۱ آذر ۱۴۰۳ |۱۹ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 21, 2024
عرفان حیدر بشوی

حوزہ/ کسی بھی قوم کی پہچان اور اس کا تشخص ان کا تمدن اور ثقافت ہوا کرتی ہے،اگر کوٸی قوم زندہ ہے تو اس کی ثقافت اور تمدن کی وجہ سے ہے اگر کوئی اپنے تمدن اور ثقافت کو بھول جائے تو اس کا چہرہ مسخ ہوجائے گا لہذا زندہ قومیں ہمیشہ اپنی ثقافت اور تمدن کو زندہ رکھتی ہیں۔

تحریر: عرفان حیدر بشوی

حوزہ نیوز ایجنسی کسی بھی قوم کی پہچان اور اس کا تشخص ان کا تمدن اور ثقافت ہوا کرتی ہے،اگر کوٸی قوم زندہ ہے تو اس کی ثقافت اور تمدن کی وجہ سے ہے اگر کوئی اپنے تمدن اور ثقافت کو بھول جائے تو اس کا چہرہ مسخ ہوجائے گا لہذا زندہ قومیں ہمیشہ اپنی ثقافت اور تمدن کو زندہ رکھتی ہیں۔ایک بہترین ثقافت اور تمدن کی کچھ اہم خصوصیات ہوتی ہیں جو اس قوم کو شجاع، بہادر،غیور اور قابل فخر بنادیتی ہیں اور اگر ان ثقافت سے نظامِ اخلاق،علم،ادب اور دینی نظریہ جو کہ کسی بھی ثقافت کی روح اور جان کی مانند ہوتا ہے نکالا جائے تو وہ قوم حقیر اور غلام بن جاتی ہےاور ان کی شناخت تاریخ کے اوراق سے بھی مٹ جاتی ہے۔جس قوم نے اپنی تہذیب اور ثقافت کو بچایا تاریخ نے اسے ہمیشہ یاد رکھا اور اس معاشرے نے ترقی کی منزلیں طے کی ہے،مگر جس قوم نے ثقافتی یلغار کا مقابلہ نہیں کیا اور دوسروں کے رنگوں میں رنگا وہ فنا ہوئی ہے۔
کچھ ایسا ہی گلگت بلتستان کے ساتھ ہو رہا ہے!
گلگت بلتستان کو اپنی خاص تہذیب اور ثقافت کی وجہ سے نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر میں ایک منفرد پہچان حاصل ہے،لیکن کچھ این جی اوز اب آہستہ آہستہ غیر محسوس طریقے سے اس خطے سے اس کی پہچان کو مٹا رہی ہیں لہذا ہمیں ان این جی اوز کو پہچاننے کی ضرورت ہے اور اس کا راہ حال ڈھونڈنے کی ضرورت ہے ان شاءاللہ ہم محترم قارئین کی خدمت میں مختصر طور پر بیان کریں گے۔

سب سے پہلے (NGOs)کا معنی بیان کریں گے تاکہ مطلب کو سمجھنے میں آسانی ہو۔

لفظ (NGO) مخفف ہے۔
Non goverment Organization
یعنی غیر سرکاری تنظیم۔۔

این جی اوز کا نعرہ کیا ہے؟

دکھی انسانیت کی خدمت۔

یہ نعرہ ایک ایسا خوبصورت نعرہ ہے جس کا انکار کوئی نہیں کرے گا اور ہمارے مذہب میں اس کام کے اوپر بہت زور دیا گیا ہے جو کام ہمیں کرنا چاہئے تھا وہ غیر آکر کررہے ہیں۔دکھی انسانیت کی خدمت کرنا اس کی مشکل کڑی میں اس کے ہمدرد بننااس کے دکھ میں شریک ہونا یقیناً یہ ایک ایسا عمل ہے جس پر أنبياء اور سارے ائمہ معصومین علیہم السلام نے فخر کیا ہے اور یہ کسی ایک زمانے کے ساتھ محدود نہیں بلکہ یہ سلسلہ تاریخ میں اگر دیکھیں تو بہت پرانا سلسلہ ہے۔تاریخ کا اگر مطالعہ کریں تو معلوم ہوگا مکہ کی سرزمین ہے۔
اسلام سے پہلے کا واقعہ ہے اسلام سے پہلے یہ سرزمین قتل و غارت گری ظلم و بربریت میں ڈوبا ہوا ایک بدترین معاشرہ تھا عدل اور انصاف کا نام و نشان نہیں تھا اس زمانے میں قبیلہ بنی زبیر کا ایک شخص مکہ میں تجارت کے لئے آتا ہے۔مکہ پہنچنے کے بعدقریش کے ایک آدمی کے ساتھ تجارت کرتا ہے اس کا نام عاص بن وائل ہے تجارت کرنے کے بعد وہ اس کا مال لیتا ہے لیکن پیسہ نہیں دیتا اس کو ڈرا دھمکا کر مال غصب کرتا ہے وہ شخص مکہ کی چوٹی پر جاتا ہے اور فریادِ استغاثہ بلند کرتا ہے تو کچھ جوان اس کی مدد کے لئے پہنچ جاتے ہیں اس شخص کو اس کا لوٹا ہوا مال واپس دلواتے ہیں اس کے بعد ان جوانوں نے کہا آج کے بعد جس کسی پر ظلم ہوگا ہم ان کی مدد کریں گے ایک نٹ ورک بن گیا اس گروپ میں ایک 20 سالہ جوان بھی تھا جو اس گروپ کو لیڈ کررہا تھا اور اس کا کردار سب سے زیادہ نمایاں تھا وہی جوان بعد میں اہل مکہ کے درمیان صادق و امین محمد رسول اللہ کے نام سے مشہور ہوگیا۔اس وقت پاکستان میں بالخصوص بلتستان میں سینکڑوں کی تعداد میں مختلف این جی اوز کام کررہی ہیں۔

این جی اوز کیوں وجود میں آتی ہیں؟
معاشرے میں موجود مشکلات اور محرومیوں کا ازالہ کرنے کے لئے کچھ جوان اپنی مدد آپ کے تحت متحرک ہوجاتے ہیں اور ان مشکلات اور محرومیوں کو ختم کرنے کی کوشش کرتے ہیں اس طرح ایک این جی او وجود میں آجاتی ہے۔

این جی اوز کی کچھ ذاتی خصوصیات :
1۔یہ کسی گورنمنٹ کے سہارے پر نہیں بنتی بلکہ اپنی مدد آپ کے تحت بنتی ہے اور اپنی مدد آپ کے تحت کام کرتی ہے۔
2۔منفعت دار نہیں ہے۔یعنی اس میں کام کرنے والوں کو کوئی ذاتی فائدہ نہیں ہوتا یہ بغیر کسی اجرت کے کام کرتی ہے۔
3۔یہ خود مختار ہے یعنی یہ اپنے اہداف کو لوگوں تک پہنچانے میں کسی سے کوئی آڈر نہیں لیتی ہے۔
اس وقت دنیا میں کروڑوں کی تعداد میں این جی اوز فعال ہیں اور کام کررہی ہیں سوال یہ پیدا ہوتا ہے حکومتوں کے ہوتے ہوئے این این جی اوز کی کیوں ضرورت پیش آتی ہے؟
جبکہ کسی بھی ملک کے اندر ایک سسٹم ہوتا ہے جس کے تحت وہ عوام کی خدمت کرتا ہے چاہئے وہ ایجوکیشن ایشوز ہوں یا ہیلتھ ایشوز ہوں کسی قسم کا بھی مسٸلہ ہو حکومت خود ہی ان مسائل کو حل کرسکتی ہے۔
لیکن یاد رکھیں کہ چند خصوصیات این جی اوز میں پائی جاتی ہیں جو گورمنٹ میں نہیں ہوتی ہیں اس وجہ سے این جی اوز خودبخود وجود میں آجاتی ہیں۔

فیصلے جلدی ہوتے ہیں:این جی اوز ایک چھوٹی کمیٹی ہے جس میں محدود تعداد میں افراد ہوتے ہیں اور فیصلے جلدی کرتے ہیں جبکہ گورنمنٹ ایشوز میں فیصلے کے دوران کافی مراحل طے کرنے پڑتے ہیں تب جا کر کوئی فیصلہ ہوتا ہے۔

این جی اوز کے اہداف کیا ہیں؟

1۔دکھی انسانیت کی خدمت کرنا۔
2۔دنیا میں تعلیم عام کرنا۔
3۔جنگل اور جنگلی حیات کا تحفظ کرنا۔
4۔ماحول کو آلودگی سے بچانا۔
5۔محرومین تک امداد رسانی۔
6۔بیمار،غریب،بیوہ اور یتیم کی مدد کرنا۔
ان اہداف کے علاوہ بھی بہت سارے اغراض و مقاصد ہیں،سب کو بیان کرنا مقصود نہیں ہے۔

بلتستان میں 1990ء کے بعد سے این جی اوز سرگرم ہو گئیں ہیں۔
مختلف ممالک میں این جی اوز کو اپنے خاص اہداف کے لئے استعمال کیا جاتا ہے اس کی کچھ وجوہات ملاحظہ فرمائیں!
1۔این جی اوز کا رابطہ ڈائریکٹ عوام سے ہے اگر کوئی سفیر عوام کے لئے کوئی کام کرنا چاہئے تو مختلف ایجنسیوں کی نظروں میں آئے گا اور کام نہیں کرسکے گا لیکن این جی اوز جہاں چاہئے کام کرسکتی ہیں اس کی اپنی مرضی ہے اس کو روکنے ولا کوئی نہیں ہے۔
2۔این جی اوز کے لئے حکومت کی طرف سے کوئی ممانعت نہیں کوئی احتساب نہیں جتنا پیسہ خرچ کرنا چاہئے جہاں خرچ کرنا چاہئے جب خرچ کرنا چاہئے کر سکتی ہیں کوئی احتساب نہیں ہے۔آج تک کسی این جی اوز کو اس سلسلے میں نہیں پکڑا گیا ہے۔
ایسی کچھ اور خصوصیات بھی ہیں جن کی وجہ سے عالمی طاقتیں این جی اوز کو اپنے مقاصد کے لٸے استعمال کر لیتی ہیں۔
عالمی طاقتیں کچھ اہداف کے تحت این جی اوز کو فنڈنگ کرتی ہیں اور کروڑوں روپیے خرچ کرتی ہیں،کچھ اہداف کی طرف اشارہ کریں گے۔

1۔غربت:یہاں پر غربت سے مراد مالی طور پر نہیں بلکہ فکری غربت مراد ہے جب کوئی این جی او کسی معاشرے میں کام کرے گی وہ عوام کے اندر فکری وابستگی پیدا کرے گی بوڑھے، جوان اور خواتین یہاں تک کہ بچے یہ سوچتے ہیں ہمارے سارے مسائل کا حل NGO کے پاس ہے AKRSP کے پاس ہے ھم کچھ نہیں کرسکتے وہی سب کچھ کرسکتے ہیں اور یہ ایک بہت بڑی آفت ہے۔

ایک مثال: پہلے بلتستان میں سب کچھ اس کی اپنی پروڈکٹ ہوا کرتی تھی۔

پہلے گلگت بلتستان والوں کا کھانا،لباس اور سب کچھ اپنا تھا اگر کوئی اقتصادی پابندی بھی لگاتا تو بھی کچھ نہیں ہوتا ابھی سب کچھ باہر سے آنے کا انتظار رہتا ہے،کام نہیں کریں گے اور جس دن یہ راستہ بند ہو گیا تو اس دن ہم بہت ساری مشکلات میں پھنس جائیں گے یہ فکری وابستگی اور دلبستگی کی جو ذہنیت بنائی گئی ہے اس میں ان این جی اوز کا بہت بڑا رول رہا ہے۔
2۔جہالت:ٹھیک ہے این جی اوز نے بہت سارے اسکولز بنائے ہیں آپ اور میرے بچوں کو جس ہدف کی طرف لے جایا جا رہا ہے وہ ہے سیکولر ازم؛جب ہمارے بچے وہاں سے فارغ ہوں گے تو دین کا دشمن بن کر نکلیں گے کیونکہ ہمارے بچوں کو این جی اوز جہالت کی تعلیم دے رہی ہے۔

اسلام کے نکتۂ نگاہ سے وہ علم جس میں درست تربیت نہ ہو جس علم کا کوئی فائدہ نہ ہو وہ جہالت ہے۔ایسی تعلیم دی جارہی ہے جس کی وجہ سے ہمارے بچے بے ایمان،بےحیا ٕ اور بےغیرت ہو رہے ہیں۔
3۔بدامنی: بدامنی پھیلانے کے دو طریقے ہیں:
1۔قتل و غارتگری اور جلاؤ گھیراؤ
2۔علماء اور عوام کے درمیان تفرقہ پیدا کرکے،علاقوں اور قوموں کے درمیان لسانی اور علاقائی تعصبات کو فروغ دیکر شیعہ سنی مذہبی منافرت پھیلا کر

اس وقت بلتستان میں دو قسم کی این جی اوز بہت زیادہ سرگرم ہیں۔

1۔انٹرنیشنل این جی اوز جیسے USAID یوایس ایڈ:حقوق نسواں اور آزادی نسواں کے نعرے کے ذریعے سے ہماری خواتین کو حجاب سے دور کر کے کوچہ و بازار اور مختلف اسٹیج کی زینت بنا رہی ہے۔

2۔مذہبی این جی اوز : ان کا کام مذہبی منافرت پھیلانا ہے جیسا کہ بہت سارے واقعات ہمارے سامنے ہیں شیعہ سنی فسادات،نوربخشوں اور شیعوں کے درمیان فسادات،وغیرہ۔
امریکہ کی تنظیم USAID یوایس ایڈ جو کہ دنیا کے 125 ممالک کے اندر موجود غریب عوام کے دروازوں پر آٹے کی بوریاں پہنچاتی ہے جبکہ رہبر معظم انقلاب حضرت آیت اللہ خامنہ ای کے فرمان کے مطابق: امریکہ کے اندر اس وقت 3 کروڑ سے زیادہ لوگ بے گھر ہیں ان کے پاس کھانے کو روٹی نہیں پہننے کےلئے لباس نہیں ہے اس بات سے آپ کیا سمجھتے ہیں؟

اپنی عوام کو اندھیرے میں رکھ کر اپنی عوام کو بھوکا رکھ کر آٹے کی بوریاں لیکر گلگت بلتستان کے اندر سرگرمیاں سرانجام دے رہی ہیں تو اس کے پس پردہ کیا حقائق ہوسکتے ہیں؟

پہلا ہدف:یو ایس ایڈ USAID امریکہ کی خفیہ ایجنسی CIAکے لئے کام کرتی ہے جس کا ثبوت کٸی سال پہلے یوایس ایڈ کو کیوبا کے ملک سے جاسوسی کے الزام میں نکال دیا گیا۔

دوسرا ثبوت: کچھ سال پہلے کراچی میں یوایس ایڈ کے دفتر میں ہماری اجینسی نے چھاپہ مارا اور 15 نفر کو پکڑ لیا تھا جوکہ CIA کے لئے اطلاعات فراہم کرتے تھے ان کے دفتر کو سیل کردیا گیا۔

امریکہ کا ہدف پوری دنیا پر حکومت کرنا ہے۔

اس وقت دنیا کے کونے کونے میں جنگلات،ساحلوں، ریگستانوں اور ہر گھر میں یو ایس ایڈ اور مختلف این جی اوز پہنچ چکی ہیں اور کام کررہی ہیں۔

دوسرا ہدف:امریکہ اور غاصب صہیونیوں نے غزہ کے اندر شام کے اندر،یمن اور بحرین سمیت عراق،افغانستان اور کشمیر سمیت پوری دنیا میں کتنے معصوم لوگوں کا خون بہایا ہے کتنے بچوں کو یتیم کیا ہے،کتنی خواتین کو بیوہ بنایا ہے کتنے ماں باپ کے سامنے ان کے جوان بیٹوں کو بے دردی کے ساتھ قتل کیا ہے۔آج اگر یہ آٹے کی بوریاں لیکر چپہ چپہ گھوم رہے ہیں اور کہیں پل بنا رہے ہیں،کہیں گرین ہاؤس،کہیں شجرکاری مہم،کہیں سڑک تعمیر اور کہیں کوئی راستہ بنا رہے ہیں تو یہ صرف اور صرف اس لئے ہے تاکہ اپنے مکروہ چہرے جو اتنے سارے مظلوم انسانوں کے خون سے رنگین ہوچکا ہے وہ خون صاف ہوجائے اور عوام کے دلوں میں ان کے لئے جو کینہ اور نفرت ہے اسے محبت میں بدل سکیں۔

تیسرا ہدف:این جی اوز جس ملک میں بھی موجود ہیں وہاں پر لادینیت کو فروغ دینے کی سرتوڑ کوشش کرتی ہیں۔دین اسلام کو نابود کرنا چاہتی ہیں۔

ہم جنس پرست،لواط عام کرنا،مرد اور خواتین کا مخلوط پروگرامز کے ذریعے دین کو مسخ کرکے لادینیت کو فروغ دینا مقصد ہے۔

جس کی دلیل کچھ سال پہلے آذربائیجان جو کہ مسلم ملک ہے اور نوے فیصد شیعہ آبادی ہے وہاں پر ہم جنس پرستوں کی ریلی نکالی گئی خواتین نے آزادی کا نعرہ بلند کیا۔

4۔امریکہ کی دفاعی اور اقتصادی حالت کو مضبوط کرنے کے لئے یوایس ایڈ اور مختلف این جی اوز کام کررہی ہیں۔

بلتستان کی اسٹریٹیجک اہمیت کیا ہے؟

گلگت بلتستان کی کچھ اہم خصوصیات ہیں جس کی وجہ سے دشمنوں کے گلے میں ہڈی اور آنکھوں میں خار چھب رہا ہے۔

ارضِ بلتستان چار سپر طاقت ممالک کے درمیان ہے؛ پاکستان،چین،ہندوستان اور ترکمانستان،چین اور امریکہ کی رقابت میں بلتستان پستا ہے امریکہ اور چین چاہتا ہےگلگت بلتستان کو اپنا اڈہ بنائے

دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی K2 بلتستان میں ہےشاہراہ قراقرم،کوہ ہندوکش،دریائے سندھ یہ سب گلگت بلتستان میں ہیں اور یہ واحد خطہ ہے جہاں پورا سال سیاحوں کی آمد و رفت کا سلسلہ رہتا ہے۔

بلتستان کے اندر پہلے ایک تصور یہ تھا کہ امریکہ نجس ظالم ہے اور آج بھی اکثریت کا یہی تصور ہے کچھ لوگ امریکہ نواز ہو گئے ہیں امریکہ کے خلاف کچھ نعرے لگائے تو وہ جواب دینے کی بات تو دور وہ ناراض ہوتے ہیں اور امریکہ کا دفاع کرتے ہیں کیونکہ امریکہ کا نمک کھارہے ہیں لہذا نمک حرامی تو نہیں کر سکتے۔

اس وقت مختلف این جی اوز بلتستان میں تعلیمی حوالے سے نظام تعلیم کو کھوکھلا کرنے میں شب و روز سرتوڑ کوشش کررہی ہیں۔

بلتستان کے مختلف سکولوں سے سب سے زیادہ ذہین طالب علموں کو اسکالرشپ کے بہانے منتخب کرتی ہیں اور اسلام آباد میں 3 مہینہ ورکشاپ کرواتی ہیں پھر ان کو امریکہ واشنگٹن منتقل کردیا جاتا ہے اور کچھ عرصہ بعد وہ دین مخالف اور علماء مخالف اور ایک الگ نظریے کے حامل ہوکر واپس آجاتے ہیں اور معاشرے میں موجود دوسرے متدین افراد کو خراب کرنے کی کوشش میں لگ جاتے ہیں اس وقت مختلف این جی اوز بلتستان میں تعلیم،ثقافت،زراعت،میڈیا وغیرہ کے ذریعے انتہائی خاموشی کے ساتھ یہی کام کررہی ہیں۔

انہیں چند سالوں میں بہت تیزی کے ساتھ این جی اوز کی فعالیتوں میں اضافہ دیکھا جارہا ہے ان میں سے کچھ اہم فعالیتوں کا ذکر کرتا چلوں:

1۔این جی اوز نے گورنمنٹ سکول کے مقابلے میں پرائیویٹ اسکول کو زیادہ رواج دیا اور آج ھر گلی کوچے میں سینکڑوں کی تعداد میں پرائیویٹ اسکول موجود ہیں ایک عام آدمی جو میٹرک پاس نہ ہو وہ پرائیویٹ سکول کھول کر تعلیم دے رہا ہے اور والدین بھی خوش ہیں بچے سیکھ رہے ہیں۔
2۔بلتستان کے سارے اسکولز میں مخلوط ایجوکیشن اور مخلوط محافل کا انعقاد کرکے بلتستان کے اندر موجود حیاء اور عفت کو ختم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
جن تعلیمی اداروں کو علم و تحقیق کے مراکز بننا چاہئے تھا مگر بدقسمتی سے مغربی فیشن اور مغرب پرستی کے اڈے بن چکے ہیں۔جامعات میں ثقافت کے نام پر مخلوط رقص اور ناچ گانے کا قبیح فعل بھی انجام دیا جارہا ہے جبکہ اسکول سطح پر مختلف پروگرامات میں ٹیبلوز پیش کیے جاتے ہیں جس میں بچے اور بچیوں کو رقص کی ٹرینگ دی جاتی ہے۔والدین خوشی سے پھولے نہیں سماتے ہیں اور بچوں کی حوصلہ افزائی کے لئے جھوم جھوم کر تالیاں بجاتے ہیں۔انہی اداروں سے نکلنے والے طلبا اسلامی ثقافت کا جنازہ اپنے کاندھوں پر اٹھائے پھرتے ہیں۔
3۔یوایس ایڈ اور مختلف این جی اوز کے تعاون سے بلتسان کی مختلف جگہوں پر مختلف لائبریریاں بنائی گئی ہیں جن میں قرآن اور نهج البلاغہ کے علاوہ کوئی شیعہ کتاب موجود نہیں ہے سارے دین مخالف نصاب موجود ہیں۔ جبکہ وہاں مطالعہ کرنے والے 90 فیصد شیعہ بچے ہیں۔

ان لائبریریوں میں مطالعہ کرنے والوں کے لئے ہر 3 یا 4 مہینہ بعد ورکشاپ کا انعقاد ہوتا ہے اور عجیب بات یہ ہے جہاں پر انٹرنیٹ اتنا کمزور ہے ٹیکس میسج سینڈ نہیں ہوتا وہاں پر امریکہ واشنگٹن سے براہ راست لائو ورکشاپ سے خطاب ہوتا ہے اور ان لائبریریوں میں کچھ مجلات ایسے ہیں جو سکس اور آزادی کے اوپر زور دیتے ہیں،لہذا معلوم ہوا کسی بھی ملک و قوم کو تباہ کرنا مقصود ہو تو اس قوم کی تہذیب و ثقافت،سماجی اقدار،تعلیم بالخصوص نوجوان نسل کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔جس کے لئے مختلف فلموں، ڈراموں، اداکاروں، کھلاڑیوں،فلمی ستاروں اور فیشن ڈیزائنروں کو رول ماڈل پیش کر کے غیر اسلامی ثقافت کی تبلیغ و تشہیر کی جاتی ہے۔مختلف رسالوں اور ڈائجسٹوں پر نیم عریاں خواتین کی تصاویر شائع کر کے نوجوان نسل کو جدیدیت اور فیشن کے نام پر فحاشی کی طرف مائل کیا جاتا ہے۔
بوائے فرنڈ اور گرل فرنڈ کے ناجائز تصور کو عام کیا جاتا ہے۔جس کی بدولت ان میں شرم و حیاء مفقود ہو جاتی ہیں۔آج ہمارے سماج سے محرم و نامحرم کی تمیز ختم ہوتی جارہی ہے۔نسل نو بڑے فخر سے مغرب کی تقلید کر رہی ہے۔اکثر پڑھے لکھے تعلیم یافتہ افراد کس قدر جدیدیت سے مغربی ثقافت کی آلودگی میں گر چکے ہیں۔رسول پاکؐ کی حیات مبارکہ کو اسلامیات کی کتابوں تک محدود کر کے فلمی ستاروں کو رول ماڈل بنا کر اسلامی معاشرے کو زوال کی طرف دھکیلا جا رہا ہے۔شاید یہی ہمارے زوال کا سبب ہے کہ ہم برائی کو برائی نہیں سمجھتے بلکہ اپنے اس برے فعل پر فخر محسوس کرتے ہیں۔

آج شاید ہماری ذلت کا سبب یہی ہے کیونکہ ہمیں خدا کے علاوہ سب کچھ یاد ہے۔

وطنِ عزیز میں ڈانس اور موسیقی کے شوقین لوگوں کے ٹولے سرگرم ہیں۔خاص طور پر تعلیمی ادارے ان کے نشانے پر ہیں۔ان لوگوں کو باقاعدہ طور پر سرکاری سرپرستی حاصل ہے۔جو صرف ناچ گانے،مخلوط رقص اور دیگر نامناسب و نازیبا چیزوں کو ثقافت سے جوڑ کر اسلامی معاشرے کو داغ دار بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔لہٰذا یہ ایک اسلامی ریاست ہے۔اسے ثقافت اور رقص و سرود کی محفلوں کے ذریعے غیر اسلامی ریاست بنانے کی کوشش نہ کی جائے۔ورنہ نسلِ نو کی تباہی کے لئے اس کے بھیانک اثرات ہوں گے۔
وماعلینا الا البلاغ المبین.

نوٹ:حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .