۱ آذر ۱۴۰۳ |۱۹ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 21, 2024
مصباح یزدی

حوزہ؍عوام کی رضایت اللہ کی رضایت کے ماتحت قابل قبول ہے۔ جمہوریت کی رائے کا اس وقت احترام ہے جب اللہ کے بنائے ہوئے اصول نہ ٹوٹنے پائیں۔ وگرنہ خود لوگوں کے پاس یہ حق نہیں کہ وہ کسی ایسے شخص کا انتخاب کریں جو دینی، انسانی، عقلانی اور ملی اصولوں سے بالاتر ہو۔

تحریر : میم نون خان

حوزہ نیوز ایجنسی | انتخابات اسلام کی ضد ہے ۔۔۔ جو بھی جمہوریت کا قائل ہے اس نے شرک کیا۔ (آیت اللہ مصباح یزدی رضوان اللہ علیہ)

عوام کون ہوتی ہے جو حکومت کا تعین کرے اور اگر اکثریت جمہور تعین کر بھی لے تب بھی ولی فقیہ کی اجازت کے بغیر حکومت طاغوت ہے۔

یہ اور اس طرح کے بہت سے جملات آیت اللہ مصباح یزدی رض سے منسوب ہیں۔

قارئین محترم ! آج آپ کی خدمت میں عالم اسلام کے ایک مشہور و معروف مفکر ڈاکٹر رحیم پور ازغدی اور آیت اللہ مصباح یزدی کے حوزہ علمیہ کے برجستہ اساتیذ محترم جیسے آقای میر سپاہ ، آقای شبان نیا ، آقای رضوانی اور دیگر بزرگان کی آراء کا خلاصہ پیش کیا جا رہا ہے۔ تحریر کے اختتام پر مفکر اسلام ڈاکٹر رحیم پور ازغدی کی آڈیو اور ویڈیو اور اس کی تحریری صورت کا لنک موجود ہے۔

ان سب بزرگان کا کہنا ہے کہ یہ سب جملات جو اوپر نقل کیے گئے ہیں آیت اللہ مصباح یزدی رض کے ہیں۔ اس طرف توجہ رہے کہ نقل کردہ ان جملات کا سیاق و سباق اور قبل و بعد ہے جس کو مدنظر رکھ کر مجموعی نظریہ سمجھا جا سکتا ہے۔ آقای رحیم پور ازغدی فرماتے ہیں کہ قابل افسوس ہے یہ امر کہ ایران میں ایک غلط رواج عام ہو چکا ہے ، وہ رواج یہ ہے کسی شخصیات کی وڈیو یا گفتگو سے آدھے کلیپ کو کاٹ کر یا آدھے جملات نقل کر کے ان کی شخصیت کشی کرنے کے منفی پروپیگنڈہ کیا جاتا ہے جو کہ غیراخلاقی اور غیر علمی کام ہے۔

اے کاش یہ کام کسی اور ملک میں نہ ہو

آیت اللہ مصباح یزدی رضوان اللہ علیہ ایک علمی شخصیت تھے نہ کہ سیاسی شخصیت۔ ایک علمی شخصیت عوام پسند گفتگو کی بجائے عوام کے لیے مفید گفتگو کرتی ہے۔
آیت اللہ مصباح یزدی کے نزدیک جمہوریت کا جو فعلی نظام دنیا میں رائج ہے حتی جو ایران کے اندر رائج ہے وہ نہ تو کفایت کی حد تک عقلانی ہے اور نہ ہی عوامی۔
ان کے نزدیک اکثر ممالک میں نام تو جمہوریت کا ہے لیکن خود جمہوریت نہیں ہے۔ ہٹلر ، بش ، ٹرامپ اور اسرائیل کی رژیم کے افراد اسی جمہوریت کے نام پر آتے ہیں اور دنیا بھر میں ظلم کی آگ بھڑکاتے ہیں۔ یہ مردم سالاری ( یعنی جمہوریت) نہیں بلکہ مردم سواری ہے۔ پبلسٹی کر کے اکثریتی عوام کو دھوکہ دینا، لوگوں کے احساسات سے سوء استفادہ کرنا، جھوٹے وعدے کر کے حاکم بننا اور پھر پوری دنیا بھر میں ظلم کرنا ڈیموکریسی کے نام پر کیا جاتا ہے جبکہ یہ سب ڈیموکریسی یا اکثریت کی حاکمیت نہیں بلکہ حقیقت میں اقلیت کریسی اور ایک گروہ کی حاکمیت ہے۔

مفکر اسلام آقا رحیم پور ازغدی کہتے ہیں کہ جب غرب ایسی تمام جمہوری سسٹم کو قبول کرتا ہے جو مارکس ازم، سوشل ازم ، کپٹیل ازم ، فاشٹ ازم حتی مسیحیت یہودیت کے دائرہ کے اندر ہیں تو ایسی جمہوریت کو قبول کیوں نہیں کرتا جو اسلام کے دائرہ کے اندر ہیں!!

اب آتے ہیں آیت اللہ مصباح یزدی کے ان جملات کی طرف جن کو بنیاد بنا کر منفی پراپیگنڈہ کیا جاتا ہے۔

آیت اللہ مصباح کے تین متنازع جملات ہین جو نظام و حکومت اسلامی کی مشروعیت اور قانونی حیثیت سے مربوط ہیں۔ ان تین جملات کا جائزہ ذیل میں لیا جاتا ہے:

1: جمہوریت کا قائل شرک کا مرتکب ہے۔
آیت اللہ مصباح یزدی اس جملہ کی تشریح اپنی کتاب *حقوق و سیاست در قرآن* میں کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

اس جملہ سے مراد غربی جمہوریت ہے جہاں جمہور چاہے تو ایسے قوانین بنا سکتے ہیں جو اسلامی اور انسانی اصولوں کے خلاف ہوں (مثلا ہم جنس بازی کا قانون)، غربی جمہوریت میں انسان کی حکومت انسان پر ہوتی ہے۔ انسان پر انسان کی حکومت کے تصور کا مطلب یہ نکلتا ہے کہ انسان جو چاہتا ہے وہ کر سکتا ہے !! جبکہ اسلام کے مطابق انسان اپنے لیے ہر طرح کا کام انجام نہیں دے سکتا، مثلا اسلام میں انسان خودکشی نہیں کر سکتا، اپنی بے عزتی نہیں کرا سکتا، اپنے مال کو ضائع نہیں کر سکتا۔۔۔ ایک ملحد جو چاہے کر سکتا ہے لیکن ایک مسلمان ملک و ریاست میں کسی ایسے قانون یا حاکم کی اجازت نہیں دے سکتا جو غیر اسلامی ہو۔ ہاں ! آپ جب جمہوری کو اسلام کے ساتھ ترکیب کرتے ہیں تو اب یہ فقط جمہوری نہیں رہا ، چنانچہ آپ اس صورت میں فقط وہ کام کر سکتے ہیں جس کی اسلام اجازت دیتا ہے۔

2: جمہوریت و انتخابات اسلام کی ضد میں ہیں یا انکا ٹکراؤ ہیں:
آیت اللہ مصباح کے مطابق ن جملات کا معنی یہ بنتا ہے کہ اگر جمہور ایسے قوانین یا حاکم کو انتخاب کریں جو اسلامی قوانین کی پاسداری نہ کرے یا عوام اسلام کے انتخابات کے اصول چھوڑ کر حاکم کو منتخب کریں تو یہ جمہوریت اسلام سے ٹکراتی ہیں جیسا کہ پاکستان میں ہم جنس بازی کے قانون یا ایران میں حجاب اسلامی کے خلاف آواز اٹھانے والوں کا ایسے قوانین کا مطالبہ کرنے کی مثال دی جا سکتی ہے ۔ ایران میں اگر جمہور حجاب کے خلاف ہو جائے تو یہ جمہوریت اسلام کی مخالفت میں ہے۔

لیکن اگر جمہور آکر عرفی عمومی عقلی قوانین بنائے یا عادل ذمہ دار انسان صحیح و درست حاکم کا تعین کرے تو یہ جمہوریت اسلام کی مخالفت یا ضد میں نہیں ہے۔

3 : لوگ کون ہوتے ہیں حکومت و حاکم معین کرنے والے:
آیت اللہ مصباح یزدی کے مطابق اڈ جملے کا مطلب یہ بنتا ہے کہ اللہ کے مقابلے میں
لوگ کون ہوتے ہیں جو کسی کو منتخب کریں۔ بالفاظ دیگر عوام آ کر کسی ایسے کو انتخاب کریں جو نہ تو اسلامی قوانین کی پاسداری کرے اور نہ ہی انسانی اصولوں کی رعایت اور نہ ہی وہ ملک و قوم کے فائدہ میں کام کرے۔ جب آپ مسلمان ہیں اور آپ نے اپنے آپ کو اللہ کا عبد قرار دیا ہے تو اکثریت کی رائے اس وقت قابل احترام ہو گی جب اسلامی قوانین سے بالاتر نہ ہو ۔ کوئی ایسا قانون نہ ہو جو دین اسلام کے خلاف ہو ۔

عوام کی رضایت اللہ کی رضایت کے ماتحت قابل قبول ہے۔ جمہوریت کی رائے کا اس وقت احترام ہے جب اللہ کے بنائے ہوئے اصول نہ ٹوٹنے پائیں۔ وگرنہ خود لوگوں کے پاس یہ حق نہیں کہ وہ کسی ایسے شخص کا انتخاب کریں جو دینی، انسانی، عقلانی اور ملی اصولوں سے بالاتر ہو۔

4: ولی فقیہ کی اجازت کے بغیر حکومت طاغوت ہے:
یہ پہلو انتہائی اہمیت کا حامل ہے، کیونکہ اگر جمہور مل کر کسی شخص کو اپنا صدر یا وزیر اعظم منتخب کر بھی لیں تب بھی اس حاکم کے پاس شرعی طور پر حکومت کرنے کا حق حاصل نہیں ہو گا۔ اس صورت میں کہا جائے گا کہ ایسے شخص کے پاس مقبولیت ہے لیکن مشروعیت یعنی قانونی حق نہیں ہے۔

جمہور کسی صورت میں مل کر کسی غلط معیارات سے عاری انسان کو اپنا حاکم منتخب نہیں کر سکتے۔ اس صورت میں اکثریت کی رائے کی کوئی حیثیت نہیں ۔

ان شاءاللہ دوسری قسط میں آیت اللہ مصباح یزدی کے نظریہ اور ان کا ایران کے موجودہ سسٹم پر اعتراض کے معانی کیے جائیں گے۔

حوالہ جات:
( مدل پیشنهادی آیه الله مصباح در مردم سالاری دینی ) | استاد رحیم پور

https://rahimpour.ir/fa/news-details/69666/مصباح-و-دموکراسی--قسمت-اول----مدل-پیشنهادی-آیه-الله-مصباح-در-مردم-سالاری-دینی--/

نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .