۹ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۹ شوال ۱۴۴۵ | Apr 28, 2024
مجلس عزا

حوزہ/ گروہ مطالعاتی آثار شہید مطہری و تحریک بیداری امت مصطفی (ص) شعبہ قم میں مجلس عزاء کو خطاب کرتے ہوئے مقررین کا کہنا تھا کہ استاد مصباح یزدی اور شہید قاسم سلیمانیؒ کو بطور ایک شخص نہیں بلکہ ایک مکتب و تربیت گاہ کے عنوان سے دیکھیں،دونوں شخصیات در حقیقت امامت كے دفاع میں مشغول تھیں۔

حوزہ نیوز ایجنسی كی رپورٹ كے مطابق،گروہ مطالعاتی آثار شہید مطہری و تحریک بیداری امت مصطفی (ص) شعبہ قم كی جانب سے مركز تحقیقات اسلامی بعثت میں دو عظیم شخصیات آیت اللہ مصباح یزدی و شہید قاسم سلیمانی كی برسی پر مجلس عزاء کا انعقاد كیا گیا۔

اس پروگرام کے پہلے خطیب حجۃ الاسلام والسملین محمد غالب حیات نے "استاد مصباح یزدی اسوه علمی و عملی" و دوسرے خطیب حجة الاسلام والمسلمین آقای غلام شبیر حسین نے "مقام شہادت و مكتب سلیمانی" كے عنوان سے خطاب كیا۔

منعقدہ مجلس کے پہلے خطیب مولانا غالب حیات نے اپنی گفتگو میں كہا كہ یہ دنوں شخصیات در حقیقت اسلام كے دفاع میں مشغول تھیں آیت اللہ مصباح یزدی امامت کے عقیدتی محاذ کے محافظ تھے جبکہ شہید سلیمانی امامت کے جغرافیائی محاذ کے سپاہی تھے۔

بعدہ مجلس کے دوسرے خطیب مولانا غلام شبیر نے كہا كہ
"ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے/ بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا۔ " شہید قاسم سلیمانیؒ وہ عظیم شخصیت اور باعظمت دیدہ ور ہیں کہ جنہوں نے مکتبِ فاطمیؑ، مکتبِ حسینیؑ اور مکتبِ خمینیؒ میں پرورش پائی ہے۔ انہوں نے اپنی زندگی کو الہٰی کائنات شناسی پر مبنی اسلامک آئیڈیالوجی میں ایسا ڈھالا کہ شخص سے شخصیت اور شخصیت سے بھی بڑھ کر مکتب بن گئے۔ اسی لیے تو رہبرِ معظم نے فرمایا: "شہید قاسم سلیمانیؒ کو ایک شخص کے طور پر نہیں بلکہ ایک مکتب اور ایک تربیت گاہ کے عنوان سے دیکھیں"۔

انہوں نے کہا کہ رہبرِ معظم نے مکتبِ قاسم سلیمانیؒ کی چند ایسی خصوصیات بیان کی ہیں کہ جن کو سمجھ کر اور اپنا کر ہم بھی دنیاوی اور اُخروی سعادت و خوشخبتی سے بہرہ مند ہو سکتے ہیں۔

ایمان و اخلاص: اس مکتب کی پہلی خصوصیت ایمان و اخلاص ہے جو شہید قاسم سلیمانیؒ کی زندگی کے تار و پودمیں ہمیں نظر آتی ہے، حتی اپنی شہادت سے پہلے لکھے اپنے وصیت نامے کی ابتدا میں بھی وہ اس کا اظہار کچھ ان الفاظ میں کرتے ہیں: "میں گواہی دیتا ہوں اللہ ایک ہے، میں گواہی دیتا ہے حضرت محمدؐ، اللہ کے رسول ہیں، میں گواہی دیتا ہوں حضرت علیؑ اور اُن کے 11 فرزند ہمارے معصوم امام اور خدا کی حجت ہیں"۔ رہبرِ معظم فرماتے ہیں شہید قاسم سلیمانیؒ کے اخلاص کا یہ عالم تھا کہ میٹنگز میں جب میں اُن سے کچھ پوچھنا چاہتا تھا تو اُن کے بارے میں دریافت کرنا پڑتا تھا کہ وہ کہاں بیٹھے ہیں۔ کیونکہ وہ کبھی بھی خودنمائی نہیں کرتے تھے۔ کسی ایسی جگہ نہیں بیٹھے تھے کہ جہاں وہ زیادہ نمایاں ہوں۔اُن کے اِس عمل کا سرچشمہ اخلاص تھا۔

شجاعت و تدبیر: اس مکتب کی دوسری خصوصیت شجاعت و تدبیر ہے۔شہید قاسم سلیمانیؒ کے ہر اقدام، ہر فکر اور ہر گفتار و کردار میں شجاعت و تدبیر موجود ہوتی تھی۔ رہبرِ معظم فرماتے ہیں: بہت سے لوگ شجاع ہوتے ہیں لیکن اہلِ تدبیر نہیں ہوتے اور اس کے برعکس بہت سے اہلِ تدبیر ہوتے ہیں لیکن میدانِ عمل کے سپاہی نہیں ہوتے مگر شہید قاسمؒ وہ برجستہ شخصیت تھے کہ جن میں یہ دونوں خصوصیات بیک وقت جمع تھیں۔ انہوں نے مشرق وسطیٰ خصوصا عراق، سوریہ اور لبنان میں عالمی استکبار امریکہ، اسرائیل اور اُن کے ہمنواؤں کی چالوں، منصوبوں اور شاطرانہ چالوں کو نہایت زیرکی، ہوشیاری، تدبیر اور شجاعت کے ساتھ نہ فقط ناکام بنایا بلکہ دشمن کو پسپا ہونے پر مجبور کیا۔ اور امریکی صدر کے بقول قاسم سلیمانیؒ نے اس خطے میں ہماری سات ٹریلین ڈالر کی سرمایہ کاری پر پانی پھیر دیا۔

شدید انقلابیت: اس مکتب کی تیسری خصوصیت شدید انقلابیت ہے۔ شہید قاسم سلیمانیؒ شدید انقلابی تھے۔ رہبرِ معظم فرماتے ہیں: "انقلاب اور انقلابی گری شہید قاسمؒ کے لیے ایک سرخ لکیر (red line) تھی جس پے وہ کسی طرح کا سمجھوتہ نہیں کرتے تھے۔اس کو کم رنگ کرنے کی کوشش نہ کی جائے۔ وہ انقلاب میں فانی اور انقلاب کے سخت پابند تھے"۔ شہید کا اپنی زندگی میں اتنا شدید انقلابی ہونا درحقیقت اُن کے متعہِّد ہونے اور اُن کی ولایت پذیری کا نتیجہ تھی۔

اس ولایت پذیری کی ایک بہت ہی عالی جھلک ہمیں اُن کے وصیت نامے کی اِن چند لائنوں میں نظر آتی ہے:
"دنیا کے میرے تمام مجاہد بہن بھائیو ! جنہوں نے خدا کی راہ میں اپنے سروں کو عاریتاً دے دیا، اپنی جانوں کو ہاتھوں پر لیے بازارِ عشق میں فروخت کرنے آگئے ، یاد رکھئیے کہ اسلامی جمہوریہ ایران ، اسلام و تشیع کا مرکز ہے۔ آج حسین ابن علی ؑ کی خیمہ گاہ ایران ہے ۔ جان لیں کہ اسلامی جمہوریہ ایران ایک حرم ہے اور اگر یہ حرم باقی رہا تو دوسرے حرم بھی باقی رہیں گے ۔ اگر دشمن نے اس حرم کو تباہ کر دیا تو کوئی حرم باقی نہیں بچے گا ، نہ ابراہیمی حرم اور نہ محمدی ؐ حرم۔
میرے بہن بھائیو ! عالم اسلام کو ہمیشہ قیادت کی ضرورت ہے، ایسی قیادت جو شرعی اور فقہی اعتبار سے معصوم ؑ سے متصل ہو ۔ آپ اچھی طرح جانتے ہیں کہ دنیا کے زاہد ترین ، پاک باز عالم دین ، جنہوں نے دنیا کو ہلا دیا ، اسلام کو زندہ کیا ، یعنی ہمارے پاک و مطہر اور عظیم خمینی (بت شکن) ، وہ ولایت فقیہ کو اُمت کی نجات کا نسخہ قرار دیتے ہیں ۔
لہذا آپ چاہے بعنوانِ شیعہ اس پر دینی اعتقاد رکھتے ہیں یا اہل سنت ہوتے ہوئے عقلی اعتقاد رکھتے ہیں ، جان لیں کہ ہر اختلاف سے دور رہتے ہوئے اسلام کی نجات کے لیے خیمۂ ولایت کو نہ چھوڑیئے گا ۔ یہ خیمہ، خیمۂ رسول اللہ ؐ ہے ۔ ایران کے ساتھ دنیا والوں کی دشمنی یہی ہے کہ وہ اس خیمہ کو آگ لگا کر ویران کرنا چاہتے ہیں ۔ اس کے گرد اکٹھے ہو جاؤ ۔ خدا کی قسم، خداکی قسم، خدا کی قسم، اگر یہ خیمہ ویران ہوگیا ، بیتُ اللہِ الحرام، حرمِ مدینۃُ الرسول، نجف، کربلا ، کاظمین، سامرا اور مشہد باقی نہ رہیں گے ؛ قرآن ویران ہو جائے گا ۔"

مکتبِ شہید قاسم سلیمانیؒ کی دیگر خصوصیات بھی ہیں کہ جن کےیہاں فقط عناوین ترتیب وار ذکر کر رہے ہیں۔ ان کی تفصیلات انشاءاللہ بعد میں کسی فرصت میں بیان ہوں گی۔
• خدا پے توکل اور آئمہؑ سے توسل
• نظامِ ولایتِ فقیہ پر مکمل ایمان
• وقت کی قدردانی
• درایت، ہوشیاری اور دوراندیشی
• ایثار و فداکاری اور انسان دوستی
• حدودِ الہٰی کی رعایت
• باطل ستیزی اور استکبار ستیزی
• دائما جہاد فی سبیل اللہ
• دشمن شناسی اور بہ موقع اقدام
• خطرات اور دشمن کی چالوں کو فرصتوں میں تبدیل کرنا

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .