حوزہ نیوز ایجنسی। یہ سن 2011 کے ابتدائی دنوں کی بات ہے جب مغربی ایشیا میں بحیرۂ روم کے مشرقی ساحل پر واقع ایک ملک، شام کے کچھ شہروں میں جنگ کے شعلے آہستہ آہستہ بھڑکنے لگے۔ ان دنوں ایک دہشت گرد گروہ کو یہاں منڈلانے کا موقع ہاتھ آگیا اور اس نے بے گناہ لوگوں پر وحشیانہ حملے کرنا شروع کر دئے۔ داعش، ’’ عراق اور شام کی اسلامی حکومت کا مدعی گروہ، ایک ملعون شیطانی شجرہ ‘‘ہے جس نے اسلامی دنیا میں آگ لگانے کی غرض سے، شام اور عراق کو شدید بحرانوں میں ڈال دیا وہ ان پر حاوی ہونے کے بعد خطے میں دوسرے مذموم مقاصد بھی حاصل کرنے کا ارادہ رکھتا تھا۔ لیکن خلافت کا یہ خواب بہت جلد ادھورے خواب میں تبدیل ہو گیا۔
’’حقیر کو اس میدان میں حضرت عالی کی طرف سے ایک سپاہی کے طور پر یہ ذمہ داری سونپی گئی کہ داعش کے آخری گڑھ ’’بوکمال ‘‘ کی آزادی کی کارروائی کی تکمیل کرکے ،اس امریکی - صیہونی گروہ کا جھنڈا گراکر شامی باشندوں کا پرچم بلند کرکے اس ملعون شیطانی شجرے کے تسلط کے خاتمے کا اعلان کر دوں۔‘‘
سات سال کے بعد، 21 نومبر 2017 کو، جنرل قاسم سلیمانی نے رہبر معظم انقلاب کو خطاب کرتے ہوئے ایک خط لکھا، جس میں رسمی طور پر داعش کی حکمرانی کے خاتمے کا اعلان کیا گیا ہے۔ یہ وہ جنرل ہےجس کی سات سالہ جدوجہد کسی سے پوشیدہ نہیں تھی یہاں تک کہ دشمنوں نے بارہا ان کی تعریف کی تھی۔ دنیا کو اپنا وطن سمجھنے والا سرفروش، جس کے ذہن میں عظیم اہداف تھے اور پوری دنیا سے ظلم کا خاتمہ کردینا چاہتا تھا۔۔
اس نے بچپن سختیوں میں گزارا، والد ایک مزدور تھے جن کے مالی حالات اچھے نہیں تھے۔ لہذا زندگی کے ابتدائی برسوں سے ہی غربت اور فقر کا مزہ چکھ لیا تھا۔ وہ پانچ سال کی عمر میں ہی چرواہے بن گئے، پوشاک میں سال میں دو جوڑے پرانے کپڑے اور دو جوڑے ربڑ کے جوتے تھے۔ اسی طرح وہ بھیڑ بکریاں چراتے رہے اور خود ان کے بقول کسی چیز سے نہیں ڈرتے تھے۔ اپنی ڈائری میں وہ ان دنوں کا حال یوں بیان کرتے ہیں: ’’میں سردیوں کے موسم میں ان بھیڑیوں کے خوف سے بے پروا جو بھیڑ بکریوں کی کمین میں چھپے بیٹھے رہا کرتے تھے ، پہاڑی بادام کے جنگلوں میں چلا جایا کرتا تھا۔‘‘ لیکن کبھی کبھی اسی آنے جانے کے درمیان پھٹے جوتوں سے پیروں کی انگیاں باہر نظر آنے لگتی تھیں جو پتھر سے ٹکرانے کی وجہ سے خون لہولہان ہو جایا کرتی تھیں۔
پندرہ سال کی عمر میں اپنے والد کے قرض کی ادائگی کیلئے شہر پہنچے۔ پہلی بار اپنی آنکھوں سے موٹرگاڑیاں دیکھیں اور تمام شہری کششوں اور خوبصورتیوں کے درمیان، وہ خود کو اجنبی اور تنہا محسوس کرتے تھے۔ لیکن ہار نہیں ماننا تھی۔ بہر صورت اپنے لئے کوئی نوکری تلاش کرنی تھی۔ چھوٹے قد اور دبلے پتلے جسم کی بنا پر مالکان کام دینے سے منع کر دیا کرتے تھے ۔ کہتے ہیں: "میں نے ہر دوکان، کیفے، رستورینٹ اور ورکشاپ پر دستک دی اور پوچھا، ’’کیا یہاں کوئی کام مل سکتا ہے؟‘‘ سب میرے چھوٹے قد اور نحیف جسم کی طرف نگاہ کرتے اور منع کر دیتے تھے۔‘‘
لیکن اُس نوجوان کے لئے کوئی راستہ بند نہیں تھا۔ اصرار اور التماس نے اپنا کام کر دکھایا۔ بالآخر ایک زیر تعمیر عمارت میں کام کرنے والے راجگیر کی نگاہ توجہ ہو گئی اور اس نے اینٹیں ڈھونے کے لئے رکھ لیا۔ وہ ایک مشکل اور تھکا دینے والا کام تھا اور اگرچہ کام کرتے ہوئے اکثر اُن کے ہاتھ زخمی ہو جایا کرتے تھے لیکن ہفتہ کے آخر میں جب اجرت ملتی تو بدن کی ساری تھکاوٹ دور ہو جایا کرتی تھی۔ کہتے ہیں: "میں نے ایک چھوٹا 'مینو بسکٹ کا پیکٹ' دو ریال میں خریدا اور پانچ ریال دیکر چار عدد کیلے لئے۔ بہت مزہ آیا۔ ساری تھکن میرے جسم کی نکل گئی۔ پہلی بار میں نے کیلا کھایا تھا۔‘‘ چھ مہینوں کے بعد، آخرکار اُس نوجوان نے اپنی ضرورت کی رقم اپنے گھر والوں کو گاؤں بھیج دی اور پھر دوسری نوکریاں بھی کیں۔
سب سے اہم سرگرمیوں میں سے جو انھوں نے اپنی نوجوانی سے پوری سنجیدگی سے جاری رکھی مارشل آرٹ اور اکھاڑے کی کسرت کی مشق تھی، اس طرح کے کھیل کود نے میرے مذہبی رجحان پر بہت گہرا اثر ڈالا اور ایک سب سے اہم عنصر جس نے مجھے جوان ہونے کے باوجود اخلاقی بدعنوانیوں سے دور رکھا تھا۔ یہی وہ کھیل تھے، خاص طور پر قدیمی کھیل جو اخلاقی اور مذہبی بنیا دیں رکھتے تھے‘‘۔ ان تمام کوششوں اور سرگرمیوں کی وجہ سے وہ 21 سال کی عمر میں ایک پیشہ ور کھلاڑی اور بہت تندرست بن گئے۔
جوانی کا دور ایران میں شہنشاہی حکومت کے خلاف وسیع پیمانے پر جاری جدوجہد کے ساتھ گزرا، اور ان ہی دنوں اُنھوں نے میں جو دوست بنائے ان کی بدولت امام خمینی ؒ سے آشنا ہوئے اور اس آشنائی نے ان کے ذہن کو امام خمینیؒ کی شخصیت سے زیادہ متاثر اور شیدا ہونے کا موقع فراہم کیا اور اسی حوصلے ک ساتھ میدان انقلاب میں انھوں نے بہادری سے حصہ لیا۔ اگرچہ بعض اوقات شاہی انٹیلیجنس کے ایجنٹوں کے چنگل میں بھی پھنسے اور پٹائی بھی کھائی، لیکن جیسا کہ وہ خود کہتے ہیں : "میں درد کی شدت سے تین دن تک ہل بھی نہیں سکتا تھا؛ لیکن خود میں نئی توانائی محسوس کرتا تھا۔ پٹائی اور تشدد کا خوف ختم ہو گیا اور سوچتا تھا کہ جو کچھ بھی ہونا ہے ہونے دو!‘‘
فروری 1979 میں ایران کے اسلامی انقلاب کی فتح کے بعد، وہ کرمان میں سپاہ پاسداران انقلاب (انقلابی گارڈز) کے اعزازی رکن بن گئے اور دو سال بعد ایران کی سرزمین پر عراق کی مسلط کردہ جنگ کے آغاز میں ، انھوں نے فوجیوں کی جنگی تربیت شروع کر دی۔ اس کے بعد وہ کرمان ڈویژن کے کمانڈر مقرر ہوئے اور کئی آپریشنوں کی فتح میں اہم کردار ادا کیا۔ وہ ایک کمانڈر تھے، لیکن ماتحت فوجیوں کے ساتھ ان کے تعلقات افسر اور ماتحت جیسے نہیں ہوتے تھے۔ وہ ان سے ایک دوست کی طرح محبت سے پیش آتے تھے۔ ان کے ایک جنگ کے ساتھی نے ان کی یوں توصیف بیان کی ہے: "حاجی قاسم ان کمانڈروں میں سے ایک تھے جو پہلے خود آگے بڑھ جاتے تاکہ ان کے زیر کمان فوجیوں کو یہ محسوس ہو کہ وہ ان کے لئے ڈھال اور حفاظتی سپر ہیں۔ یہ چیز افواج میں خود اعتمادی، ہمت اور بہادری پیدا کر دیتی تھی ، وہ کسی بھی بند کو توڑ سکتے ہیں۔ ’’جب کمانڈر وہی لباس پہنتا ہے جو سب کے سب پہنتے ہیں، وہی کھانا کھاتا ہے جو سب کے سب کھاتے ہیں، تو وہ ہر دلعزیز ہو جاتا ہے اور آیت «اَشِدَّاءُ عَلَی الْکُفَّارِ رُحَماءُ بَینَهُم» کی واضح مثال بن جاتا ہے کہ وہ میدان جنگ میں دشمن کے خلاف سخت اور اپنے ساتھیوں کے نہایت ہی ہمدرد و رفیق ہیں۔۔۔
انھوں نے اپنے گھر والوں کے ساتھ بھی یہی سلوک رکھا تھا۔ بے شمار مصروفیات نے انھیں اپنے خاندان کی ضروریات سے غافل کیا، نہ ہی ان سے محبت میں کمی کا سبب بن سکیں۔ ان کے بھائی ان کے بارے میں کہتے ہیں: "میرے بھائی اپنے بچوں سے بے پناہ محبت کرتے تھے اور اہل بیتؑ کے حقیقی عقیدتمندوں کی طرح ان کی پرورش کی ہے، حالات حاضرہ اور اس کے مسائل کے سلسلے میں بہت حساس تھے، یہاں تک کہ تعلیم کے دوران ابتدائی تعلیم سے لیکر یونیورسٹی کے اعلی درجات تک، ان کی کوشش ہوتی تھی کہ کم سے کم سال میں دو بار بچوں کے اسکول خود جائیں اور اُن کے تعلیمی حالات سے باخبر رہیں، اسی طرح ہمیشہ اپنے والدین کو راضی رکھنے کی کوشش میں رہتے تھے کیونکہ وہ خدا کی خوشنودی اور رضا ، ان کی خوشنودی اور رضا میں ہی سمجھتے تھے، یہاں تک کہ اپنے بچوں اور رشتہ داروں کو بھی اپنے والدین کا احترام کرنے کی تاکید کیا کرتے تھے۔"
عراق کی جانب سے مسلط کردہ جنگ کے خاتمے اور لبنان سے صیہونی افواج کے انخلاء نے خطے کی استقامت میں نئی جان ڈال دی تھی۔ لبنان میں سید حسن نصراللہ کی قیادت اور عماد مغنیہ کی سپہ سالاری میں حزب اللہ کو استحکام حاصل ہوگیا تھا اور طاقت میں اضافہ ہوتا جارہا تھا، لیکن جولائی 2006 میں اسرائیل نے اچانک ہی لبنان میں حزب اللہ کے خلاف بڑے ہی وسیع پیمانے پر حملے کا فیصلہ کیا کہ اس تحریک کو ختم کر دے۔ یہی وہ وقت تھا جب سخت محاصرے اور خطروں کے باوجود وہ لبنان پہنچ گئے اور میدان میں اُتر کر وہاں موجود کمانڈروں اور مجاہدوں کو ضروری معلومات و مہمات پہنچائیں۔
سید حسن نصراللہ ۳۳؍ روزہ جنگ کے سلسلے میں کہتے ہیں: ’’جنگ کے ابتدائی دنوں میں ہی حاج قاسم کی لبنان میں موجودگی، بہت ہی حیات آفریں اور اہم تھی۔ وہ چاہتے تو لبنان نہ آتے تہران میں رہ کر ہی جنگ کی حالات کو فالو کرتے رہت یا یہ کہ دمشق جاکر جنگ کے حالات کا ہم سے زیادہ قریب سے جائزہ لے سکتے تھے، اُس زمانے میں دمشق کو صیہونی حکومت کی طرف سے کسی حملے اور جارحیت کا نشانہ نہیں بنایا گیا تھا، لیکن حاج قاسم نے لبنان آنے پر اصرار کیا تھا‘‘۔
پانچ سال بھی جب شام میں داعش کا منحوس وجود سامنے آیا تو اُن کی عسکری فراست اور ذہانت، جس کے تحت ایران کی قدس فورس کی کمانڈ انھیں تفویض کی گئی تھی کام آئی اور انھوں نے، دہشت گردوں کو مزید آگے بڑھنے سے روک دیا اور جب وہ ایک کمانڈر کے چالیسویں کی مجلس میں تین مہینے کے اندر داعش کے ٹھکانوں کو نابود کر دینے کا وعدہ کر رہے تھے تو کسی نے سوچا بھی نہیں ہوگا کہ 59 دن بعد ہی وہ اور ان کی زیرکمان فوجیں، بوکمال آپریشن میں دہشت گردوں کے آخری ٹھکانے پر فتح حاصل کرلیں گے اور وہ ہمیشہ کے لئے عراق اور شام پر مسلط داعش کے خاتمے کا اعلان کر دیں گے۔ وہ تسلط جو امریکہ جیسے ممالک کی مالی امداد اور سہولت کاری کے تحت حاصل ہوا تھا اور جس کو باقی رکھنے کے لئے امریکیوں کی مسلسل کوششوں کے باوجود ، خدا کے لطف اور استقامتی قوتوں کی مزاحمت کے تحت اس گروہ کا خاتمہ ہو گیا تھا۔
آخر کار، 3 جنوری 2020 جمعہ کی صبح کو بغداد کے ہوائی اڈے کے قریب، جب وہ عراق کی عوامی فوج کے ڈپٹی کمانڈر ابو مہدی المہندس اور دیگر دوستوں کے ساتھ ایک مشاورتی مشن کی انجام دہی کے لئے عراق پہنچے ہوئے تھے، بر سر اقتدار امریکی صدر ٹرمپ کے حکم پر، دہشت گردانہ حملے میں انھیں نشانہ بنایا گیا اور اسلام کا عظیم اور قابل فخر سپاہی شہید ہو گیا۔ دنیا کے شیطانوں اور شرپسندوں کے خلاف میدان جنگ میں برسوں کی مخلصانہ اور دلیرانہ جدوجہد اور خدا کی راہ میں میں شہادت کے لئے برسہا برس کی تڑپ نے آخر کار اُنھیں اُس بلند مقام پر فائز کر دیا اور ان کا پاکیزہ خون شقی ترین افراد کے ہاتھوں زمین پر بہایا گیا۔ ایک ایسا شخص جو ہر وقت اور ہر جگہ اپنی ذمہ داری ادا کرنے کی کوشش میں لگا رہا، خواہ میدان جنگ کا اگلا محاذ ہو یا قدرتی آفات کے دوران، سیلاب سے متاثر افراد کی امداد کا مرحلہ ہو، یا پہاڑوں اور صحراؤں میں بھیڑ بکریوں کو چرانے کا کام ہو۔