۳۱ فروردین ۱۴۰۳ |۱۰ شوال ۱۴۴۵ | Apr 19, 2024
News ID: 376334
16 جنوری 2022 - 22:33
مدافعین حرم

حوزہ/ مدافعینِ حرم وہ حقیقی ہیروز ہیں کہ جنہوں نے پوری دنیا کو اس عظیم دہشتگرد گروہوں سے نجات دلائی ہے۔

تحریر: سویرا بتول

حوزہ نیوز ایجنسیمدافعینِ حرم ایسا خوبصورت لفظ ہے جو کربلا کے قافلہ میں شامل سپاہی کے لیے استعمال ہوتا ہے۔یہ ایسے پیروانِ عباس اور علی اکبر ہیں کہ جو امام عالی مقام علیہ السلام کی بہن شریکتہ الحسین کے مزار کے پروانے ہیں اور اِن کے راستے میں جان تک قربان کردیتے ہیں۔اس مرتبہ حضرت زینب سلام علہیا کا حرم اتنا وسیع تھا کہ اس میں دشمن سے خوفزدہ قوم نےپناہ لے رکھی تھی اور حرملہ اور یزیدی طاقتوں کی تیز تلواریں اور تیران کے سینوں کا نشانہ لیے ہوٸے تھیں۔دشمن کے خنجر کی تیزی اس مظلوم قوم کے گلےپر چل رہی تھی اور خون کا دریا جاری تھا۔ایسے میں چند انگشت شمار پاک طینیت حسینی جوان اٹھے اور یہ نعرہ بلند کیا کہ ہم سیدہ زینب سلام علہیا کو ایک بار پھر اسیر ہونے نہیں دیں گے جنہیں ہم مدافعینِ حرم کے نام سے جانتے ہیں۔کربلا کے ان سپاہیوں نے حرمِ سیدہ کا ایسے وحشی دشمن سے دفاع کیاکہ جس نے کروڑوں انسانوں کے سامنے سینکڑوں بے گناہ انسانوں کو اپنے تکفیری جہالت کے خنجر سے ذبح کیا۔یہ لوگ ان کی جہالت کی آگ میں زندہ جلاٸے گٸے،کٸی ہزار نوجوان عورتیں اِن کےہاتھوں گرفتار ہوٸیں اور ان کی عزت و حرمت کو تارتار کیاگیا۔یہ ایسا فتنہ تھا جو یہودیوں کے کینہ کی آگ اور امریکی ظالم حکمرانوں کی حمایت سے اسلامی سرزمین میں شروع کیا گیا۔مدافعینِ حرم صرف ایک سرزمین کے مدافع نہیں بلکہ پوری انسانیت کے مدافع ہیں۔اگر وہ اپنی جان نہ دیتے تو آج کربلا کا واقعہ تکرار ہوتا۔اگر وہ جان کا نذرانہ نہ دیتے تو آج زمین پر ایسی مصیبت آتی ک سواٸے کربلا کےتمام مصیبتیں ہمیں بھول جاتیں۔یہ مدافعینِ حرم ہی تھےجنہوں نے آمرلی کا محاصرہ توڑ کر،نبل و الزہرا،فوعہ و کفریا،دیرالزور اور حلب،فلوجہ بلد و موصل کو آزاد کروا کے وہاں کے بچوں کے لبوں پر مسکراہٹ سجاٸی کہ جس کو قلم کےذریعے بیان نہیں کیا جاسکتا۔

داعش کے مقابلے میں کھڑےہونے والے نوجوان وہ عظیم بین الاقوامی ہیروز ہیں جنہوں نےدنیا میں دہشت گردی کے خاتمہ کےلیے عملی اقدامات کیے ہیں اور حقیقی طور پر اینٹی ٹیرارزم مجاہدین ہیں۔کس سے پوشیدہ ہے کہ داعش ایسا خوفناک دہشتگرد گروہ ہے جو نہ کسی دین کے بندھن میں اپنے آپ کو محدود سمجھتا ہے اور نہ ہی جس کی کوٸی انسانی حدود وقیود اور اقدار ہیں۔کیا دنیا کو نہیں معلوم یہ داعش وہی گروہ ہے ک جس نے ماٶں کے سامنے ان کی اولاد کو ذبح کیا۔کیا یہ وہی گروہ نہیں ہے جس نے انسانوں کو پانی میں ڈبو کر مارا،جس نے اتنے انسان قتل کیے کہ دریاٸے دجلہ کا رنگ تبدیل ہوگیا۔جس ن جہاد النکاح کے نام پر دین میں بدعت ایجاد کی اور مسلمانوں کی عصمت سے کھیلنے کا بہانہ بنایا۔داعش کو کون کونسا جرم بیان کیا جاٸے کہ جس سے اِن کی دہشتگردی کو ثابت کیا جاٸے۔کیا آج دنیا کا نیا نظام دہشتگردی سے مقابلےپر جنگ کے نام پر نہیں چل رہا؟کیا آج ہمارے ملک کی پہلی سکیورٹی تھریٹ دہشتگردی نہیں ہے؟کیا روز بروز سعودی ریالوں پر پلنے والا داعش کا پودا اپنی جڑیں مظبوط نہیں کررہا؟ کیا تکفیری سوچ کو پروان نہیں چڑھایا جا رہا؟

یہ وہ حقائق ہیں جو نہ ہمارا الیکٹرانک میڈیا بیان کرتا ہے اور نہ پرنٹ میڈیا۔اس سب کےبرعکس حرم زینب کے محافظین کو دہشتگرد ثابت کیا جاتاہے اور قاضی شریعی کی نسل کے چند دین فروش ملا محافظین ولایت پر ہرزہ سراٸی کرتے دیکھاٸی دیتےہیں۔جب یہ حقائق لیکر کوٸی سامنے آتا ہے تو اسے لاپتہ کردینے کی دھمکیاں دی جاتیں ہیں۔کیا ستم ہے کہ وہ شہدا جوہر محبِ اہل بیت کے لیے باعث افتخار ہیں آج اُن کے جنازے اپنے وطن نہیں لاٸے جاسکتے۔آج مدافعین کے اہل خانہ کو غداروطن کہ کر ملکی حدود میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی جاتی۔ہم اپنے گزشتہ کالم میں اقوامِ متحدہ کی اُس رپورٹ کی تفصیلی فہرست شامل کر چکے ہیں جس کے مطابق فقط پنجاب سے ساٹھ ہزار افراد داعش کا حصہ بنے۔داعش میں شمولیت کے لیے پوری دنیا سے ماہردہشتگردوں کو بھرتی کیا گیاتاکہ وہ آلِ رسول کے حرم کو مسمار کردیں جیسے ماضی قریب میں مزارِ دخترِ پیغمبر فاطمہ زہرا کو مسمار کیا گیا تھا ۔جنت البقیع کی موجودہ حالت اس امت کی بربریت اور آلِ رسول سے بغض کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

اب آٸیے ایک لمحے کےلیے فرض کیجیے کہ اگر مدافعینِ حرم نہ ہوتے اور اِن خونی بھیڑیوں کو عراق اور شام میں شکست نہ دی جاتی تو آج اِن کا مقابلہ اسلام آباد،پشاور،کراچی اور لاہور کی سرزمین پر کرنے کی تیاری ہورہی ہوتی۔لہذا مدافعینِ حرم وہ حقیقی ہیروز ہیں کہ جنہوں نے پوری دنیا کو اس عظیم دہشتگرد گروہ سے نجات دلاٸی۔اب اس بات کی طرف غوروفکر کرتےہیں کہ کیا حرمِ آلِ رسول کا دفاع کرنا جرم ہے؟ تاریخ گواہ ہے کہ پاکستان میں اکثر افراد یہ کہتے نظرآتے ہیں کہ اگر حرمین شریفین کو خطرہ ہوا تو ہم اِس کے تحفظ کےلیےہر قسم کی قربانی دیں گے۔یعنی یہ دو ممالک کے تعلقات اور معاہدوں کو معاملہ نہیں ہے بلکہ یہ تقدسِ اسلام اور ناموسِ رسول (ص) کا مسٸلہ ہے۔گویا حرم آل رسول کا دفاع کرنا جرم نہیں بلکہ شرعی وظیفہ ہے۔ کلنا عباسک یا زینب کا نعرہ بلند کرتے یہ مٹھی بھر عشاق قیامت تک کے لیے یزیدیت کے کالے منصوبوں کو ناکام بناگٸے اور مصلحت کی عبا اوڑھے اہل قلم کو یہ پیغام دیتے ہیں کہ تم میں اور کوفیوں میں کوٸی فرق نہیں۔جو لوگ مدافعین حرم کی حمایت پر چپ کا روزہ رکھتے ہیں وہ وہی لوگ ہیں جو ھل من ناصر کی صدا تو سنتے ہیں مگر بروقت لبیک نہیں کہتے۔خیمہ ولایت کے یہ محافظین قیامت تک کےلیے مشعل راہ ہیں اب اگر اِن کا ذکر کرنے پر ہم محبان اہل بیت کو اٹھایا جاتا ہے، سالوں لاپتہ کیا جاتا ہے تو یہ انوکھی بات نہیں۔سالوں سے محبان علی پر زمین تنگ کی گٸی ہے۔علی کا نام لینےپر دیواروں میں چن دیاجاتا تھا۔آج اُسی علی کی شیر دل بیٹی کے شہدا کا ذکر کرنے پر بھی پابندی ہے جو ثابت کرتا ہے کہ دشمن زینب کے عباس سے کس قدر خوفزدہ ہیں۔ہم دشمن دوراں کو پیغام دیتے ہیں ہم سب زینب کے عباس ہیں آٶ اور ہمیں اسیر کرو!!!!

نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .