوصبر کرو، صبر کی تعلیم دو، جہاد کے لئے تیاری کرو اور اللہ سے ڈرو شاید تم فلاح یافتہ اور کامیاب ہو جاﺅ۔“ (سورہ آل عمران، آیت200)

قرآن نے اس مقام کو صلح و مصالحت اور امن و امان کی چار دیواری قرار دیا ہے:

” اور اس وقت کو یاد کرو جب ہم نے خانہ کعبہ کو ثواب اور امن کی جگہ بنایا۔“

اس محل کو محل حرام(جیسے زمانہ جاہلیت میں حرام مہینے) قرار دیا ہے کہ اس مقام پر اسلحہ زمین پر رکھ دینا چاہیے ، آزار و اذیت کی حس کو پس پشت ڈال دیں، حرم میں شکار نہ کریں۔ حرم کی گھاس کو نہ توڑیں،حرم میں انسانی خون کو بہانے کی بات ہی جداگانہ ہے۔ اسلام نے اس کے ذریعہ صلح و مصالحت اور امن و امان کا ماحول فراہم کرنا چاہیے۔

مسلمانوں کا اتحاد دو پہلو سے ہے۔ ایک سیاسی پہلو سے جو حکومتوں کا فریضہ ہے۔

اس جہت سے کہ ملتوں سے مربوط ہے ، چاہیے کہ سوءتفاہم کی دیواروں کو خراب کریں۔ یہ اہم ترین فریضہ ہے جو اس راہ میں یعنی دین کی تقویت میں مسلمانوں کے اتحاد و روابط کو محکم کرنے کے لئے انجام دینا چاہیے۔ لیکن افسوس کہ مسلمان افراد کثرت سے مذہبی تفرقے کا شکار ہوگئے ہیں ۔ خود مذہبی تفرقہ سے بالا تر ، ایسے بہت سے سوءتفاہم اس سلسلہ میں ایجاد کردیئے گئے ہیں ۔ اس مقام پر دو مطلب ہے۔ ایک مطلب یہ ہے کہ کیا ممکن ہے کہ مذہبی وحدت ایجاد کرنے کے لئے کوئی اقدام عمل میں آئے؟ یہ کوئی بڑا کام نہیں ہے ، کم از کم اتنی جلدی کوئی بڑا عمل نہیں ہے۔ ہم جو کہ شیعہ ہیں ابھی تقلید کے مسئلہ میں کوئی وحدت نہیں ایجاد کر سکے اور ہمیں ایسا کام انجام دینا چاہیے کہ مجتہدین کرام فتویٰ کی ایک کمیٹی تشکیل دیں اور ہر زمانہ میں لوگوں کے پاس ایک رسالہ توضیح المسائل سے زیادہ موجود نہ ہو۔ پھر ایسے وقت میں ہم یہ توقع رکھتے ہیں کہ حنفی، شافعی ، مالکی، وہابی اور زیدی سب کے سب آکر شیعہ اثناءعشری ہو جائیں؟ لیکن دوسرا مطلب یہ ہے کہ کیا یہ مذہبی اختلافات اسلامی وحدت و اخوت سے مانع ہیں؟ کیا یہ بات مانع ہے کہ تمام مسلمان ایک دوسرے کے ساتھ برادری کا احساس کریں جب کہ ان کا قرآن ایک ، ان کا پیغمبر ایک ہے، سب ہی احادیث پیغمبر کو قبول کرتے ہیں اور ایسے اسناد و شواہد پائے جاتے ہیں کہ اہل بیت کی حدیثوں کو اہل سنت کو بھی تسلیم کرنا چاہیے۔ آیت اللہ بروجردی ؒ اور شیخ عبدالمجید سلیم، مصر کے مفتی اعظم نے اسی بنیاد پر یہ توافق کیا تھا کہ اہل تشیع اہل تسنن کی معتبر حدیثوں کو قبول کریں البتہ قدیم زمانہ سے تسلیم کرتے تھے، صرف اپنی حدیثی کتابوں میں وارد کریں اور وہ بھی بمو جب حدیث ثقلین ، احادیث اہل بیت کو قبول کریں۔ یہی وہ عوامل تھے جس سے فقہ مقارن کے مقدمات مصر میں معرض وجود میں آئے۔ جو کچھ جھوٹ کی بنا پر سوءتفاہم کا موجب ہوا ، وہی مسلمانوں کا ایک دوسرے سے نزدیک ہونے سی مانع ہے نہ کہ خود مذاہب، خوش بختی کے طور پر ہم شیعہ افراد ان کے ساتھ نماز پڑھنا صحیح جانتے ہیں نماز اور حج میں ان کا اتباع جائز و لازم اور کافی جانتے ہیں ۔ بعض شیعوں کے اعمال بہت زیادہ افسوس کا باعث ہیں۔

اگر کوئی ایک شیعہ حج پر جائے جو نزدیک سے زیارت پیغمبر کے بجائے صرف خلفاءکو ملامت کرے تو اسے حج پر نہیں جانا چاہیئے، منجملہ وہ افعال جو انجام دینا چاہیے یہ ہے کہ مباحثہ اور مذہبی لڑائی جھگڑے کو ترک کرنا چاہیے۔ اور خوش بختی کے طور پر قرآن میں ان مباحثات سے منع کیا گیا ہے:”اور جو شخص بھی اس زمانے میں اپنے اوپر حج لازم کرے“ عورتوں سے مباشرت گناہ اور جھگڑے کی اجازت نہیں ہے۔“

بعض افراد کو خوشی ہوتی ہے کہ وہاں جاکر بحث ومباحثہ کریں۔ یہ بے چارے نہیں جانتے کہ بحث و جدل اور کتاب بحثی وجدلی کسی کام کو آگے نہیں بڑھائے گی۔ الغدیر جیسی کتاب سے ان کے درمیان کوئی کام نہیں بن سکا لیکن اصل الشیعہ و اصولھا اور مختصر النافع سے وہ کام ہوگیا۔ صحیفہ سجادیہ اور خلاف شیخ طوسی، تذکرہ علامہ تفسیر مجمع البیان اور آخر میں تفسیر المیزان نے ان کے درمیان اپنا کام کر دکھایا ہے، اسی طرح اخلاقی کتابوں میں جامع السعادات، اخلاق ناصری (البتہ اس کا عربی ترجمہ) تاریخی تحقیقی کتابیں وہ کتابیں جو اسلام کی اجتماعی مباحث کے لئے تحریر کی گئیں اگر ترجمہ ہوں اور لوگوں کی دست رس میں رکھی جائیں، ہمیں جاننا چاہیئے کہ اس زمانہ میں دوسرے زمانوں سے کہیں زیادہ مسلمانوں کو اتحاد و اتفاق کی ضرورت ہے۔ ہم شیعیان علی ؑ کو یہ افتخار حاصل ہے کہ حضرت علی ؑ نے سب سے عظیم عفووبخشش اور فداکاریوں کو خلافت کے مسئلہ میں انجام دیا، نہایت ہی خلوص نیت سے اپنے رقیبوں کے ساتھ ہم گام ہو کر تعاون کیا، یعنی اسلام کی مصلحت کو بالا ترین مصلحتوں میں سے جانتے تھے۔ میں نے خود مثبت اقدامات کے اثر کو سوء تفاہم کے ختم کرنے میں مشاہدہ کیا ہے۔ شیخ عطیہ سالم، مدینہ اسلامی یونیورسٹی کے استاد نے شیعوں کی صرف دو کتاب پڑھی تھی:اصل الشیعہ اور مختصر النافع، تو سجدہ گاہ پر سجدہ کرنے کا اعتراف کیا کہ شیعہ خلاف شرع کا م انجام نہیں دیتے۔

حج پر جانے سے پہلے میرے عقیدہ کے مطابق وہ تمام دروس جو حج کے لئے سیکھنا چاہیئے منجملہ وہ امور جو حج کے لئے ہر مرد و عورت کو انجام دینا چاہیئے یہ ہے کہ کم از کم ایک مہینہ تک حج کی آمادگی کے لئے کلاس میں شرکت کرے، یعنی پہلے سے ایک کلاس حج کی آمادگی کے لئے تشکیل پائے تاکہ حاجی بصیرت کے ساتھ حج کے لئے جائے۔

منجملہ وہ امور جو حج کے لحاظ سے بالخصوص سیکھنا اور اسے انجام دینا چاہیے اسلامی زبانوں کا رائج کرنا ہے۔ یہ مسلمانوں کے اتحاد کے لئے حد سے زیادہ ضرورت کی حامل ہے۔ ہم کہتے ہیں کہ اسلامی زبانیں ایک لحاظ سے اسلام کے لئے مخصوص زبان نہیں ہے، یعنی وہ زبان جو اس کی مروج ہو۔ دوسری زبان کے لحاظ سے عربی چونکہ قرآن و عبادت کی زبان ہے، ہر مسلمان کے لئے کم و بیش جاننی ضروری ہے۔دوسرے لحاظ سے ہم ہر وہ زبان کہ جس کے ذریعہ اسلامی اہم آثار معرض وجود میں آئے ہیں اس کی اسلامی زبان جانتے ہیں، اس کے علاوہ فارسی، ترکی، اردو بالخصوص فارسی زبان ایک اسلامی زبان ہے۔

مثنوی، سعدی، حافظ، نظامی، کیمیائی سعادت جامی وغیرہ یہ سب اسلامی شاہکار اور مولود اسلام ہیں، قبل اس کے کہ ان کا تعلق ایران سے ہو اسلام سے متعلق ہیں۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .