تحریر: مولانا سید ظفر عباس رضوی قم المقدسہ
موت اس کی ہے کرے جس کا زمانہ افسوس
یوں تو دنیا میں سبھی آئے ہیں مرنے کے لئے
حوزہ نیوز ایجنسی | کس طرح سے بیان کیا جائے کہ حکیم امت، سرمایہ قوم، فخر ملت جعفریہ مفکر و مدبر مولانا ڈاکٹر کلب صادق صاحب قبلہ کے انتقال کی خبر سنتے ہی ایسا لگا کہ جیسے کسی نے کانوں میں سیسہ پگھلا کے ڈال دیا ہو اور زمین پیروں تلے کھیسک گئی ہو یقین ہی نہیں ہو رہا ہے کہ وہ عظیم شخصیت جو ہمیشہ اپنے علم و عمل سے ہر قوم کو فائدہ پہنچا رہی تھی وہ اب اس دنیا میں نہیں رہی لیکن موت ایک زندہ حقیقت ہے جس سے کوئی بھی بچ نہیں سکتا۔
اپنی اس عمر میں جن بزرگوں کو دیکھنے کا موقع ملا ان میں سے ایک حکیم امت تھے آپ کو ایک دو مرتبہ قریب سے بھی دیکھنے کا موقع ملا، واقعا ایسی شخصیتیں کم ہوتی ہیں جن سے تقریبا ہر قوم و ملت کے لوگ متاثر ہوں، آپ نے اپنی پوری زندگی کو وقف کر دیا تھا تعلیم کے لئے اور زندگی کا صرف ایک ہی مقصد تھا کہ قوم کا ہر آدمی تعلیم یافتہ ہو، فقر و غربت اور ناداری کا خاتمہ ہو جائے۔
آپ نے ہمیشہ اپنے آپ کو ہر چیز سے دور رکھا اور اپنے کام اور اپنے مشن کو آگے بڑھاتے رہے، کبھی بھی کسی فتنہ و فساد پارٹی بازی اور گروپ بازی میں نہیں پڑے، خاموشی سے صرف کام کرتے رہے، آپ اپنے آپ میں ایک فرد نہیں بلکہ ایک ادارہ اور ایک انجمن تھے۔
حکیم امت کی زندگی میں بہت سی خوبیاں پائی جاتی تھیں لیکن ان کے اندر ایک جو سب سے بڑی خوبی تھی وہ یہ کہ کبھی بھی کسی بات کا جواب نہیں دیتے تھے اگر انھوں نے کوئی بیان دے دیا اور ان کے خلاف کسی نے کچھ بول دیا تو پلٹ کے کبھی بھی جواب نہیں دیا، سامنے والا جو بھی کہے خاموشی سے سن لیتے تھے اور کبھی بھی اپنا دفاع نہیں کرتے تھے اور اگر کبھی کسی نے پوچھ لیا کہ حضور آپ نے اپنا دفاع نہیں کیا تو کہتے تھے کہ میں نے کب دفاع کیا جو آج کروں گا اور آپ کی ترقی کا سب سے بڑا راز بھی شاید یہی تھا، آپ کہتے تھے کہ کام کرنے کے لئے بہرا بننا پڑے گا یعنی کون کیا کہہ رہا ہے اس پہ توجہ دینے اور اس کا جواب دینے کے بجائے خاموشی سے کام کرتے رہو، اور انھوں نے اپنی زندگی میں اس بات کا عملی ثبوت بھی پیش کیا، اور بغیر کسی کو کچھ کہے ہوئے اپنا کام کرتے رہے جس کا آج ہر انسان مشاہدہ کر سکتا ہے، عصر حاضر میں جتنا کام آپ نے کیا اتنا بہت ہی کام لوگوں نے کیا ہوگا، ہائے افسوس قوم کا درد رکھنے والا، قوم کو ہمیشہ جہالت کی تاریکی سے نکالنے کا خواب دیکھنے والا، قوم کے اندر سے فقر و غربت کو مٹانے کی سوچ رکھنے والا، قوم کی بے لوث خدمت کرنے والا, وقت کا صحیح اور اس سے بھرپور استفادہ کرنے والا، آج ہمارے درمیان نہیں رہا، جس کے جانے سے ایک عہد کا خاتمہ ہوگیا، حکیم امت چلے گئے لیکن آپ کے کام آپ کی خدمتیں ہمیشہ باقی رہیں گی اور آپ کو ہمیشہ یاد کیا جاتا رہے گا۔
آخر میں خدا وند عالم سے دعا ہے کہ خدا محمد(ص) و آل محمد علیہم السلام کے صدقہ میں آپ کو غریق رحمت اور جوار معصومین علیہم السلام میں جگہ عنایت فرمائے اور ساتھ ہی ساتھ آپ کے تمام پسماندگان کو خاص طور سے آپ کے فرزند ڈاکٹر کلب سبطین نوری صاحب کو صبر جمیل عنایت فرمائے۔
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا