۱۵ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۲۵ شوال ۱۴۴۵ | May 4, 2024
جوادی آملی

حوزہ/ یہ جو لوگ کہتے ہیں کہ آج کا دن بہت سخت تھا اور آج کا دن بہت نحس تھا، چنانچہ ایک دن دسویں امام کا ایک صحابی امام کی خدمت میں پہنچا اور کہنے لگا کہ آج کا بہت مشکل سے گزرا اور آج کا دن بہت نحس تھا، فلاں جگہ میرا کپڑا بھٹ گیا اور فلاں جگہ میرے پیر میں چوٹ لگ گئی، امام علیہ السلام نے فرمایا: تم کسی دن کو کیسے کہہ سکتے ہو کہ یہ دن برا ہے اور نحس ہے؟ یہ تو صرف ایک وقت اور زمان ہے، اس وقت میں نہ جانے کتنے لوگوں نے اچھے کام کئے اور نہ جانے کتنے لوگوں نے برے کام بھی کئے، بہت سے لوگوں نے کامیابی کی منزلیں طی کیں اور بہت سے لوگ خسارے میں رہے، لہذا یہ وقت تو صرف ایک ظرف ہے، اور ظرف کا مظروف سے کیا واسطہ؟

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، آیت اللہ العظمیٰ جوادی آملی نے مسجد اعظم، حرم معصومہ قم سلام اللہ علیہا میں درس خارج کے دوران نہج البلاغہ کی حکمت ۱۳۱ کی تشریح کرتے ہوئے کہا: حضرت امیر المومنین علیہ السلام نے کسی کو دنیا کی برائی اور مذمت کرتے ہوئے سنا تو فرمایا (جیسا کہ خود نہج البلاغہ حکمت 131 میں مذکور ہے): وَ قَالَ ع وَ قَدْ سَمِعَ رَجُلًا یَذُمُّ الدُّنْیَا اَیُّهَا الذَّامُّ لِلدُّنْیَا، الْمُغْتَرُّ بِغُرُرِهَا، الْـمَخْدُوْعُ بِاَبَاطِیْلِهَا! اَتَغْتَرُّ بِالدُّنْیَا ثُمَّ تَذُمُّهَا. اے دنیا کی برائی کرنے والے! اس کے فریب میں مبتلا ہونے والے! اور اس کی غلط سلط باتوں کے دھوکے میں آنے والے! تم اس پر گرویدہ بھی ہوتے ہو اور پھر اس کی مذمت بھی کرتے ہو۔

انہوں نے مزید کہا: کچھ لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ زمانہ اور دنیا کو برا کہتے ہیں، ایسی باتیں میں نے کچھ بزرگوں سے بھی سنا ہے لیکن وہ جو کہہ رہے ہیں وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ کیا کہہ رہے ہیں، س وہ یہ نہیں کہتے کہ دنیا بری ہے، وہ کہتے ہیں کہ دنیا داری کی وجہ سے ہی یہ تلخ واقعات رونما ہوتے ہیں، حقیقت تو یہ ہے کہ دنیا بھی آخرت کی طرح ایک ظرف ہے، آخرت میں جنت اور جہنم ہے اور خوشی، غم سب کچھ ہے، انسان آخرت میں بھی اپنے کام کا نتیجہ اور جزا پائے گا، خواہ وہ اچھا ہو یا برا، اور اسی طرح دنیا میں بھی وہ اپنے کام کا نتیجہ پائے گا، اب مظروف کے اچھے یا برے ہونے میں ظرف کا کوئی قصور نہیں ہے ۔

انہوں نے کہا: بعض چیزیں نظام ھستی سے متعلق ہیں مثلاً اگر کوئی خاص ستارہ کسی خاص مقام سے کسی خاص ستارے کے قریب آجائے تو اچھا ہوگا یا نحس ہوگا، اس پر علمی اور سائنسی دلیل بھی موجود ہے، یہ ایک علمی معاملہ ہے، کیونکہ وقت کبھی دوبارہ واپس نہیں آتا، اس لیے احادیث میں ہے کہ کسی خاص دن جب چاند گرہن ہو تو صدقہ دیں یا فلاں دعا پڑھیں وغیرہ، اس سے یہ مشکل حل ہو جائے گی، لیکن   یہ جو لوگ کہتے ہیں کہ آج کا دن بہت سخت تھا اور آج کا دن بہت نحس تھا، چنانچہ ایک دن دسویں امام کا ایک صحابی امام کی خدمت میں پہنچا اور کہنے لگا کہ آج کا بہت مشکل سے گزرا اور آج کا دن بہت نحس تھا، فلاں جگہ میرا کپڑا بھٹ گیا اور فلاں جگہ میرے پیر میں چوٹ لگ گئی، امام علیہ السلام نے فرمایا: تم کسی دن کو کیسے کہہ سکتے ہو کہ یہ دن برا ہے یا نحس ہے؟ یہ تو صرف ایک وقت اور زمان ہے، اس وقت میں نہ جانے کتنے لوگوں نے اچھے کام کئے اور نہ جانے کتنے لوگوں نے برے کام بھی کئے، بہت سے لوگوں نے کامیابی کی منزلیں طی کیں اور بہت سے لوگ خسارے میں رہے، لہذا یہ وقت تو صرف ایک ظرف ہے، اور ظرف کا مظروف سے کیا واسطہ؟

تبصرہ ارسال

You are replying to: .