۲۰ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱ ذیقعدهٔ ۱۴۴۵ | May 9, 2024
آئی ایس او

حوزه/ امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن، پاکستان کے شیعہ طلباء کی  ایک ملک گیر الہی تنظیم ہے، جو کہ 22 مئی 1972ء کو دنیا کے نقشے پر ابھری۔ اس کا قیام آیت اللہ مرتضیٰ حسینؒ صدر الفاضل، آغا علی موسویؒ، صفدر حسین موسویؒ اور شہید ڈاکٹر محمد علی نقویؒ کی قیادت میں یونیورسٹی آف انجینیئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی لاہور میں ہوا۔

حوزه نیوز ایجنسی| امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن، پاکستان کے شیعہ طلباء کی ایک ملک گیر الہی تنظیم ہے، جو کہ 22 مئی 1972ء کو دنیا کے نقشے پر ابھری۔ اس کا قیام آیت اللہ مرتضیٰ حسینؒ صدر الفاضل، آغا علی موسویؒ، صفدر حسین موسویؒ اور شہید ڈاکٹر محمد علی نقویؒ کی قیادت میں یونیورسٹی آف انجینیئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی لاہور میں ہوا۔

یہ گذشتہ 51 سال سے شیعہ طلبہ کی دینی و دنیاوی تربیت و معاونت کر رہی ہے۔ امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے نام سے ایک الہی جدوجہد کا آغاز کرنے سے قبل ملک بھر میں شیعہ طلباء مختلف پلیٹ فارمز پر سرگرم تھے، سفیر انقلاب ڈاکٹر شہید محمد علی نقوی نے مختلف شخصیات سے رابطے شروع کیے اور اس بات پر زور دیا کہ شیعہ طلباء کو ایک پلیٹ فارم پر متحد ہونا چاہیے، قبیلہ سازی کے اس عشق نے ان الہی جوانوں کو سکون سے رہنے نہیں دیا بلکہ ان جوانوں نے دن رات محنت کرکے یہ پیغام ہاسٹل در ہاسٹل ایک ایک طالبعلم تک پہنچایا جن پر شیعہ ہونے کا گمان ہوتا تھا۔ ان مخلص جوانوں کی پر خلوص کاوشوں کے ساتھ یہ محبت بھری پیغام پورے ملک میں پھیل گیا اور 22 مئی 1972 کو آئی ایس او کا سورج طلوع ہوا۔

آئی ایس او کا نصب العین:

آئی ایس او پاکستان کی بنیاد شیعہ طلباء کے درمیان بھائی چارگی ، طلباء کو درپیش مسائل کی حل ، ملت کی بیداری اور اتحاد و یگانگت کی فروغ پر رکھی گئی۔ اس وقت ملت کے حالات نہایت گھمبیر تھیں، ان حالات میں یہ تنظیم کا نصب العین نہایت اہم تھا ، یہی وجہ تھی کہ آئی ایس او کے نصب العین میں یہ شامل کیا گیا کہ اس الہی کاروان کا ہدف قرآن و سنت اور تعلیمات محمد و آل محمد کے مطابق نوجوان نسل کی تربیت کرکے انکو اس قابل بنانا ہے کہ اپنی زندگیاں اسلامی تعلیمات کے عین مطابق بسر کرسکے ۔ اس الہی تنظیم کی دستور کے مطابق یہ تنظیم ولایت فقیہ سے متمسک ہے اور رہبر مسلمین جہان سید علی خامنہ ای کو تنظیم کا لیڈر اور رہنما تصور کرتے ہیں۔ آئی ایس او کا ممبر بننے کے لیے ولایت فقیہ کا معتقد ہونا ضروری ہے. آئی ایس او ولایت فقیہ کی ترویج اور اشاعت میں ہمیشہ صف اول میں نظر آتے ہیں۔

مفتی جعفر حسین کی دور قیادت میں آئی ایس او کا کردار:

گزشتہ نصف صدی میں آئی ایس او پاکستان نے جہاں نوجوانوں کی تعلیم و تربیت ہر توجہ دی تو ایک طرف شیعہ قیادت کی دست و بازو بن کر قوم کے امیدوں کو جلا بخشی ۔ جہاں اس شجرہ طیبہ نے ملک و قوم کے لیے تربیت یافتہ افراد دیئے تو ایک طرف سیاسی میدان میں ظلم و ستم کے خلاف ایک توانا آواز بن کر شیعہ قیادت کی پشت و پناہ بن کر کھڑی رہی۔ اس وقت کے نازک حالات میں آئی ایس او نے شیعہ قیادت کو مظبوط کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے، 1980 میں جب مفتی جعفر حسین مرحوم منظر عام پر آیا ، اور انہوں نے زکوات آرڈننس کے زبردستی نفاذ کے خلاف کامیاب جدوجہد کرکے اپنی طرز تفکر اور بحثیت قائید سرگرمیوں کا آغاز کیا، قبلہ کی قیادت میں یہ جدوجہد کا آغاز دراصل عملی و فکری وجود کا آغاز تھا، اُس وقت آئی ایس او نے مرحوم مفتی جعفر کا بھرپور ساتھ دیا۔ اس وقت کے بزرگان خوب واقف ہیں کہ آئی ایس او اس نئی قیادت کے ساتھ کس طرح میدان میں سیسہ پلائی دیوار بن کر کھڑی رہی۔ اپریل 1980 کی بات ہے کہ کہ عراق میں مجاہد عالم دین شہید باقر الصدر اور انکی ہمشیرہ کو صدام حکومت نے شہید کردیا اور بربریت کی ایک تاریخ رقم کی تو اس وقت پاکستان بھر میں آئی ایس آو کے جوان اور بابصیرت عوام عراق حکومت کے خلاف احتجاج کررہے تھے، مطالبات منظور نہیں ہوا تو 4,5 جولائی کو کنونشن رکھا گیا ، ابھی چند دن باقی تھے، حکومت نے زکواۃ آرڈیننس جاری کیا، جس مین مکتب تشیع کو یکسر نظر نداز کیا گیا، لہذا ان حالات کو مدنظر رکھتے ہوے 5 جولائی کا کنونشن نفاذ فقہ جعفریہ کے عنوان سے منانے کا فیصلہ ہوا۔ اس کنونشن میں جہاں دیگر تنظیموں اور شخصیات نے اہم کردار ادا کیا، وہاں ڈاکٹر محمد علی نقوی شہید اور نوجوانان امامیہ نے بھرپور کردار ادا کیا۔

شہید عارف حسین الحسینی اور آئی ایس او:

اگست 1983ء میں مفتی جعفر حسین کی رحلت کے بعد ملت بے سائبان ہوکر رہ گئ۔ملت 6 ماہ تک بغیر قیادت کے رہی۔ پھر قیادت کی انتخاب کا مرحلہ، اعتراضات اور عدم استحکام کا ایک فضا پیدا ہوا۔ کافی جدوجہد اور مشکلات سہنے کے بعد 1984 میں تحریک فقہ نفاذ جعفریہ کا اجلاس بلایا گیا، یہ اجلاس بھکر میں منعقد ہوا، اور 10 فروری 1984 کو شہید عارف حسین الحسینی کی شکل میں ایک بابصیرت قیادت نصیب ہوئی۔ قیادت کی انتخاب کے بعد ایک سازش کے تحت شہید عارف حسین الحسینی کے لیے حالات نا سازگار بنانے کی کوشش کی گئی اور ملت کو دو حصوں میں تقسیم کرنے کی سازش کسی حد تک کامیاب رہی لیکن اس پر فتن دور میں آئی ایس او کے جوان شہید قائد کے دست و بازو بن گئے۔ شہید عارف حسین الحسینی کو قائید منتخب کرنے کے بعد آئی ایس او کے مرکزی نائب صدر برادر ظفریاب حیدر نقوی نے کہا، "اے میرے عظیم قائد آئی ایس او پاکستان آج قصر زینب میں یہ عہد کرتی ہے کہ ہر مشکل وقت اور ہر پرخطر راہ میں آپکا ساتھ دے گی۔ ہماری صلاحیتیں ، ہماری توانائیاں اور ہماری جوانیاں آپکے اشارے کی منتظر رہیں گی۔"

آئی ایس او نے قائد محترم کا دست و بازو بن کر قیادت کو مظبوط بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ شہید خود فرماتے ہیں کہ "آئی ایس او کے جوان میرے بال و پر ہیں جن کے سہارے میں پرواز کرتا ہوں"۔

شہید عارف حسین الحسینی شہادت سے آج تک کا سفر:

آئی ایس او پاکستان کے جوانوں نے شہید قائد عارف حسین الحسینی کے شانہ بہ شانہ کھڑے ہوکر سرزمین پاکستان میں ولایت و امامت کا پرچم بلند کیا، آئی ایس او نے ملک خداداد پاکستان کی سرزمین پر امریکہ مخالف فکر کو پروان چڑھایا۔ اس الہی کاروان نے ملک بھر میں اجتماعی شعور و بیداری کو اجاگر کیا۔ شہید قائد کی شہادت کے بعد ایک بار پھر ملت ایک دلسوز قائد سے محروم ہوگئی۔ اس نازک مرحلہ پر آئی ایس او نے تیسری شیعہ قیادت علامہ ساجد نقوی کی بھرپور حمایت کی۔ آئی ایس او نے تقریبا 8 سال تک علامہ ساجد نقوی کا ساتھ دیا۔ آئی ایس او نے ملکی انتخابات میں تحریک جعفریہ کا بھرپور ساتھ دیا لیکن نظریاتی اختلافات کی وجہ سے تحریک جعفریہ اور آئی ایس او متحد نہیں رہ سکی، اس طرح امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن نمایندہ ولی فقیہ سے الگ ہوگئے اور تنظیمی دستور سے نمائندہ ولی فقیہ کی اطاعت کا نکتہ حذف کرلیا۔ اگر ہم مختصر ذکر کرنا چاہیں تو شہید قائد کے بعد آئی ایس او نے علامہ ساجد نقوی، علامہ جواد نقوی اور علامہ راجہ ناصر عباس جعفری و دیگر علماء کرام کے زیر سایہ انقلاب امام زمان عجل کی جانب گامزن رہنے کی کوشش کی ، ہر قیادت کو آزمایا لیکن آئی ایس او کسی سے مطمئن نظر نہیں آرہی۔ یہ آئی ایس او کی روایت شکنی کی واضح دلیل ہے۔ اس وقت آئی ایس او ملک میں کسی قیادت کا قائل نہیں بلکہ آئی ایس او کے دستور کے مطابق یہ کاروان ولایت فقیہ سے متمکس ہے اور ولایت فقیہ کے زیر نگرانی میں سفر طے کررہے ہیں۔ البتہ اس وقت پاکستان میں آئی ایس او اور مجلس وحدت المسلمین کے درمیان روابط مظبوط ہیں۔ کچھ جگہوں پر شیعہ علماء کونسل ، امت واحدہ اور دیگر ملی تنظیموں کے ساتھ آئی ایس او کے بہتر روابط ہیں۔ دیگر تنظیمیں اور علماء کرام اسی نکتے پر اعتراض کرتے ہیں کہ آئی ایس او ایک انقلابی کاروان ہے اور اس الہی کاروان کو جمہوری جماعتوں کے ساتھ منسلک نہیں ہونا چاہیے۔ بلکہ انقلابی جہت میں آگے بڑھنا چاہیے۔

تشیع کے تین ڈھڑے اور آئی ایس او:

اس وقت پاکستان میں ملت تشیع سیاسی طور پر تین لیکن فکری طور پر دو حصوں میں تقسیم ہوچکی ہے۔ سیاسی طور پر اگر دیکھا جاے تو ایک گروہ علامہ ساجد نقوی، دوسرا گروہ علامہ راجہ ناصر اور تیسرا گروہ علامہ جواد نقوی کی سربراہی میں انقلاب امام مہدی کے لیے زمینہ سازی کررہے ہیں، فکری طور پر ملت تشیع دو حصوں میں تقسیم ہیں، ایک گروہ اس وقت میں پاکستان میں جمہوری حکومت کا حصے بننا ضروری سمجھتے ہیں تاکہ شیعیی مفادات کی تحفظ ہوسکے، اس بلاک میں مجلس وحدت المسلمین، شیعہ علماء کونسل، جی ایس او، آئی ایس او سمیت کچھ تنظیمیں شامل ہیں۔ دوسرا گروہ جسکی قیادت علامہ جواد نقوی صاحب کررہے ہیں، انکا موقف ہے کہ جمہوری پراسس کا حصہ بننا ہرگز درست نہیں ہے بلکہ اسلامی نظام کی نفاذ کے لیے جدوجہد کرنا چاہیے، یہاں قابل غور نکتہ یہ ہے کہ یہ اختلاف صرف فکری اختلاف ہے، دشمن کی جانب سے یہ اختلاف دشمنی میں بدلنے کی سازش روز روشن کی طرح واضح ہے۔ علاؤہ ازیں ایک قابل وضاحت سوال یہ بھی ہے کہ پاکستان میں ایم ڈبلیو ایم ، ایس یو سی ، آئی ایس او، اور جے ایس او وغیرہ ہم فکر ہیں لیکن یہ سب متحد نہیں ہے ؟ یہ ایک سوالیہ نشان ہے کہ یہ تنظیمیں ہم فکر ہونے کے باجود متحد کیوں نہیں ہے؟

خلاصہ:

آئی ایس او نے 51 سالہ شاندار تاریخ رقم کی ہے، اس تنظیم کو نصف صدی گزر چکی ہے، مختلف ادوار میں مختلف کوششیں کی گثی تاکہ اس تنظیم کو کمزور کی جاسکے لیکن اس الہی کاروان کے مخلص جوانوں نے ہمت نہیں ہاری بلکہ ہر بار نئے نئے عزم کے ساتھ سفر کا آغاز کیا۔ آئی ایس او اپنی شاندار ماضی اور روشن مستقبل کے ساتھ انقلاب امام زمان عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کی جانب رواں دواں ہے، پاکستان کی سرزمین پر اس جماعت نے انقلاب کا پرچم بلند کیا، ولایت کا جھنڈا بلند رکھا، ولایت فقیہ سے متسمک ہوکر ولایت فقیہ کو پاکستان بھر میں بلکہ دنیا بھر میں متعارف کرایا۔

آئی ایس او پاکستان ملک بھر میں شیعہ طلباء وطالبات کی تعلیم و تربیت کے لیے اقدامات کررہی ہے، پری بورڈ ایگزام ، تعلیمی سینمارز ، کوئیز پروگرامز، اسکاؤٹ کیمپ سمیت متفرد تربیتی سرگرمیاں آئی ایس او کے تحت ملک بھر میں جاری و ساری ہیں۔ آج اس تنظیم کے ساتھ مسائل درپیش ہیں تو فقط نظریاتی اختلاف ہے، ان نظریاتی اختلافات کو لیکر افراتفری پھیلانے کے بجائے امن ، بھائی چارگی اور اتحاد و اتفاق جیسے اعلی اقدار کو فروغ دینا چاہیے۔ تاکہ ہم ایک عظیم انقلابی کاروان اور شجرہ طیبہ کی نعمت سے محروم نہ ہوجاے۔ آئی ایس او ، پاکستان کی سرزمین پر وہ واحد تنظیم ہے جسے ولایت فقیہ کی تائید حاصل ہے، رہبر معظم انقلاب اسلامی سید علی خامنہ ای حفظ اللہ آئی ایس او کے جوانوں کو اپنی آنکھوں کا نور سمجھتے ہیں۔ لہذا عالمی نہضت اسلامی سے وابستہ یہ تنظیم ملت پاکستان کے لیے ایک نعمت سے کم نہیں ہے، اللہ پاک ہمیں اس شجرہ طیبہ سے منسلک رہنے کی توفیق عنایت فرما۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .