۲۹ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۰ ذیقعدهٔ ۱۴۴۵ | May 18, 2024
سویرا بتول

حوزہ/ یہ وہ جوان ہیں جو ولایت کے مدافع بنے اور اپنے وجود کو اہل بیت اطہار پہ قربان کیا۔

تحریر: سویرا بتول

حوزہ نیوز ایجنسیابھی شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی کی برسی پر تنظیمی امور سے فرصت ملی ہی تھی کہ ہماری ایک عزیز ہستی کی فون کال موصول ہوٸی۔وہی ایک شکوہ جو ہم وقتا فوقتا مکتب کے خواص سے کرتے رہتے ہیں اُنکے لبوں پر تھا۔آخر کیا وجہ ہے کہ مدافعین ولایت آج گمنامی کا استعارہ ہیں؟ ہم نے جوابااپنی کتاب پاسبانِ حرم کا حوالہ دیا۔حقیر کے اختیار میں جس قدر ممکن تھامدافعین حرم پر نہ صرف لکھا بلکہ ایک نظریاتی کتاب کی ضرورت کو محسوس کرتے ہوٸے شہداٸے ولایت کو خراجِ عقیدت پیش کیا۔مگربات صرف ایک کتاب تک ختم نہیں ہوتی۔آخر کیا وجہ ہے کہ آج تک مدافعین حرم کی حساسیت ہنوزبرقرار ہےاور مکتب کے جید علماٸے کرام اور خواص ریاست سے ایک ٹھوس موقف لینے سے قاصر ہیں؟کیا ہم اتنی بھی بصیرت نہیں رکھتے کہ مدافعین ولایت پر کھل کر لکھ سکیں اور ریاست سے ٹیبل ٹاک کرکے معاملات کو کسی نہج پر پہنچاسکیں؟آج بھی مدافعین حرم کے اہلِ خانہ کو تھریٹ کیاجاتا ہے۔آج بھی ہمارے جوان غیر آٸینی طور پرماوراٸے عدالت لاپتہ کیے جاتے ہیں ،لاکھوں اسیران ہیں اور لاکھوں ایسے ہیں جنکی شہادت تک کا علم نہیں ،مگر کوٸی پرسان حال نہیں۔ہماری مثال کوفہ جیسی خاموش امت کی سی ہے جو تمام ظلم و زیادتی دیکھتے کے باوجود بھی خاموش ہے۔

ہمیں یاد ہے کہ پاسبان حرم کے لیے کس قدر مشکلات کا سامنا کرنا پڑاوہ احباب جو اچھے دنوں میں ساتھ تھے مدافعین کا نام سن کر رابطے منقطع کر گٸے۔ہماری ذات و کردار کو موضوع سخن بنایا گیا۔شہدا کے نام پر شہرت پرستی کے القابات سے نوازا گیامگر ہم اہل بیت اطہار ع کے لطف وکرم سے نہ صرف ثابت قدم رہے بلکہ مختصر مدت میں اپنا وظیفہ کتابی صورت میں ادا کیا۔ہمیں یاد ہے جب ہم شہداٸے زینبیون کی اس کتاب کو مرتب کررہے تھے تو نام نہاد علماٸے دین نےاس موضوع کی حمایت پر ایک حرف تک نہ کہا کجا اسکے کہ تاٸید کرتے۔مگر اُس لمحے جناب زینب ع نے ہاتھ تھامااور بی بی کے عباس پر یہ کتاب منظرِ عام پر آٸی۔پاسبان حرم لکھتے وقت ہم نے معاشرے کے خواص کا موقف جانناچاہا تو مصلحت پسندی کو اپناتے ہوٸے صاف انکار کردیا۔کیا مدافعین حرم کی قربانی کو فراموش کرنا اہل بیت ع کی ارزش کم کرنے کے مترادف نہیں؟کیا حسین ع کے نام پر مرمٹنے والی قوم کلنا عباسک یازینب کا شعار بلند کرنے والوں کے لیے مصلحت کی پوشاک اوڑھ سکتی ہے؟کیا یہی علی کی شیردل بیٹی زینب سے عشق کا تقاضا ہے؟

آٸیے جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ اگر ہم مدافعینِ حرم کی تاریخ کو بیان کرتے تو اسکے کیا نتاٸج سامنے آتے۔اگر ہم مدافعین حرم کا تعارف پیش کرتے تو آج بیک وقت صہیونیت اور تکفیریت کا مقابلہ کھل کر میدانِ عمل میں ہوتا۔داعش جیسا ناسور نست و نبود ہوجاتا۔مزاحمت و مقاومت کی تاریخ کو ازسرنو یاد کیاجاتا۔اگر ہمارے پاکیزہ جوانوں کے تبصرے زبانِ زدِ عام ہوتے تو کبھی بھی کوٸی تکفیری دن دھاڑے اٹھ کر ہمارے جوانوں کو مذہبی جنونیت کی بھینٹ نہ چڑھاتا۔سالوں سے جاری شیعہ نسل کشی اور ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ تھم جاتا۔یزیددوراں جان لیتا کہ زینب ع کے عباس ابھی زندہ ہیں۔کسی انسان میں اتنی جرات نہ ہوتی کہ آج کراچی کی سرزمین سرخ سر زمین کے نام سے جانی جاتی۔آج پاراچنار،ڈیرہ اسماعیل خان اور شیعہ اکثریتی علاقوں کے قبرستان شہدا کی قبور سے پُر نہ ہوتے۔داعش، صہیونیت اور تکفیریت کا ناسور اپنے مکروہ چہرے کے ساتھ ختم ہوجاتامگریہ افسوس یہ سب نہ ہوا کیونکہ ہم زبانی شہادت کا راگ الاپتے رہے اور شہدا تنہا تمام وعدے وفا کر گٸے۔ہم یالیتنا کی گردان کرتے رہے اور وہ کلنا عباسک یا زینب کہتے زینب کے عباس ع سے جاملے اور ہم نے بدلے میں اپنے شہدا کو اس قدر حساس بنادیا کہ غیر تو کیا اپنے بھی انہیں دھشتگرد تصور کرنے لگے۔اگر بدقسمتی سے کوٸی جوان کھل کر مدافعین حرم پر بیان جاری کرے اور زینبی کردار کو ادا کرے تو جوابا اُس کی کردار کشی کی جاتی ہے، جان سے مارنے کی دھمکیاں دی جاتی ہیں، عصمت دری کی جاتی ہے کیونکہ اُس کا قصور یزید دوراں کو للکارانا ہے۔مجھے یاد ہے جب پاسبان حرم آرہی تھی اور تھریٹس موجود تھے تو والد صاحب کہاکرتے تھے کہ بیٹا اس ضعیفی میں اپنی جوان بیٹی کے لیے کہاں عدالتوں کے چکر لگاتا پھروں گا؟ کیا حسین ع سے عشق کے تقاضے فقط چند لوگوں کو نبھانے ہیں؟ کیا ہمارے علمإاور خواص کا کوٸی کردار نہیں؟

مزید برآں کہ مدافعین حرم کو متعارف کرواکر ہم سیرتِ جنابِ زینب سلام علہیا کو اپنے نصاب میں شامل کرواسکتے تھے۔آپ تصور کیجیے کہ اگر آپ کے نصاب میں بی بی زینب ع کی سیرت پڑھاٸی جاٸے تو کیا کل کو کوٸی جوان چاہے وہ کسی بھی مکتب سے تعلق رکھتا ہو،کسی دشمن کو اجازت دے گا کہ بنتِ علی دوبارہ اسیر ہوں اوراہل بیت ع کے مقدسات مسمار ہوں؟ یقینا ایسا ہرگزنہ ہوتا اگر ہم نے مدافعین حرم کو متعارف کروایا ہوتا۔آج ہمارے نصاب میں سیرت اہل بیت شامل ہوتی،ہمارے بچے اہل بیت کی سیرت کے ساٸے میں پروان چڑھتے اور ہمارا ملک ناصبیت و تکفیریت کے ناسور سے پاک ہوتا اور داعش کا وجود تک نہ ہوتا۔

مدافعین حرم کے حوالے سے سب سے زیادہ مصلحت پسندی ہمارے علماٸے کرام نے دیکھاٸی۔حکومتِ پاکستان سے اس حوالے سے کوٸی ٹھوس موقف نہیں لیاگیاجسکی بنإ پر یہ موضوع مزید حساسیت کی نظر ہوگیا۔وہ افراد جو پاکستان سے حرمِ سیدہ ع کی حفاظت کےلیے گٸے انہوں نے ریاست کے خلاف کوٸی اقدام نہیں کیا۔لوگ یہاں سے داعش میں بھرتی ہورہے تھے ایک محتاط اندازے کے مطابق فقط پنجاب سے ٥٠ ہزارافراد داعش کا حصہ بنے۔ایسے میں چند درد دل رکھنے والے جوان اٹھتے ہیں اور اپنا شریعی وظیفہ اداکرتے ہیں تو کیا کوٸی جرم کیا۔؟ آج بھی ہمارے ہاں ایسے لاکھوں دیوبند علما ملتے ہیں جو یہ فتوی صادر کرتے ہیں کہ اگر خانہ کعبہ پر حملہ ہوا تو اُس کا دفاع کریں گے کیا آپ اب مدافعین کعبہ کو بھی دھشتگرد قرار دیں گے؟اُنکے اہل خانہ سے وہی سلوک کریں گے جو مدافعین حرم کے ساتھ کرتے؟گویا ثابت ہوا کہ اہل بیت کے حرم کی حفاظت کرنا شریعی وظیفہ ہے۔آخر کیا وجہ ہے کہ وہ افراد جو سوریا سے واپس پاکستان آتے ہیں انہیں حکومت پاکستان قبول نہیں کرتی؟کیا اُن جوانوں نے حکومتِ پاکستان کے خلاف کوٸی کام کیا؟اگر ایسا نہیں ہے تو یقینا یہ حکومتِ پاکستان کی نااہلی ہے۔آپ کو تو شکر ادا کرنا چاہیے تھا کہ مدافعین حرم نے داعش کا مقابلہ اپنی سرزمین کی بجاٸے دیارِ غیر میں کیا۔

بلفرض اگر شہداٸے زینبیون نہ ہوتے تو آج آپ یہ جنگ کراچی اور اسلام آباد کی سڑکوں پر لڑ رہے ہوتے۔یہ وہ جوان ہیں جو ولایت کے مدافع بنے اور اپنے وجود کو اہل بیت اطہار پہ قربان کیا۔اگر پاکستانی ریاست زینبیون کو قبول نہیں کرتی تو اس کی دو بنیادی وجوہات ہوسکتیں ہیں۔اولاً یا تو آپ داعش کو اپنا دشمن تصور نہیں کرتے یا پھر آپ کے ملک میں صہیونی ریاستوں کا اثر رسوخ ہے۔آپ یقین سے بتاٸیے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ وہ لوگ جو افغان یا کشمیری جہاد کا حصہ بنے یا سعودیہ اور یمن کی جنگ میں شریک رہے اور یہاں سے مجاہد بن کر جاتے رہے انہیں تو ریاست قبول کرتی ہے مگر اہل بیت کے حرم کا دفاع کرنے والوں کو نہیں۔کیا وہ لوگ جو افغان جہاد کا حصہ بنے دھشتگرد نہیں تھے؟ کیا انہیں آپ نے باقاعدہ فوجی مشقیں کروا کر کسی اور ملک کی جنگ کا حصہ نہیں بنایا؟ کیا آپ انہی شدت پسند تنظیموں سے ٹیبل ٹاک نہیں کرتے؟ کیا انہیں اپنے ہم پیالہ اور ہم نوالہ نہیں بناتے؟ پھر مدافعین حرم پر اس قدر سخت رویہ کیوں جبکہ انہوں نے ریاست کے خلاف کبھی کوٸی اقدام نہیں کیا۔کیا ہم یقین کر لیں آپ کے ملک کی ڈورے کہی اور سے ہلاٸی جاتی ہیں اور آپ کے ادارے ملک فروش ہیں اور صہیونیت کے زیر تابع ہیں؟۔

نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .