۹ فروردین ۱۴۰۳ |۱۸ رمضان ۱۴۴۵ | Mar 28, 2024
News ID: 370391
13 جولائی 2021 - 23:19
مدافعین حرم

حوزہ/ عصرِ عاشور امام کے صدائے استغاثہ کے یہ جملے آج بھی موجود ہیں اب ہمیں اپنا وظیفہ خود معلوم کرنا ہے کہ ہم آج کی کربلا میں کیا کردار ادا کرسکتے ہیں ورنہ تاریخ گواہ ہے کہ قافلہ حسینی میں صرف وہی لوگ شامل ہو سکے جو سبک رفتار تھے۔

تحریر: خواہر سویرا بتول 

حوزہ نیوز ایجنسی مدافعین حرم یعنی وہ مٹھی بھر عشاق جنہوں نے اپنے لہو سے حرم رسول کا دفاع کیا۔ یہ جوان ایمان، عشق اور فداکاری سے لبریز تھے اور شہادت جیسے رزق کو پا چکے تھے۔ انہوں نے زمانے کی تمام تر مصلحتوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے خود کو وقت کے حسین علیہ سلام تک پہنچایا۔ 

آج اگر دشمن کے مقابل اسلامی مقاومت کی دیوار کھڑی ہے تو اس کا سبب یہ جوان ہیں، مدافعینِ حرم نے اسلامی مقاومت کو تقویت بخشی اور آج یہ اسلامی مقاومت ایک سرزمین تک محدود نہیں بلکہ یہ پیغام سرحدوں کی قید سے بالاتر ہوکر پوری دنیا میں حریت و استقامت کا پیغام دے رہا ہے، اسلامی مقاومت نے ہی اسرائیلی خونخوار لشکروں کا راستہ روک کر کہا جس طرح دین اسلام نے تمہیں مدینے میں شکست دی اسی طرح جزیرہ عرب کے ہر خطے پر تمہیں شکست ملے گی اور لعنت کا طوق تمہارے گلے میں لٹکا دیا جائے گا، کیونکہ اسلام مقاومت کا دین ہے، اسلام شوق شہادت کا دین ہے اسلام دنیاداری اور عیش و عشرت کا دین نہیں، اسلام ہر ظلم کے خلاف ڈٹ جانے کا نام ہے، مدافعینِ حرم نے سب سے بڑے خونی لشکر سے ٹکڑا کر اسلام اور اسلامی مقاومت کا معنی سمجھا دیا کہ جو بھی خود کو دیندار ثابت کرنا چاہتا ہے وہ شہادت کا راستہ تھامے، وہ حسینی بن کر یزید سے برسرپیکار رہے۔

مدفعین حرم کے متعلق جب بعض احباب یہ کہتے دیکھائی دیتے ہیں کہ آج کونسی جنگ جاری ہے جو آپ تکرار کے ساتھ اسلامی مقاومت اور مدافعین حرم کا ذکر کرتے ہیں؟ ہر وقت تکرار کیساتھ شہادت کا تذکرہ کیوں کیا جاتا ہے؟ بھلا اب کونسی کربلا برپا ہے؟

ہم اپنی کم علمی کے باعث سمجھتے ہیں کہ شہادت کا دروازہ بعد از کربلا بند ہوگیا جبکہ حقیقت میں بابِ شہادت عصرِ عاشور کھلا جب سبطِ پیغمبر نے ھل من ناصر ینصرنا کا استغاثہ بلند کیا۔ کیا امام عالی مقام علیہ سلام نہیں جانتے تھے کہ سب ساتھی قتل ہوچکے ہیں اور اب ان کے سامنے دشمن کی قابلِ نفرت اور نمارتگر فوج کے علاوہ اور کوئی نہیں تو آپ نے کیوں فرمایا کہ کیا کوئی ہے جو میری مدد کرے؟ درحقیقت امام نے یہ سوال انسان کے مستقبل کی تاریخ سے کیا ہے۔ اس سوال کے مخاطب مستقبل اور ہم لوگ ہیں اور اس سوال سے ظاہر ہوتا ہے کہ امام اپنے محبان سے کیا توقع رکھتے ہیں۔آج بھی حرم زینبی جل رہا ہے۔ آج بھی العش اور ھل من ناصر ینصرنا کی صدائیں بلند ہو رہی ہیں، یہ الگ بات ہے کہ ہم اپنی دنیاداری میں مصروف ہیں۔ درحقیقت ہمارے شہداء کا خون شہدائے کربلا کے خون کا تسلسل ہے اور میدان کربلا آج بھی موجود ہے۔ 

کیا کوئی ایسا ہے جو رسول اللہ ؐ کی حرمت کادفاع کرے؟ کیا کوئی توحید پرست ایسا ہے جو ہمارے بارے میں خداسے ڈرتا ہو؟ کیا کوئی فریاد سننے والا ہے جو ہماری فریاد سن کر خدا سے اجر و ثواب کی امید رکھتا ہے؟ کیا کوئی مدد کرنے والا ہے جو ہماری مدد کرکے خدا کے یہاں موجود صلے کی تمنا رکھتا ہو؟
عصرِ عاشور امام کے صدائے استغاثہ کے یہ جملے آج بھی موجود ہیں اب ہمیں اپنا وظیفہ خود معلوم کرنا ہے کہ ہم آج کی کربلا میں کیا کردار ادا کرسکتے ہیں ورنہ تاریخ گواہ ہے کہ قافلہ حسینی میں صرف وہی لوگ شامل ہو سکے جو سبک رفتار تھے۔

مدافعین حرم نے اسلامی مقاومت کی تاریخ کو از سر نو تازہ کیا ۔تاریخ نے دیکھا کہ ظلم و ستم کے آگے مقاومت کی بہت بڑی اہمیت ہے، یہی مقاومت ہے جس کی برکت سے یمن نے بغیر حکومت اور کم وسائل کے باوجود بھی اپنا دفاع کیا ہے جبکہ ایک نہیں کئی ملکوں کی افواج نے مل کر ان پر حملہ کیا اور ابھی بھی ظلم و ستم جاری رکھا ہوا ہے۔ رہبر معظم اسی مقاومت کی اہمیت کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ظلم و ستم کے مقابلے میں اگر کوئی راہ ہم جانتے ہیں تو وہ یہی مقاومت کی راہ ہے اور مجاہد جب مقاومت کی راہ میں اترتا ہے تو در واقع خدا ہی اسی کی مدد کر رہا ہوتا ہے، وہ اگر دشمن پر وار کرتا ہے اور راکٹ پھینکتا ہے تو قرآنی منطق کے مطابق خدا ہی ہے جو یہ کام انجام دیتا ہے اور اس دشمن کو نابود کرتا ہے۔ اور آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ اسلامی مقاومت کے آگے دشمن، استکبار اور صہیونی طاقت کس طرح کمزور ہوتی چلی جا رہی ہے اور بلاشبہ یہ شہدائے مدافعین کے مرہونِ منت ہے۔

مدافعینِ حرم کے مٹھی بھر عشاق نے درحقیقت ایسے وحشی دشمن سے دفاع کیا کہ جس نے کروڑوں انسانوں کے سامنے سینکڑوں بے گناہ انسانوں کو اپنے تکفیری جہالت کے خنجر سے ذبح کیا۔یہ لوگ ان کی جہالت کی آگ میں زندہ جلائے گئے، کئی ہزار نوجوان عورتیں اِن کے ہاتھوں گرفتار ہوئیں اور اِن کی عزت و حرمت کو تاراج کیا گیا۔ یہ ایسا فتنہ تھا جو یہودیوں کے کینہ کی آگ اور امریکی ظالم حکمرانوں کی حمایت سے اسلامی سرزمین میں شروع کیا گیا۔ مدافعین حرم صرف ایک سرزمین کے نہیں بلکہ انسانیت کے مدافع ہیں۔ یہ ولایت کے محافظ ہیں اور انکا تذکرہ ہر محفل اور ہر مجلس میں کرنا ہر محبان اہل بیت کا فریضہ ہے۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .