تحریر: مولانا سید علی ہاشم عابدی
عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَبِيهِ عَنِ اَلنَّوْفَلِيِّ عَنِ اَلسَّكُونِيِّ عَنْ أَبِي عَبْدِ اَللَّهِ عَنْ أَبِيهِ عَلَيْهِمَا اَلسَّلاَمُ : فِي ثَلاَثَةٍ شَهِدُوا عَلَى رَجُلٍ بِالزِّنَى فَقَالَ أَمِيرُ اَلْمُؤْمِنِينَ عَلَيْهِ اَلسَّلاَمُ أَيْنَ اَلرَّابِعُ فَقَالُوا اَلْآنَ يَجِيءُ فَقَالَ أَمِيرُ اَلْمُؤْمِنِينَ عَلَيْهِ اَلسَّلاَمُ حُدُّوهُمْ فَلَيْسَ فِي اَلْحُدُودِ نَظِرَةُ سَاعَةٍ
(الکافی، جلد 7، صفحہ 210)
جناب علی بن ابراہیم نے اپنے والد سے روایت کی، انھوں نے جناب حسین بن یزید نوفلی سے روایت کی ، انھوں نےجناب اسماعیل بن ابی زیاد سکونی سے روایت نقل کی، انھوں نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے اور امام جعفر صادق علیہ السلام نے اپنے والد ماجد امام محمد باقر علیہ السلام سے روایت نقل فرمائی: تین لوگوں نے ایک شخص کے سلسلہ میں گواہی دی کہ اس نے زنا کیا ہے۔ امیرالمومنین علیہ السلام نے فرمایا: چوتھا گواہ کہاں ہے؟ (کیوں کہ زنا کو ثابت کرنے کے لئے چار گواہ شرط ہے۔)ان لوگوں نے کہا : ابھی آتا ہے۔ امیرالمومنین علیہ السلام نے فرمایا: ان لوگوں پر حد (شرعی سزا) جاری کرو کیوں کہ الہی حدود ( سزا) میں ایک ساعت کا بھی انتظار ممکن نہیں ہے۔
مذکورہ روایت کو شہید ؒ نے کتاب ‘‘اللمعۃ الدمشقیۃ’’ میں بھی نقل فرمایا ہے اور اس روایت سے مومن کی حرمت کی اہمیت واضح ہوتی ہے کہ اگر تین لوگ کسی کی بد کرداری کی گواہی دیں تو ان تینوں کو سزا ملے گی نہ کہ اس شخص کو جس کے خلاف گواہی دی گئی ہے کیوں کہ گواہوں کی تعداد کامل نہیں ہے۔ اسی طرح صرف گواہوں کی تعداد بھی کافی نہیں ہو گی جب تک کہ ان چاروں گواہوں کی گواہیاں ایک جیسی نہ ہوں ، اسی طرح دیگر شرائط بھی ہیں ۔
ظاہر ہے اگر گواہی کا قانون اتنا سخت نہ ہو تو کوئی بھی کسی پر الزام لگا کر سزا کا مستحق بنا دے گا ، لہذا شریعت نے مومن کی حرمت کے تحفظ کی خاطر سخت قانون رکھے تا کہ کوئی کسی پر تہمت یا الزام لگانے سے پہلے سو بار سوچے کہ جسے وہ گناہگار سمجھ رہا ہے کیا واقعاً وہ گناہگار ہے یا نہیں ؟
کبھی کبھی انسان آنکھوں سے دیکھنے کے باوجود حقیقت کا ادراک نہیں کر پاتا ۔ فارسی میں ایک واقعہ پڑھا تھا کہ ایک عالم دین جو ایک بستی کے امام جمعہ و جماعت تھے، انتہائی موثر اور مقبول عالم و مبلغ تھے ، مومنین انہیں حد درجہ مانتے اور چاہتے تھے ، صرف عقد نکاح نہیں پڑھواتے تھے بلکہ رشتہ کے انتخاب میں بھی رہنمائی لیتے تھے۔ ایک دن ایک صاحب نماز ظہر پڑھنے کے لئے مسجد گئے تو پہلے فراغت اور وضو کے لئے اس کے مخصوص حصہ میں گئے۔ بیت الخلا ء کا دروازہ بند تھا تو یہ انتظار میں باہر کھڑے ہو گئے ، دروازہ کھلا تو امام جمعہ و جماعت تھے ، مسکرا کر سلام و احوال پرسی ہوئی۔ انہوں نے دیکھا کہ مولانا صاحب بغیر وضو کئے مسجد چلے گئے اور نماز پڑھا دی۔
مولانا صاحب کے اس عمل سے جذبہ دینداری سے سرشار انسان کو غصہ آگیا اور انھوں نے قسم کھا کھا کر لوگوں کو بتایا کہ میں نے خود دیکھا کہ مولانا صاحب بیت الخلاء سے نکلے اور بغیر وضو کئے مسجد میں گئے اور نماز میں مصروف ہو گئے ، المختصر ایک ہنگامہ ہو گیا اور آخر کار مولانا صاحب کو نکال دیا گیا اور وہ وہاں سے چلے گئے ۔ پھر کسی کو پتہ بھی نہیں چلا کہ مولانا صاحب کہاں گئے اور وہاں دوسرے عالم دین آگئے۔
کچھ عرصہ بعد جو صاحب گواہ تھے کہ مولانا صاحب نے بغیر وضو کئے نماز پڑھی ہے ، انکی طبیعت ناساز ہو گئی، انہیں نماز پڑھنے جانا تھا لیکن اس سے پہلے انجکشن لگوانے ڈاکٹر کی کلینک پر بھی جانا تھا ، لہذا گھر سے وضو کر کے نکلے ، پہلے کلینک گئے ، انجکشن لگوایا اور مسجد کی جانب روانہ ہو گئے۔ چونکہ انجکشن کمر کے قریب لگا تھا تو سوچا کہیں خون نکلا ہو لہذا اسے پاک کر لینا چاہئیے ۔ اس لئے وہ مسجد جانے سے پہلے بیت الخلاء گئے اور پاک کیا۔ ظاہر ہے باوضو تھے اس لئے وضو کی ضرورت نہیں تھی اس لئے مسجد کی جانب چلے گئے، راستہ میں اچانک سابق امام جمعہ و جماعت کا خیال آیا کہ کہیں ان کے ساتھ بھی ایسی ہی صورت حال تو نہیں تھی کہ وہ بھی خون پاک کرنے کے لئے بیت الخلاء گئے ہوں اور چونکہ پہلے سے با وضو تھے اس لئے وضو نہیں کیا۔ اس خیال نے انہیں بے چین کر دیا اور انکی جستجو میں مصرورف ہو گئے۔ ہر ایک سے پوچھتے کہ کیا مولانا صاحب کی کوئی اطلاع ہے ، ایک دن ایک صاحب نے بتایا کہ شہر کے فلاں محلہ کے فلاں دکاندار سے مولانا صاحب کے بہت اچھے تعلقات تھے۔ یہ ان تک پہنچے اور مولانا صاحب کے سلسلہ میں سوال کیا تو اس بزرگ دکاندار نے پوچھا کہ تم نے تو ان کے خلاف اتنا ہنگامہ کیا کہ وہ چلے گئے اب کیسے ان کی یاد آ گئی؟ انھوں نے پورا ماجرا بتایا تو دکاندار نے کہا کہ جب مولانا صاحب شہر چھوڑ کر جا رہے تھے تو میرے پاس آئے اور مجھے وضو نہ کرنے کی وہی وجہ بتائی تھی جو تمہارے وضو نہ کرنے کی وجہ ہے۔ میں نے ان سے کہا بھی تھا کہ آپ لوگوں کے سامنے حقیقت بیان کر دیں تو انھوں نے فرمایا کہ اب ایسے حالات میں وجہ بتانے کا بھی کوئی فائدہ نہیں ہے اور وہ چلے گئے۔ مجھے بھی نہیں بتایا کہ وہ کہاں گئے ہیں ۔ یہ سن کر اس شخص کے پاس افسوس ، شرمندگی اور توبہ و استغفار کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا ۔
اگر چہ انسان کو تہمت کے مقامات سے بچنا چاہئیے جیسا کہ امیرکائنات ؑ کا حکم بھی یہی ہے ، روایت میں ہے کہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم جب اپنی ایک زوجہ کے ہمراہ کہیں جا رہے تھے تو وہاں موجود لوگوں سے فرمایا :‘‘ یہ میری زوجہ ہیں۔’’ تا کہ کوئی تہمت نہ لگا سکے۔ بعض روایات میں بھی ہے کہ جس طرح غیبت کرنے والے اور غیبت سننے والے سے روز قیامت سوال ہو گا اسی طرح جس کی غیبت کی گئی اس سے بھی پوچھا جائے گا کہ تم نے ایسا موقع کیوں فراہم کیا؟
دور حاضر میں جب کہ سب کے ہاتھ میں اسمارٹ فون ہے اور ہر انسان ایک لمحہ میں اپنی بات دنیا کے سامنے پیش کردیتا ہے۔ لیکن یاد رہے کہ جیسی نعمت ہے ویسا ہی سوال بھی ہوگا۔
موجودہ دور میں کتنی آسانی سے لوگ دوسرے پر الزام لگا دیتے ہیں ، فلاں شخص جھوٹا ہے، فلاں مکار ہے، فلاں نے خیانت کی، فلاں نے ظلم کی حمایت کی، فلاں دشمن کا ایجنٹ ہے، فلاں نے مال چوری کر لیا، فلاں نے شرعی رقوم مار دی، فلاں فریبی ہے، فلاں دھوکہ باز ہے، کسی نے فضائل بیان کیا تو وہ غالی ، ملنگی اور اخباری ہو گیا، کسی نے نماز و احکام کی تاکید کی تو وہ مقصر اور بد عقیدہ ہو گیا۔ کسی اپنے والے نے غلط کام کیا تو اسے ناسمجھ اور نادان بتا کر بچانے کی کوشش کی گئی ، کسی غیر نے صحیح بات بھی کہی تو اسے مشکوک بنا دیا۔ اپنے خیمہ سے غلط بات نکلی تو اس پر توجیہ کا مینھ برسایا ، دوسرے کی صحیح بات پر نفرت کا تیر چھوڑا ۔
بعض اوقات جسارت اس قدر بڑھی کہ مخلص علماء حتیٰ مراجع کرام کی بھی توہین سے خود کو نہ روک سکے۔ نرسری کی تعلیم مکمل نہیں پروفیسر پر اعتراض کر دیا ۔ دوا کا نام پڑھ نہیں سکتے سَرجن کو زیر سوال لے آئے، کچھ نہ بن پڑی تو کہہ دیا کہ یہ بات عقل سے بعید ہے لیکن اگر اتنی عقل ہوتی تو آپ خود اس اعلیٰ علمی منصب پر ہوتے۔ جب بزرگ علماء اور مراجع کرام اعتراضات سے نہ بچ سکے تو عام آدمی کی کیا حیثیت ہے۔ وغیرہ وغیرہ
ہر انسان ان حالات کا شکار ہے لیکن کون کہے ؟ کس سےکہے؟ کہہ بھی دیا تو سنے گا کون ؟ اور سننے کے بعد کیا گارنٹی کہ خود کہنے والے کی حرمت محفوظ رہے گی؟
لیکن یاد رہے کہ اگر ہم یہ سوچ لیں کہ اللہ جسے نہ نیند آتی ہے اور نہ ہی اونگھ آتی ہے، وہ ہمیں دیکھ رہا ہے اور اسی کی آخری عدالت میں فیصلہ ہونا ہے جہاں وہی قاضی ہو گا اور وہی شاہد ، ہمارے مولا حضرت ولی عصر عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف ہمارے کردار و اعمال سے آگاہ ہیں ، اگر ہم یہ سوچ کر کلام کریں اور کوئی عمل انجام دیں کہ اگر پیش پروردگار کہنا یا کرنا ہو تو ہم کہہ بھی سکیں اور کر بھی سکیں ، ہم یہ بات امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف کے سامنے بھی کہہ سکتے ہیں اور یہ عمل انجام دے سکتے ہیں تو یقین کریں کہ اگر یہ بے چینی بالکل ختم نہ بھی ہوئی تو کافی حد تک کم ضرور ہو جائے گی۔ اگر حدود الہی کا پاس و لحاظ ہو گا تو انسان کبھی کوئی ایسا کام نہیں کرے گا جو قابل گرفت ہو۔
اللھم عجل لولیک الفرج