۱۶ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۲۶ شوال ۱۴۴۵ | May 5, 2024
فرقان گوہر

حوزہ|حجۃ الاسلام والمسلمین جناب فرقان گوہر کے محققانہ قلم سے اس مقالے میں ان سوالات کے جوابات پیش کیے گئے ہیں:عاشورا کیا ایک مقدس و بابرکت دن ہے؟ قبل از اسلام اس دن  کی کیا اہمیت تھی؟ اسلامی فقہ کی رو سے اس دن روزہ واجب ہے یا مستحب؟ یا پھر مکروہ یا حرام؟ یا پھر مباح ہے، بلکہ متروک ہے؟

حوزہ نیوز ایجنسی|

تحریروتحقیق: حجۃ الاسلام والمسلمین جناب فرقان گوہر زید عزّہ

عاشورا کا دن اسلامی تاریخ میں اہمیت کا حامل ہے۔ کیونکہ امام حسین (ع) نے اس دن لازوال قربانی پیش کر کے ، تمام اہل شعور کو ظلم وبربریت، بے راہ روی اور فسق و فجور کے خلاف آواز بلند کرنے کا حوصلہ دیا۔ تاہم یہ دن تاریخی لحاظ سے مزید کچھ پیچیدگیاں رکھتا ہے۔ ذیل میں چند ایک سوالات ہیں جس کے تحت مسئلہ کی نوعیت کا اندازہ ہو سکے گا۔

عاشورا کیا ایک مقدس و بابرکت دن ہے؟

قبل از اسلام اس دن کی کیا اہمیت تھی؟

اسلامی فقہ کی رو سے اس دن روزہ واجب ہے یا مستحب؟ یا پھر مکروہ یا حرام؟ یا پھر مباح ہے، بلکہ متروک ہے؟

1۔تاریخی پس منظر:

سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ یہودیوں کے ہاں اس دن کا روزہ بہت اہمیت کا حامل تھا۔ اس لیے ان کے تصورات اس دن کے حوالے سے اسلامی میراث میں دیکھے جا سکتے ہیں۔ البتہ بلا شک یہودی اور اسلامی کیلنڈر جدا جدا ہیں، پھر ان کے ہاں عاشورا کی اہمیت کا مطلب کیا ہو سکتا ہے؟

ڈاکٹر جواد علی اور دیگر مورخین کا جواب یہ ہے کہ یہودیوں کےاپنے کیلنڈر کے حساب سے پہلے مہینے کی دسویں تاریخ کی اہمیت ہے۔(المفصل فی تاریخ العرب، ج۶، ص۳۳۹)

ابوریحان بیرونی نے بھی اسی کی وضاحت میں کہا ہے کہ اس دن کے روزے کو کبور(کیپور kipur)کہا جاتا ہے۔کپور یا کبور وہی کفارہ ہی ہے، کیونکہ یہودیوں کا عقیدہ ہے کہ اس دن کا روزہ گناہوں کا کفارہ بنتا ہے۔حتی کہ ان کے ہاں اس روزے کو ترک کرنے کی سزا قتل بتائی گئی ہے۔ اس کا طریقہ کار یہ تھا کہ نویں تاریخ غروب سے ایک گھنٹہ پہلے سے دسویں تاریخ غروب کے آدھ گھنٹہ بعد تک روزہ رکھا جا تا تھا۔ (الآثار الباقیۃ، ص۲۷۷)

2۔من گھڑت روایات:

دوسری بات یہ ہے کہ عاشورا کے دن اسلامی تاریخ میں نہایت ہی غم و اندوہ بھری تاریخ رقم ہوئی ہے، خاندان رسالت کے افراد بے دردی سے شہید کر دیے گئے، یزیدیوں نے جشن منایا اور باقاعدہ اسرائیلی روایات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے، اس دن کو بابرکت دن قرار دے کر اپنی تبلیغات کا سلسلہ شروع کر دیا۔ چنانچہ حضرت آدم کی خلقت ، ان کا جنت میں بھیجا جانا، ان کی توبہ کا قبول ہونا، اسی طرح عرش و کرسی ، زمین و آسماں، چاند ستاروں ،سورج اور بہشت کی خلقت سب اسی دن سے منسوب ہو گئی، صرف یہی نہیں، بلکہ حضرت ابراہیم خلیل ع کی ولادت، ان کا آگ سے نجات پانا، حضرت موسی ع اور ان کی قوم کا فرعون کے چنگل سے بچ نکلنا، حضرت عیسی مسیح ع کا آسمانوں پر جانا، اور ادریس کا مکان رفیع پر بلند ہونا، نوح کی کشتی کا کنارے لگنا، سلیمان کا ملک عظیم پر فائز ہونا ، یونس کا مچھلی کے شکم سے نجات پاجانا، یعقوب کی بینائی لوٹ آنا، یوسف کا کنویں سے نجات پاجانا، اور ایوب کی پریشانیاں ختم ہونا ، حتی کہ آسمان میں سب سے پہلی بارش کا نزول الغرض تاریخ انسانیت کا ہر اچھا واقعہ اسی دن پیش آیا ہے۔ (رسالۃ المسلسل الاميريہ، ص 20-۲۱)جھوٹ کے کوئی پير نہیں ہوتے، تبھی تو آسمان و زمین اور سورج ، چاند ستارے اور شمسی نظام تشکیل پانے سے پہلے عاشورا کے دن کا وجود فرض کر لیا گیا اور کسی کو اعتراض تک نہ ہوا؟ در اصل افسانوی باتیں زمان و مکان کی قید سے آزاد ہوتی ہیں۔

3۔اہل بیت (ع) کے لیے یوم غم و اندوہ:

اگلی بات یہ ہے کہ یہ دن کسی اور کے لیے جتنا ہی بابرکت کیوں نہ ہو، کم از کم آل رسول ع کے لیے نہایت ہی اندوہ ناک دن ہے۔ اس لیے آل رسول نے اسے نحس دن قرار دیا ہے۔ (کافی،ج۴، ص۱۴۶)

4۔فقہی آراء اور حدیثی شواہد

اس دن کے روزہ کے حوالے سے فقہائے اہل سنت میں دو نظریات ہیں، امام ابوحنیفہ کے ہاں وجوب کا نظریہ ہے، امام شافعی سے «وجوب و عدم وجوب» دونوں نقل ہوئے ہیں، امام احمد سے بھی دونوں روایتیں ملتی ہیں، جبکہ باقی فقہاء واجب نہ ہونے کے قائل ہیں۔

بعض شیعی روایات کے مطابق عاشورہ کا روزہ ماہ رمضان المبارک کے روزوں سے پہلے موجود تھا، اس کے بعد متروک ہو گیا۔(من لا یحضرہ الفقیہ، ج۲، ص۸۵) ۔

متروک ہونے سے مراد کیا ہے؟

ایک روایت کے مطابق یہاں متروک سے مراد بدعت ہونا ہے، (کافی ، ج۴، ص۱۴۶)تاہم اس کی سند صحیح نہیں ہے ۔ ایک اور روایت امالی طوسی میں ہے(اگرچہ وہ بھی مجہول السند ہے) کہ راوی امام صآدق ع سے عاشوراء کے روزے کے متعلق سوال کرتا ہے ، تو آنحضرت فرماتے ہیں کہ اگر اہل بیت کی شرمندگی کا ارادہ رکھتے ہو تو پھر روزہ رکھو۔۔۔پھر آنحضرت وضاحت کرتے ہیں کہ اس دن آل ابی سفیان نے قتل حسین ع کی خوشی میں روزہ رکھا۔۔۔

اس روایت سے عنوان ثانوی(شباہت بنی امیہ) کے تحت روزہ رکھنے سے منع کا نتیجہ ملتا ہے۔

قرآن کریم میں یوم عاشور کے روزے کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ بطور کلی قرآن میں ماہ رمضان کے علاوہ صرف منت اور کفارے کے روزوں کا تذکرہ موجود ہے۔ اس کے علاوہ کسی بھی قسم کے روزے کا تذکرہ قرآن میں نہیں ہے۔

کچھ روایات میں اس روزے کی فضیلت بتائی گئی ہے، اسے «ایک سال کے گناہوں کا کفارہ قرار دیا گیا ہے»(یہودیوں کی طرح)،

یہ روایت شیعہ کے ہاں تہذیب و استبصار میں اور اہل سنت کی صحیح مسلم میں نہایت قریب قریب مضمون کے ساتھ موجود ہے۔ اس لیے کچھ فقہاء نے یہ تفصیل دی ہے کہ اس دن کو بابرکت قرار دیتے ہوئے، روزہ رکھنا بدعت ہے، جبکہ اہل بیت ع کے حزن و غم میں روزہ رکھنا مستحب ہے، آیت اللہ خوئی اسی نظریے کے قائل ہیں۔ اس سے پہلے ابن ادریس، محقق حلی اور صاحب جواہر نے بھی یہی رائے قائم کی ہے۔ تاہم مجلسی نے مرآۃ العقول میں اس روایت کو تقیہ پر محمول گردانا ہے،(مرآۃ العقول، ج۱۶، ص۳۶۰) جس کی کوئی خاص وجہ سامنے نہیں آ سکی۔

ایک اور بات جو ہمارے ہاں رائج ہے کہ اس دن آدھا پونا روزہ رکھا جائے، جسے فاقہ کشی کہا جاتا ہے، یعنی صبح سے لیکر عصر عاشور تک بھوکے پیاسے رہیں، اس حوالے سے ایک روایت موجود ہے ، تاہم اس کی سند صحیح نہیں ہے۔ کیونکہ یہ روایت شیخ طوسی نے مصباح میں نقل کی ہے ۔ اور آقای خوئی کی تحقیق مطابق اس کا طريق مجہول ہے۔ لہذا یہ روایت مرسلہ کے حکم میں ہے۔ (المستند فی العروۃ الوثقی، صوم، ج۲، ص۲۰۷)

اس روایت کے مطابق امام صادق ع ، عبداللہ بن سنان کو حکم دیتے ہیں کہ روزہ رکھو تاہم (باقی روزوں کی مانند نہیں) کہ باقاعدہ سحری کے وقت اٹھ کر نیت کرو کہ روزے سے ہوں، اسی طرح افطار کرو بغیر دعا کیے، اور مکمل دن کے روزے سے پرہیز کرو، اور عصر کے تقریبا ایک گھنٹہ بعد افطار کر دو، کیونکہ اس وقت اہل بیت کے ساتھ جنگ کی آگ بجھ چکی تھی۔

( صمه من غير تبييت، و افطره من غير تشميت، و لا تجعله يوم صوم كملا، و ليكن إفطارك بعد صلاة العصر بساعة على شربة من ماء فإنّه في مثل هذا الوقت من ذلك اليوم تجلّت الهيجاء عن آل رسول اللّه صلّى اللّه عليه و آله و سلّم(مصباح المتہجد، ج۲، ص۷۸۲)۔

5۔تجزیہ و تحلیل:

خلاصہ کلام یہ ہے کہ اس دن کی فضیلت ثابت نہیں ہے۔ روزہ رکھنا بھی اگر برکت وغیرہ کے حصول کی نیت سے نہ ہو تو باقی دنوں کی طرح مباح ہے، روزے کی فضیلت تبھی ثابت ہو سکتی ہیں، جب خود اس دن کو بافضیلت مانا جائے، جبکہ ایسا کوئی عندیہ ہماری روایات میں نہیں ملتا ۔ اس لیے فقط روزے کی فضیلت پر سند کی درستگی ، مسئلے کو حل کرنے کے لیے ناکافی ہے۔

صحیح بخاری کی روایات کے حوالے سے بھی ایک نکتہ کا بیان شاید ضروری ہو کہ اس مورد میں روایات میں تضاد پایا جاتا ہے، ایک روایت کے مطابق قریش مکہ ، جاہلیت کے زمانے میں اس دن کا روزہ رکھا کرتے تھے، اور رسول خدا (ص) بھی اسی طریقہ پر کاربند تھے۔ (بخاری ، ج۱، ص ۳۴۱باب صيام عاشورا)جبکہ اسی صحیح کی دوسری روایت کے مطابق رسول خدا (ص) کو مدینہ پہنچنے تک اس روزے کے بارے میں بالکل علم ہی نہ تھا، اور یہودیوں نے آپ کو اس بارے میں بتایا ، تو پھر آپ نے روزہ رکھا، (بخاری ، ج۱، ص۳۴۱، باب صيام عاشورا)۔ اور اگر اس روزے کی اتنی ہی فضیلت ثابت تھی تو حضرت عبداللہ بن عمر رض،جن کا شمار پڑھے لکھے اور بافہم اصحاب میں ہوتا ہے، اسے کیوں مکروہ قرار دیتے تھے۔ (فتح الباری، ج۴، ص۲۸۹)

اس سے بھی زیادہ قابل غور بات ابن جوزی نے «الموضوعات» میں کی ہے، جہاں وہ من گھڑت روایات کی وجوہات پہ روشنی ڈالتے ہیں، وہ بتاتے ہیں کہ ایک اہم وجہ قصہ خوان حضرات تھے، جس طرح آجکل منبر پہ بیٹھ کر مختلف کہانیاں سنائی جاتی ہیں، اور کوئی پوچھنے والا نہیں ہے، یہ رسم بڑی پرانی ہے۔ اس دور میں بھی قصہ خوانی کا دور دورہ تھا۔ بازاروں کے چوراہوں پر ، گلی کوچوں اور دیگر عمومی مقامات میں لوگ وعظ و نصیحت اور تبلیغ کی غرض سے مختلف باتیں سنا سنا کر لوگوں سے داد تحسین اور پیسے بٹورتے تھے۔ ابن جوزی کے کلام سے اس بات کا عندیہ ملتا ہے کہ قصہ خوان حضرات کاایک اہم موضوع عاشورا کے فضائل کا بیان تھا، وہ نقل کرتے ہیں کہ ایک قصہ خواں صاحب جب ڈھیر سارے فضائل سنا چکا ، تو اس سے پوچھا کہ یہ روایات جو تو نے فضایل عاشورا میں پڑھی ہیں، ان کی سند کیا ہے؟ کس استاد سے یہ تعلیم حاصل کی ہے؟ اس نے جواب دیا، یہ کسی نے نہیں بتائیں، بلکہ ابھی فی الفور میرے دماغ میں آئی ہیں۔ (ابن جوزی، الموضوعات، ج۱، ص۴۴)

حزن و غم میں روزہ رکھنے کی تاکید یا اس کے استحباب کا تصور بھی نہایت درجہ عجیب ہے۔ جس کی مذہبی رسوم و رواج میں مثال نہیں ملتی۔ چنانچہ بعض روایات کا یہ کہنا کہ یہ روزے کا نہیں ، بلکہ غم و اندوہ کا دن ہے،(کافی، ج۴، ص۱۴۷، ح۷) اس بات کاواضح ثبوت ہے کہ روزہ غم و اندوہ سے زیادہ خوشی اور برکت کے موقع پر ہوتا ہے، چنانچہ عید غدیر کا روزہ مستحب ہے۔ حتی کہ خود عاشورا کے حوالے سے ایک روایت جس میں روزے کا حکم دیا گیا ہے، وہاں اشارہ دیا گیا ہے کہ گذشتہ دور میں یہ عید کا دن تھا، اس لیے تم بھی روزہ رکھو، (مجمع الزوائد، ج۳، ص۱۸۵)

خود امام حسین ع کی سیرت میں اس دن کا روزہ یکسر طور پر نظر انداز کر دیا گیا ہے، جبکہ نماز پر بڑی تاکید موجود ہے۔ اگر اس دن کے روزے کی تاکید ہوتی ، جیسا کہ بعض روایات میں عندیہ ملتا ہے کہ امام علی ع اس پر بڑی تاکید کرتے تھے،(مصنف عبدالرزاق، ح7836) تو امام حسین ع قطعا کسی نہ کسی انداز میں اپنے والد بزرگوار کے اس تاکیدی رویے کو عملی جامہ پہنا کر اس دنیا سے جاتے۔

آخری بات یہ ہے کہ غم و اندوہ اور سوگواری کی وجہ سے کھانے پینے سے اجتناب ایک فطری امر ہے، اس کے لیے کسی روایت کی ضرورت نہیں ہے۔شیخ طوسی کی مذکورہ روایت کو بھی اسی فطری امر کا بیان قرار دیا جا سکتا ہے۔

تحریروتحقیق: محمد فرقان گوہر

پیشکش: فرقان اکیڈمی

اکیڈمی جوائن کرنے اور فی سبیل اللہ اکیڈمی کے علمی مطالب سے استفادہ کرنے کے لیے یہاں اس لنک پر کلیک کریں۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .

تبصرے

  • ارم PK 11:15 - 2024/05/01
    0 0
    ماشاءاللہ احسن