۷ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۷ شوال ۱۴۴۵ | Apr 26, 2024
مولانا فیروز علی بنارسی

حوزہ/ وہ عظیم المرتبت علمائے کرام جنہوں نے ہر طرح کی مصیبتیں اور مخالفتیں برداشت کرکے قوم کی ہدایت اور راہنمائی کا بیڑہ اٹھایا اور اپنے خلوص، للٰہیت اور جفاکشی کی وجہ سے اپنے مشن میں کافی حد تک کامیاب بھی رہے اور خلوص کے ساتھ ان کا لگایا ہوا پودہ شجر سایہ دار بن کر آج بھی قوم کو سایہ اور پھل مہیا کررہا ہے، انھیں عظیم المرتبت میں سے ایک، عالم با عمل سربراہ تحریک دینداری خطیب اعظم،بانیٔ تنظیم مولانا سید غلام عسکری اعلیٰ اللہ مقامہ کی ذات گرامی بھی ہے۔

مرتبہ: مولانا فیروز علی بنارسی، استاد جامعہ امامیہ تنظیم المکاتب 

حوزہ نیوز ایجنسی اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ کامیاب زندگی کے لئے جہاں معصومین علیہم السلام کی تاریخ و سیرت میں بہترین نمونۂ عمل موجود ہے وہیں ان حضرات کے در سے علمی اور عملی بھیک لینے والے علمائے کرام کی زندگی اور ان کے عظیم کارنامے بھی ہمارے لئے مشعلِ راہ ہیں۔ 
وہ عظیم المرتبت علمائے کرام جنہوں نے ہر طرح کی مصیبتیں اور مخالفتیں برداشت کرکے قوم کی ہدایت اور راہنمائی کا بیڑہ اٹھایا اور اپنے خلوص، للٰہیت اور جفاکشی کی وجہ سے اپنے مشن میں کافی حد تک کامیاب بھی رہے اور خلوص کے ساتھ ان کا لگایا ہوا پودہ شجر سایہ دار بن کر آج بھی قوم کو سایہ اور پھل مہیا کررہا ہے، انھیں عظیم المرتبت میں سے ایک، عالم با عمل سربراہ تحریک دینداری خطیب اعظم،بانیٔ تنظیم مولانا سید غلام عسکری اعلیٰ اللہ مقامہ کی ذات گرامی بھی ہے۔
ذیل میں اسی مرد مجاہد اور کوہِ عزم و ہمت کی زندگی چند واقعات نذر قارئین کئے جارہے ہیں جو بانیٔ تنظیم طاب ثراہ کی سیرت و شخصیت کی نشاندہی کرتے ہیں۔  

تواضع و انکساری اور دل جیتنا
۱۹۵۵؁ء میں، میں عراق چلا گیا اور ۶؍ سال کے بعد چند دنوں کیلئے دوبارہ واپس ہندوستان آیا سرکار ظفر الملۃ مرحوم نے مجھے نماز عید اضحی کیلئے مظفر پور بھیج دیا۔وہاں چند دنوں قیام رہ گیا۔اس دوران مولانا غلام عسکری نے آقائے حکیم طاب ثراہ کے عملیہ کا ترجمہ شائع کیا تھا۔ اس میں بعض کتابت کی غلطیاں رہ گئی تھیں۔ میں اس وقت تک ہندوستان کے عالمانہ آداب سے بالکل بے خبر تھا۔ نتیجہ میں میں نے ان اغلاط کی فہرست بنا کر مولانا کو بھیج دی کہ مسائل شرعیہ کا معاملہ ہے اس کی اصلاح بیحد ضروری ہے۔ 
چند دنوں کے بعد مولانا مظفر پور کی مجالس میں تشریف لے آئے۔ میں نے ملاقات کی ہمت نہیں کی۔وہ مانے ہوئے خطیب جن کے زیر منبر ہزاروں افراد۔ میں مسجد کا پیش نماز جس کا عظیم ترین مجمع۴۰۔۵۰ ؍افراد۔ بہر حال میں نے ملاقات کا خیال ترک کردیا اور یہ طے کیا کہ مجلس بھی باہر سے سنوں گا۔ لیکن مولانا کو میری موجودگی کا علم ہوا تو طلب فرمایا۔ دسترخوان پر ساتھ ہوا۔ مجھے دیکھتے ہی فرمایا:  ’’بھائی آپ کا خط مل گیا تھا یہ تو آپ کی محبت ہے کہ آپ نے غلطیوں کو کتابت وطباعت کی طرف منسوب کردیا ہے ورنہ واقعاً وہ ہماری غلطیاں ہیں۔ ہم لوگ فقیہ نہیں ہیں۔ اپنا فرض سمجھ کر رسالہ شائع کردیا ہے۔ اب آپ پوری فہرست مرتب کردیں تاکہ اسے شائع کردیا جائے اور شرعی ذمہ داری ادا ہوجائے۔‘‘
 میرے لئے ایک کامیاب خطیب کی طرف سے اس لہجہ میں گفتگو اور وہ بھی بھرے مجمع میں ایک دوسرا سانحہ تھا اور مجمع کیلئے بھی یہ ایک عجیب طرز عمل تھا جس کے بعد مجمع کا برتاؤ میرے ساتھ اچانک عالمانہ ہوگیا اور میرے دل پر اس برتاؤ نے وہ نقش چھوڑا جو آج تک نہ محو ہوا ہے نہ ہوگا اور وہی محبت آمیز برتاؤ آج اشک افشانی کی دعوت دے رہا ہے۔
"علامہ جوادیؒ"

واقعاً خطیب اعظم و سلطان الواعظین
علامہ بے عدیل جناب مولانا سید عدیل اختر مرحوم طاب ثراہ کے انتقال پر ان کے جنازہ میں شرکت کی تو قبر کے قریب ایک مختصر مجلس سننے میں آئی۔ ذاکر مجلس ان کے عزیز شاگرد تھے اور عنوان’’کونوا مع الصادقین‘‘ تھا۔ مختصر مجلس میں موعظہ کا رنگ پہلے پہل دیکھ کر یہ فکر ہوئی کہ یہ کون صاحب ہیں جنھیں طریقۂ ذاکری کا بھی علم نہیں ہے۔ معلوم ہوا ان کا نام مولانا ’’سید غلام عسکری‘‘ ہے اور یہ مرحوم کے عزیز ترین شاگرد ہیں اور اسی شاگردی کے طفیل یہ رنگ بیان حاصل کیا ہے۔میں نے اس دور طفولیت میں جس طرح کی مجلسیں سنی تھیں۔ ان میں اس بیان کو مجلس کا نام بھی دینا مشکل تھا۔ چنانچہ جب محرم کی تعطیل کے قریب وطن گیا اور وہاں یہ خبر سنی کہ امسال محرم میں کوئی’’مولانا غلام عسکری‘‘آرہے ہیں اور انھیں سے وعدہ لیا گیا ہے۔ لکھنؤ میں قیام کی بنیاد پر مجھ سے دریافت کیا گیا کہ کیسا پڑھتے ہیں۔ مولانا ابرار حسین پاروی طاب ثراہ نے ان کا نام پیش کیا ہے۔ میں نے صاف لفظوں میں کہہ دیا کہ’’ امسال کا محرم کا خدا حافظ ہے۔ انھیں ذاکری سے کیا واسطہ ہے ۔اتنی اہم مجلس، استاد کے مرنے کی اور اس میں وعظ ونصیحت کرتے رہے۔ کراری کا ذوق سماعت بہت بلند ہے یہاں ہندوستان کا ہر بڑا ذاکر آچکا ہے۔ ایسے لوگوں کو گزر نہیں ہے۔‘‘
لوگوں نے مایوسی کا اظہار کیا اور کہا کہ اب تو وعدہ ہوچکا ہے۔ اللہ مالک ہے۔ محرم آگیا اور مولانا بھی آگئے۔ آیت مودت پر عشرہ شروع کیا اور میری یادداشت میں کراری میں اتنا کامیاب عشرہ کسی کا نہیں ہوا۔ میرے ہوش سے پہلے ضرور ہوا ہوگا لیکن میرے سامنے نہیں ہوا۔ موعظہ کا رنگ وہاں بھی تھا لیکن مجمع تھا کہ بات بات پر داد وتحسین کا نعرہ بلند کرتا رہا۔
کراری سے ۷؍میل کے فاصلہ پر منھجن پور ایک قصبہ ہے ۔ مولانا سے وہاں کا بھی وعدہ ہوگیا۔منجھن پور میں بعد نماز مغربین ۸ سے ساڑھے نو اور پھر کراری میں ۱۱ بجے رات کو مجلس ہوتی رہی۔ برسات کازمانہ ،کچا راستہ، یکہ کاسفر، رات کا وقت، اندھیری رات ایک آدمی مع بندوق کے ساتھ اور پھر ایک مجلس سے دوسری مجلس اور ایسا کامیاب بیان ۔نتیجہ یہ ہوا کہ مومنین کراری کے دل پر یہ مجالس اس طرح نقش ہوگئیں کہ آج تک وہ نقش دھندلا نہیں ہوسکا۔
میرے لئے یہ مجلسیں بالکل خلاف توقع تھیں اس لئے ذہن پر کچھ زیادہ ہی اثر ہوا اور واپس آکر میں نے سارے مدرسہ میں اعلان کردیا کہ مولانا غلام عسکری سلطان الواعظین خطیب اعظم ہیں۔
"علامہ جوادیؒ"

دوسروں کے مال کا خیال
خطیب اعظم مرحوم کی انفرادیات میں یہ احتیاط یا جزرسی بھی شامل تھی کہ مال امامؑ یا مال مومنین کا ایک پیسہ بھی ضائع نہ ہونے پائے۔ چنانچہ اگر کسی مقام پر کتابوں کا بنڈل لاد کر لے جاتے تھے تو حتی الامکان قلی کا سہار ا نہیں لیتے تھے اور اگر مجبوراً قلیوں کا سہارا لے لیا تو دفتی اور ستلی بھی ضائع نہیں کرتے تھے اور اپنے ہمراہ دفتر واپس لاتے تھے کہ یہ دوسرے کا مال ہے اس کا بیجا استعمال جائز نہیں ہے اور نہ اسے ضائع کیا جا سکتا ہے۔ اس سلسلہ میں اکثر استہزاء اور تمسخر کا بھی سامنا کرنا پڑتا تھا لیکن ان کی صحت پر ان باتوں کا ہرگز کوئی اثر نہیں تھا۔
"علامہ جوادیؒ"

دیانت داری
 ایک بزرگ نے سرکار خطیب اعظم کو خط لکھا۔ خط کے لکھنے والے بزرگ بھی کسی زمانہ میں شیعہ یتیم خانہ کے آنریری جنرل سکریٹری رہ چکے تھے اور خط شیعہ یتیم خانہ کے پرانے لیٹر پیڈ پر لکھا گیا تھا۔ مولانا غلام عسکری صاحب کے مزاج کی برہمی کے لئے یہ بات کافی تھی۔ حیرت اور تعجب کے ساتھ کم از کم اس واقعہ کا تذکرہ انہوں نے دس بار مجھ سے کیا ہوگا! پوچھتے تھے کیا تم بتا سکتے ہو کہ یہ لیٹر پیڈ ان کے پاس کیوں ہے اور اس کے استعمال کا ان کو کیا حق ہے کیا انہیں خدا کو منہ نہیں دکھانا ہے؟؟ 
"رئیس الواعظینؒ"

ورق کا پیسہ اپنی جیب سے
ایک دن ایک صاحب تنظیم کے دفتر تشریف لائے کئی قومی ادارے جن کی تحویل میں ہیں۔انہوںنے دفتر کی میز سے کاغذ لیا اور اس پر خط لکھا۔ خطیب اعظم نے ان صاحب سے فرمایا کہ آپ اس ایک ورق کا پیسہ دیدیں۔ مگر انہوں نے ہنس کر آپ کی بات کو نظر اندازکردیا تو سرکار خطیب اعظم نے اپنی جیب سے پیسہ دے کر رسید کٹوالی۔
"رئیس الواعظینؒ"

تواضع و انکساری
امین آباد سے رکشہ کے اوپر ایک نداف کے ساتھ نہایت سکون و اطمینان سے جوہری محلہ تک آئے۔ نداف کے ساتھ روئی دھنکنے کا سامان بھی تھا۔ میں نے پوچھا: راستہ میں لوگ آپ کو حیرت اور تماشہ کی نظر سے دیکھتے رہے ہوں گے کیا اس کو ساتھ رکشہ پر بٹھا کر لانا ضروری تھا؟ فرمایا: ’’چھوڑو! ان باتوں میں کیا رکھا ہے۔ عزت وہی ہے جو اللہ دیتا ہے۔ کسی انسان کو ذلیل سمجھنے کا کسی کو کیا حق ہے وہ جائز روزی کماتا ہے اس کے ساتھ بیٹھ کر آنے میں کون سی قیامت تھی؟!‘‘
"رئیس الواعظینؒ"

تعلیم و تربیت
ڈپٹی سید محمد نقی صاحب مرحوم نے خدا سے جیسے یہ عہد ہی کرلیا تھا کہ بچوں کو صرف وصرف دینی تعلیم دلاؤں گاجبکہ تعلیم دنیا کے لئے پورا موقع حاصل تھا۔ جنہوں نے مولانا غلام عسکری صاحب مرحوم کے پدر بزرگوار ڈپٹی صاحب مرحوم کو دیکھا ہے وہ اس بات کی تصدیق کریں گے کہ باوجود انگریزی کے فاضل ہونے کے گفتگو میں کہیں سے انگریزی کی چھاؤن بھی نہ آنے پاتی تھی۔وضع قطع ،مولوی جیسی کرتے پائجامے شیروانی میں ملبوس گھر سے نکلنے پر شیروانی جز لاینفک، عابد، پرہیزگار ،شب زندہ دار ،سادہ معمولی پہننا کھانا۔ اعزہ کے حقوق کالحاظ کنبہ پروری آپ کی صفتیں تھیں۔ پہلے اپنے ساتھ رکھ کر پرائیویٹ ابتدائی عربی قواعد کی تعلیم دلائی۔نحومیرتک پڑھانے کے بعد ناظمیہ میں داخل فرمایا۔ کھانے پینے کے مصارف خود برداشت فرمائے۔ مدرسہ کا وظیفہ کھانے پر نہیں پڑھایا۔ رہا انعامی وظائف کا قبول کرنا تو یہ قابل طالب علم کا اپنا حق ہے۔ خدا داد استعداد سے کامیابی کے ساتھ تعلیمی درجات طے کئے۔ قابل، فاضل، ضمیمہ فاضل یہاں تک کہ ممتاز الافاضل کے آخری درجہ میں تیزی سے پہونچ گئے اور آخری سند حاصل فرما کر مدرسۃ الواعظین میں داخل ہوگئے۔ اس نظام تعلیم میں اچھے اچھے اساتذہ سے تلمذ حاصل ہوا، یہاں تک کہ جناب مفتی سید احمد صاحب اعلی اللہ مقامہ کے ہاتھوں سے فضیلت کی سند حاصل کی۔
"مولانا کاظم رضا مرحوم"

تبلیغ کی دُھن
میں جعفر آباد قصبہ جلال پور مولانا غلام عسکری صاحب مرحوم کے قیام کے زمانہ میں تبلیغی دور ہ کرتے ہوئے پہونچا۔ اس وقت مرحوم اپنی سربراہی میں مدرسہ جعفریہ جعفر آباد کو سنوار اور نکھار رہے تھے ۔ مدرسہ کے استحکام اور اس کے مالیات کی مضبوطی کیلئے کوشاں تھے۔بچوں کو دینی تعلیم دئے جانے کے ساتھ ان کی اخلاقی تربیت پر توجہ مرکوز تھی۔قیام سیٹھ امجد صاحب کے امام باڑہ میں تھا۔رات کو ۹۔۱۰ بجے شبینہ اسکول امامباڑہ کے چوک کے سامنے لگتا تھا جس میں بالغان،بے پڑھے، کم پڑھے، پڑھے سب طرح کے لوگ جمع ہوتے ۔کوئی قاعدہ ،کوئی پارہ،کوئی قرآن، کوئی دینیات،کوئی مسائل جعفریہ، کوئی تحفۃ العوام، کوئی جوہر قرآن کتابیں پڑھتا اور مولانا سے پوچھتا اور سمجھتا تھا۔ پیچیدہ مسائل پوچھنا جعفر آباد کے خصوصیات سے ہے۔۱۲بجے رات تک یہ نشست رہتی۔ بیچ میں جب کچھ تھکنے لگے تو کسی ایک مومن کی طرف سے سلیمانی چائے کا دور چل گیا مجھے۔ دو چار ہی دن قیام کا موقع ملا اس دینی چرچے سے کافی خوش ہواآج تک اس کا مزہ محسوس کرتا ہوں۔
"کاظم رضا صاحب"

للٰہیت اور سادگی
سیتھل کی کانفرنس کے خاتمہ پر رات ہی میں جناب مولانا سید غلام عسکری صاحب مرحوم اور برادر محترم مولانا مرتضیٰ جعفری صاحب لکھنؤ کے لئے چل پڑے۔ تقریباً ۱؍ بجے شب میں جیپ سے بریلی اسٹیشن پر پہونچے ۔ تقریباً ڈیڑھ بجے ٹرین آئی اور ہم لوگ ایک تھری ٹائر بوگی میں داخل ہوئے ۔ سبھی مسافر محو خواب تھے۔ کوئی برتھ خالی نہ تھی ۔ کنڈکٹر نے سختی سے اتارنے کی دھمکی دی مگر مولانا نے اس سے اس انداز سے گفتگو کی کہ وہ راضی ہوگیا۔ میں نے دیکھا کہ ایسا باعمل عالم جلیل مسافروں کے جوتے ہٹا کر ایک معمولی سی چادر بچھا کر بلا تکلف لیٹ گیا۔ ہم دونوں بھی اسی طرح سیٹوں کے درمیان لیٹ گئے۔ نیند کسے آتی تھوڑی دیر میں میں خود اٹھا تو دیکھا کہ مولانا نماز شب پڑھ رہے ہیں۔ صبح لکھنؤ پہونچ کر ہم لوگ سیدھے تنظیم کے دفتر پہونچے۔
"مولانا عابد حسین صاحب مرحوم"

جوان اور نماز شب
 ایک عرصے کی بات ہے۔ بہرائچ میں سالانہ مجلسوں کے دوران سردیوں کی رات میں پچھلے پہر کو ایک جوان کو دیکھا جو نماز شب پڑھ رہا تھا۔ سرکار خطیب اعظم نے مجھے متوجہ کرتے ہوئے فرمایا: ’’اللہ والے ایسے ہوتے ہیں۔ کیسے ہیں وہ عربی طالب علم جو نماز شب نہیں پڑھتے۔ میں ان ذاکروں کو کیا کہوں جن کی زبان پر بھی نماز شب کا نام نہیں آتا ہم سب کو عبرت حاصل کرنا چاہئے اس جوان سے جو آیا ہے مجلس سننے مگر نماز شب سے غافل نہیں ہے۔‘‘ 
"رئیس الواعظین ؒ"

برملا اعتراف!
مچھلی گاؤں میں مولانا وزیر حسن مرحوم کے ایصال ثواب کے سلسلہ میں ہورہی تھی۔ قرب و جوار کا کثیر مجمع وہاں مجلس میں موجود تھا۔ مولانا مرحوم ذاکری فرمارہے تھے۔ اب انداز بالکل بدل چکا تھا نہ خطابت تھی نہ گل بوٹے تھے نہ مطاعن تھے، موعظہ اورخالص موعظہ ہورہا تھا۔ درمیان مجلس فرمانے لگے کہ ’’میں برسر منبر اعتراف کرتا ہوں کہ پچھلے تیس برسوں میں مجھ سے کوتاہی ہوئی ہے اور میں نے ایک ضروری جزو سے غفلت برتی ہے۔ مجھے فضائل و مصائب کے ساتھ ساتھ اسی طرح کی ذاکری کرنی چاہئے تھی۔‘‘ میں ان کے برملا اعتراف پر حیرت زدہ رہ گیا۔ 
"حکیم علی حیدر زیدی صاحب مرحوم"

ہمارے ولی اور سرپرست امام زمانہ ہیں
جس زمانہ میں بعض کرم فرماؤں نے تنظیم المکاتب کے تعاون سے ہاتھ روک لیا تھا اس وقت یہ ادارہ ایکایک مالی بحران کا شکار ہوگیا ۔ اس وقت ہم لوگ (مولانا سید وزیر حسن صاحب، مولانا سید شمیم عالم صاحب قبلہ بمبئی، مولانا سید محمد رضوی صاحب قبلہ کناڈا، اور یہ حقیر ) قم میں تعلیم حاصل کر رہے تھے جہاں تک مجھے یاد ہے کہ انھیں دنوں علامہ جوادی زیارت کے لئے قم تشریف لائے تھے۔دوران گفتگو یہ بات نکل آئی ۔ اس وقت ہم لوگوں نے خطیب اعظم طاب ثراہ کی خدمت میں خط لکھاا ور حالات دریافت کئے۔ خطیب اعظم طاب ثراہ نے جواب میں تحریر فرمایا کہ ’’ہاں بحرانی حالات ضرور ہیں لیکن ہم پریشان نہیں ہیں کیونکہ ہمارے ولی اور سرپرست امام زمانہ(عج) موجود ہیں جو ہمارے کام کو دیکھ رہے ہیں۔ وہ یقینا ہماری مدد فرمائیں گے۔ہم نے یہ مشکلات انھیں کے سپرد کر دی ہیں اس کو یقیناحل فرمادیں گے۔ ہم لوگ تو ان کے ادنیٰ خادم ہیں۔‘‘
جب ہم لوگ ہندوستان واپس آئے تو خطیب اعظم طاب ثراہ کو بارہاببار یہ فرماتے سنا کہ جب سے تنظیم المکاتب حضرت امام زمانہ(عج) کے حوالہ کیا ہے مشکلات خود بخود حال ہوجاتی ہیں۔
"مولانا سید احمد علی عابدی صاحب"

میں تو پردہ کرتا ہوں!
خطیب اعظم مرحوم کی ایک اور خصوصیت سماج میں پھیلی ہوئی بے پردگی کی بے ہودہ رسم کو ختم کرنے کا عزم تھا۔ عام طور سے عملاً وہ خاموش احتجاج کیا کرتے تھے۔ مومنین لندن جب بھی انھیں نجی محفلوں میں دعوت طعام دیا کرتے تھے تو وہ کبھی مخلوط دسترخوان پر کھانا نہیں نوش فرماتے تھے اور اگر کسی نے ڈھٹائی سے کہا بھی کہ مولانا میری بیگم تو پردہ نہیں کرتیں آفس میں کام کرنے جاتی ہیں تو آپ کے ساتھ دسترخوان پر شریک ہونے میں کیا مضائقہ ہے؟! تو نہایت استقامت سے صاف لفظوں میں فرماتے تھے کہ’’ وہ پردہ نہیںکرتیں تو کیا ہوا ،میں تو پردہ کرتا ہوں۔‘‘ 
"سید تنویر اختر نقوی۔ لندن"

قبر میں اعمال کام آئیں گے!
 میں کراچی میں ایک صاحب کے یہاں مقیم تھا۔ مولانا غلام عسکری صاحب مرحوم ملنے کیلئے آگئے۔ دوپہر کا وقت تھا۔ صاحب خانہ کی ہمت نہیں تھی کہ بلا دعوت دیئے کھانے کی پیشکش کرسکیں۔مرحوم نے فرمایا :’’ آپ پریشان نہ ہوں ۔مولانا کا کھانا لے آیئے میں اسی میں سے کھالوں گا۔ ‘‘ان کی حیرت اور مسرت کی انتہا نہ رہی کہ کراچی کے ماحول میں ایک خطیب اعظم کے بارے ایسا تصور بھی شاید جرم ہو۔ کھانے کے بعد میں نے کہا کہ آرام فرمایئے۔ تھوڑی دیر باتیں رہیں گی۔ صاحب خانہ پلنگ اور بستر کے اہتمام میں لگ گئے اور مرحوم صوفہ سے تکیہ کھینچ کر زمین پر دراز ہوگئے۔ میں حیرت میں تھا کہ پلنگ پر کیسے لیٹوں اور انھیں زمین پر کیسے لیٹنے دوں۔ فرمایا:’’ آپ تو جانتے ہیں کہ ہم لوگ شخصیت سازی کیلئے نہیں پید اہوئے ہیں۔ قبر میں اعمال کام آئیں گے۔ پلنگ اور بستر کام نہیں آئے گا۔ ‘‘صاحب خانہ اس انداز سے اس قدر متاثر تھے کہ اکثر اس سادگی کا تذکرہ کرتے تھے ۔
"علامہ جوادیؒ"

برعکس نتیجہ!
 ایک مقام پر حسینؑ ڈے کے اجتماع میں ایک ذاکر نے سرکار خطیب اعظم سے گفتگو کرتے ہوئے ان کے بد ترین دشمنوں کو ان کے کان کے پاس منھ کر کے آہستہ سے گالی دی۔ گالی دینے والے نے یہ سمجھا تھا کہ میں ان کے دشمنوں کو گالی دے رہا ہوں، یہ خوش ہوں گے مگر نتیجہ اس کے برعکس ظاہر ہوا۔ سرکار خطیب اعظم کے چہرے پر شدید ناگواری کے اثرات ظاہر ہوئے اور وہاں سے اٹھ کر وہ میرے قریب آکر بیٹھ گئے۔ جب گالی دینے والے ذاکر تقریر کے لئے کھڑے ہوئے تو خطیب اعظم کھڑے ہوگئے اور مجھ سے فرمایا چلو۔ کمرہ میں آکر بیٹھ گئے۔ میں نے دریافت کیا: یہ آپ کو کیا ہوا؟ تو فرمایا کہ ایسے غلیظ الفاظ استعمال کرنے والے کو امام حسین- کا نام لینے کا کیا حق ہے؟
"رئیس الواعظینؒ"

بے ادبی حق کو ضائع نہیں کرسکتی!
احتیاج وضرورت کی آگ میں جلے ہوئے ایک چڑ چڑے سید صاحب نے بانی تنظیم سے ایک اچھی خاصی رقم کا مطالبہ کیا۔ مطالبہ کا لہجہ تحکمانہ بلکہ بے ادبانہ تھا۔ ایک صاحب جو ان سید صاحب کو جانتے تھے، نے منع کیا کہ آپ ایسے بدتمیز کو ایک پیسہ بھی نہ دیں۔ فرمایا: نہیں، آپ یہ بتائیں کہ وہ مستحق ہیں یا نہیں؟ان صاحب نے جواب دیا کہ خیر ہیں تو مستحق۔ خطیب اعظم نے فرمایا: ’’تب تو رقم دینی ہی چاہئے ۔اس کی بے ادبی اس کے حق کو ضائع نہیں کرسکتی۔‘‘
"رئیس الواعظینؒ"

وہ عورت، عورت نہیں۔۔۔!
ایک پلیٹ فارم پر چند رشتہ دار خواتین کو دیکھ کر خطیب اعظم مرحوم نے مولانا سید کرار حسین صاحب قبلہ سے چندہ وصول کرنے کا حکم دیا۔ خواتین نے خطیب اعظم کا نام سن کر کچھ پیشے دیدئیے۔ موصوف نے فرمایا کہ اور مانگو۔ خواتین نے معذرت کی کہ سفر میں اس سے زیادہ پیسہ نہیں دیا جا سکتا ہے۔ مرحوم نے فرمایاکہ جاکر یہ پیغام کہدو کہ ’’وہ عورت ، عورت نہیں ہے جو پیسہ چھپا کر نہ رکھے۔ لہٰذا اس رقم میں سے دیجئے۔‘‘ خواتین نے اس نکتہ کو بیحد پسند فرمایا اور مزید رقم عنایت فرمادی۔
"علامہ جوادیؒ"

سیرت و شخصیت بانی تنظیم ؒواقعات کی روشنی میں
خطیب اعظم،بانیٔ تنظیم مولانا سید غلام عسکری اعلیٰ اللہ مقامہ


 

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .