ہفتہ 25 اکتوبر 2025 - 16:41
کیا ولایت فقیہ اور جمہوریت ایک دوسرے کے متصادم ہیں؟

حوزہ/ ولایت فقیہ دینی، عقلی اور فقہی دلائل کی بنیاد پر عصرِ غیبت میں اسلامی معاشرے کی رہبری کا ایسا بے نظیر ماڈل ہے جو نہ صرف حکومتِ دینی کے قیام کی ضمانت دیتا ہے بلکہ جمہوریت کے ساتھ بھی توازن قائم رکھتا ہے۔

تحریر: سیدہ ربابہ میربمانی

حوزہ نیوز ایجنسی | ولایت فقیہ دینی، عقلی اور فقہی دلائل کی بنیاد پر عصرِ غیبت میں اسلامی معاشرے کی رہبری کا ایسا بے نظیر ماڈل ہے جو نہ صرف حکومتِ دینی کے قیام کی ضمانت دیتا ہے بلکہ جمہوریت کے ساتھ بھی توازن قائم رکھتا ہے۔ مرحوم آیت اللہ میرزا محمد حسین نائینیؒ کی یاد میں منعقدہ بین الاقوامی کانفرنس، اس نظریے کی فقہی و فکری بنیادوں پر دوبارہ غور کا بہترین موقع ثابت ہوئی۔

ولایت فقیہ کی فقہی و عقلی بنیادیں

علمائے شیعہ کے مطابق، نظام ولایت مطلقہ فقیہ تین بنیادوں پر استوار ہے:

1. دلائل روائی:

بنیادی دلیل، امام صادقؑ کی مشہور روایت مقبولہ عمر بن حنظلہ ہے، جس میں فرمایا گیا: «فإنی قد جعلته علیکم حاکماً»

امام خمینیؒ نے اپنی فقہی کتاب البيع (ج۲، ص۴۶۵) میں لفظ "حاکم" کو سیاسی ولایت کے معنی میں لیا اور ثابت کیا کہ عصرِ غیبت میں حکومت کا اختیار عادل فقہا کو حاصل ہے۔

2. دلائل عقلی:

چونکہ اسلامی احکام کے نفاذ اور معاشرتی نظم کے قیام کے لیے حکومت ناگزیر ہے، لہٰذا عقل حکم کرتی ہے کہ جب معصومؑ ظاہراً موجود نہ ہوں تو یہ ذمہ داری فقیہ جامع الشرائط پر عائد ہوتی ہے۔

آیت اللہ جوادی آملی اپنی کتاب "پیرامون وحی و رهبری" (ص۱۲۷) میں اس عقلی استدلال کو تفصیل سے بیان کرتے ہیں۔

3. نیابت عام از امام زمانؑ:

روایات کی روشنی میں فقیہ جامع الشرائط امام معصومؑ کا نائب عام ہے اور اسے وہ تمام اختیارات حاصل ہیں جو امام کو امورِ حکومتی میں حاصل ہیں۔ یہی نظریہ بعد میں قانونِ اساسی جمہوریہ اسلامی ایران کے آرٹیکل ۵۷ میں بھی ظاہر ہوا۔

اعتراضات اور ان کے جوابات

کچھ ناقدین کا خیال ہے کہ ولایت فقیہ جمہوریت اور عوامی حاکمیت کے منافی ہے، یا یہ کہ یہ نظریہ طاقت کے ارتکاز کا باعث بنتا ہے۔ اس کے جواب میں درج ذیل نکات پیش کیے جاتے ہیں:

1. اسلامیت اور جمہوریت میں تضاد نہیں، تکامل ہے:

اسلامی جمہوری نظام میں "جمہوریت" حکومت کی شکل ہے جبکہ "اسلامیت" اس کا محتوا۔ رہبرِ انقلاب اس بات کے ضامن ہیں کہ نظام اسلامی اصولوں سے منحرف نہ ہو، جبکہ عوام براہِ راست انتخابات کے ذریعے نظام میں شمولیت رکھتے ہیں۔

2. طاقت کے ارتکاز سے بچاؤ:

رہبر کے لیے فقاہت، عدالت، تدبیر اور کفایت لازمی شرائط ہیں۔ اس کے علاوہ مجلس خبرگان، قوا کی تفکیک اور نظارتی ادارے ولایت کو اعتدال کے دائرے میں رکھتے ہیں۔

3. مشروعیت اور مقبولیت کا امتزاج:

ولایت فقیہ کی مشروعیت، شرعی و الٰہی بنیادوں پر قائم ہے، جب کہ عوامی مقبولیت اس کے نفاذ کا ضامن ہے۔ عوام کا رہبر کو خبرگان کے ذریعے منتخب کرنا، اسی دوگانہ توازن کی بہترین مثال ہے۔

نتیجہ

ولایت مطلقہ فقیہ، جدید دنیا میں دینی حکومت کے قیام کی اساس اور ستونِ خیمہ ہے۔ یہ نظام ایک طرف شریعت کے اصولی ثبات کو محفوظ رکھتا ہے، اور دوسری جانب زمانے کی ضروریات کے مطابق رجحان اور حکمتِ عملی فراہم کرتا ہے۔

یہی وہ نظریہ ہے جو امام زمانہؑ کے ظہور تک اسلامی معاشرے کی عادلانہ رہبری کا ضامن رہے گا، ان‌شاء اللہ۔

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha