حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے 28 مارچ 2017 کو معرکہ مسجد گوہر شاد سے متعلق تاریخی دستاویزات اور قدیمی فنپاروں کی نمائش کا معائنہ کیا۔ اور منتظمین کے درمیان مختصر تقریر کی۔ جسے ہم "اس خطاب کا متن مسجد گوہر شاد میں جولائی 1935 عیسوی میں حجاب پر پابندی عائد کرنے کے حکومتی فرمان کے خلاف احتجاج کرنے والے عوام کے قتل عام کی برسی کے موقع پر" قارئین کے لئے شائع کر رہے ہیں۔
بسم الله الرّحمن الرّحیم
برادران عزیز کا شکریہ ادا کرتا ہوں، اسی طرح جناب جلیلی صاحب (1) کا شکر گزار ہوں، واقعی آپ نے بڑی زحمت اٹھائی، ایک نیا کام انجام دیا۔ یہ بڑے افسوس کا مقام ہے کہ مسجد گوہر شاد کا سانحہ اتنا عظیم اور اتنا اہم ہونے کے باوجود ہماری تاریخ میں، ہمارے ادبیات میں اور ہمارے ناولوں میں کوئی جگہ نہیں پا سکا۔ الحمد للہ آپ نے بڑا اچھا قدم اٹھایا ہے۔ جہاں تک میں نے نمائش دیکھی اور جو اس حقیر کا ادراک ہے اس کے مطابق میرے خیال میں یہ بڑی دلچسپ اور اچھی نمائش ہے۔ مصوری اور عکس نگاری کا کام بھی اسی طرح رپورٹ اور بیانیہ کا حصہ بھی بہت اچھا تھا۔ میں دو تین نکات عرض کرنا چاہوں گا۔
پہلی چیز مسجد گوہر شاد کے مسئلے کے تعلق سے ہے۔ جس کتاب کا ذکر جناب وحید جلیلی نے کیا اس کے علاوہ بھی کتابیں ہیں۔ ایک کتاب (3) ہے جو ناول اور افسانے کی شکل میں لکھی گئی ہے، لیکن وہ اسی سانحے کی تاریخ بیان کرتی ہے۔ میں نے وہ کتاب پڑھی ہے، میں جانتا ہوں۔ میرے ذہن میں جو اطلاعات تھیں ان سے یہ کتاب مطابقت رکھتی ہے۔ وہ کتاب اسی مسجد گوہر شاد کے سانحے کو بیان کرتی ہے کچھ مقدمے اور تتمے کے ساتھ۔ ان تمام شخصیات کے نام اس میں درج ہیں اور واقعات کو بالکل صحیح انداز میں بیان کیا گيا ہے۔ وہ کتاب میرے پاس ہے۔ ایک کتاب تو یہ ہے۔ ایک کتاب اور بھی ہے جو میں نے ایک دو سال قبل پڑھی۔ اس کتاب میں بھی 1935 کے مسجد گوہر شاد سانحے سے متعلق حقائق کو تفصیل سے مقدمات اور تتمے کے ساتھ تحریر کیا گيا ہے۔ مثال کے طور پر جو نشستیں آقازادہ مرحوم (4) کے گھر میں ہوتی تھیں یا مثال کے طور پر پرانے صحن میں، صحن انقلاب میں جو کچھ ہوا، یا یہ کہ بہلول پہلے کہاں گئے، پھر کہاں آئے، اس کے بعد کیا ہوا؟ یہ ساری تفصیلات موجود ہیں۔ اسی طرح خود بہلول نے جو سرگزشت لکھی ہے اس میں بھی آغاز میں ہی ان کا ذکر ہے۔ البتہ میں نے وہ کتاب نہیں پڑھی ہے جس میں بہلول نے یادگار واقعات لکھے ہیں، لیکن چونکہ میں نے خود ان کی زبان سے یہ واقعات سنے ہیں اس لئے جانتا ہوں کہ جو چیزیں میں نے سنی ہیں وہ اس کتاب میں ہیں۔ البتہ وہ کتاب کچھ عرصہ میرے پاس تھی۔ شائع ہونے سے پہلے وہ کتاب مجھے انھوں نے دی تھی۔ انھوں نے ان دو تین دنوں کے واقعات کو، جب وہ یہاں تھے اور منبر پر تھے، پہلے مسجد گوہر شاد میں، پھر قدیمی اور نئے صحن میں اور اس کے بعد دوبارہ مسجد گوہر شاد میں، اس کے بعد وہ فرار ہوئے اور یہاں سے چلے گئے، گمان غالب یہ ہے کہ کتاب کے مقدمے میں اسے بیان کیا ہے۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ دوسری کتابیں بھی موجود ہیں۔ البتہ جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ ایک کتاب ہے جو اس سانحے کی تاریخ اور دستاویز کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس کتاب کا ایک حصہ شیخ احمد بہار مرحوم کے نوٹس پر مشتمل ہے۔ شیخ احمد بہار (5) مشہد کے معروف ناول نگار تھے جو ان تمام واقعات کے شاہد ہیں۔ وہ اخبار بھی نکالتے تھے تاہم انھوں نے ان ایام میں کسی وجہ سے اپنے اخبار کی اشاعت روک دی تھی۔ وہ داستان واقعے کا اصلی متن تھی۔ جس کتاب کی میں بات کر رہا ہوں اس کا ایک حصہ ان کی یادوں پر مشتمل ہے۔ انھیں آپ تلاش کیجئے۔
دوسرا نکتہ یہ ہے کہ اس بات پر بھی غور کیجئے کہ مسجد گوہر شاد کا سانحہ پیش کیوں آیا؟ اسے ہم ہرگز فراموش نہ کریں۔ اس کا مرکزی نقطہ تھے الحاج آقا حسین قمی مرحوم (6)۔ الحاج آقا حسین قمی مرحوم نے حجاب پر پابندی لگائے جانے کے مسئلے میں کہا کہ میں جاکر رضا شاہ سے بات کروں گا اور اسے بات ماننے پر مجبور کروں گا۔ اسی ارادے سے وہ مشہد سے تہران پہنچے۔ البتہ جب آپ تہران پہنچے تو حکومتی کارندے آپ کو شاہ عبد العظیم لیکر چلے گئے اور وہیں روکے رکھا اور شاہ نے ملاقات بھی نہیں کی۔ البتہ آپ نے کہا تھا کہ میں جا رہا ہوں اور جاکر اس سے کہوں گا، اگر اس نے بات مان لی تب تو ٹھیک ہے ورنہ اگر اس نے بات نہ مانی تو وہیں اس کا گلا گھونٹ دوں گا، اسے مار ڈالوں گا۔ اس ارادے سے گئے تھے لیکن ملاقات نہیں ہو پائی۔ پھر وہیں سے انھیں جلا وطن کرکے عراق بھیج دیا گیا۔ جس وقت آپ تہران میں تھے اسی دوران مشہد کے علماء مسجد گوہر شاد میں اس مطالبے کے ساتھ جمع ہوئے کہ ایک تو الحاج آقا حسین مشہد واپس آئيں اور دوسرے یہ کہ الحاج آقا حسین کا جو مطالبہ ہے وہ پورا کیا جائے۔ مسجد گوہر شاہد میں علماء کا احتجاجی اجتماع اسی وجہ سے ہوا تھا۔ یعنی الحاج آقا حسین قمی مرحوم کے کردار کو فراموش نہیں کیا جانا چاہئے۔ واقعی ایک نڈر اور مجاہد فی سبیل اللہ عالم دین تھے جو موت کے منہ میں جانے سے بھی نہیں ڈرتے تھے، ان کو کوئی ہچکچاہٹ نہیں تھی۔ یہاں سے جب وہ گئے تو بالکل اکیلے گئے۔ اپنے ساتھ کوئی لاؤ لشکر لیکر نہیں گئے تھے۔ غالبا صرف ان کے دو بیٹے ساتھ تھے۔ یہ قابل توجہ نکتہ ہے۔
اگلا نکتہ یہ ہے کہ آقازادہ مرحوم کو بھی فراموش نہیں کیا جانا چاہئے۔ آقازادہ کا مسجد گوہر شاد کے واقعے میں کوئی کردار نہیں تھا، لیکن دربار سے وابستہ سسٹم نے انھیں مورد الزام قرار دیا۔ بعد میں اسی الزام کی بنیاد پر آقازادہ کو جو مشہد میں بڑی شان و شوکت کے مالک تھے، کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ حکومتی کارندہ آقازادہ کے گھر جانے کی ہمت کر سکتا ہے، یعنی کسی حکومتی کارندے کے پاس اتنی جرئت ہی نہیں ہوتی تھی کہ آقازادہ کے گھر جائے، بہرحال کارندے ان کے گھر گئے، انھیں گھر سے باہر گھسیٹ لیا، مناسب لباس تک پہننے کی اجازت نہیں دی، انھیں مشہد سے اٹھاکر پہلے تو یزد لے گئے، وہاں کچھ عرصہ رکھا اس کے بعد وہاں سے تہران لے گئے اور اس کے ایک دو سال بعد انھیں زہر دیکر شہید کر دیا۔ آپ دیکھئے کہ مسجد گوہر شاد کے قضیئے سے تعلق رکھنے والے یہ اہم لوگ ہیں۔
ایک اور نکتہ یہ ہے کہ آپ دیکھئے کہ کبھی تو مسجد گوہر شاد کے اس سانحے کو تاریخ کے ایک بڑے سانحے کے طور پر آپ دیکھتے ہیں، وہ یہی تو ہے، یہی سانحہ تو ہے جس کی اس طرح تصویر کشی کی جاتی ہے۔ یعنی مومنین کی ایک تعداد ایک مقصد کے تحت ایک مقدس جگہ پر جمع ہوئی، حکومتی کارندوں نے ان پر حملہ کر دیا اور انھیں قتل کر ڈالا۔ البتہ قتل عام صرف مسجد گوہر شاد میں نہیں ہوا تھا، بلکہ باہر بھی اس اسکوائر پر، وہ پرانا اسکوائر جو اب موجود نہیں ہے، سڑک سے متصل پناہ گاہ میں، تہران روڈ کے سامنے، یعنی جو امام رضا علیہ السلام روڈ ہے اس کے سامنے، ان ساری جگہوں پر لوگوں کو قتل کیا گيا تھا۔ یہی مسجد گوہر شاد کا جنوبی دروازہ جو اب بند کر دیا گیا ہے اور اس کی جگہ صحن قدس تعمیر کر دیا گيا ہے، پہلے وہاں صحن قدس کے بجائے ایک راہداری تھی جو آکر مسجد گوہر شاد سے متصل ہو جاتی تھی، اسی راہداری میں بہت سے لوگوں کو مار ڈالا گيا تھا۔ مجھے نہیں پتہ کے ان واقعات کو میں نے کہاں پڑھا، اس وقت یاد نہیں آ رہا ہے لیکن مجھے معلوم ہے کہ وہاں کچھ لوگوں کو قتل کر دیا گیا تھا۔ کچھ لوگوں نے بتایا کہ ہم لوگ گھروں کی چھت سے دیکھ رہے تھے کہ لوگوں کو قتل کر رہے ہیں، نیم مردہ حالت میں لوگوں کو ٹرکوں پر لاد کر لے جا رہے ہیں اور علم دشت نام کے علاقے میں اسی حالت میں دفن کر رہے ہیں۔ وہی باتیں جو بہت مشہور ہیں۔ بہرحال ایک زاویہ نظر یہ ہے، یعنی حجاب پر پابندی کے نتیجے میں پیش آنے والے واقعے کو ایک سانحے کے طور پر دیکھا جائے۔