۱ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۱ شوال ۱۴۴۵ | Apr 20, 2024
اربعین پاکستان

اس اربعین پر ایک گملہ/ پتہ بھی نہ ٹوٹا بلکہ عزاداران حسین علیہ السلام کے جذبوں نے بغیر کسی وجہ کے لوگوں کی خدمت کی، یہ عزادار ہر عام و خاص پاکستانی کے پاس جاتے اور کچھ کھانے کیلئے گزارش کرتے، کچھ تو کھائیے کچھ تو لیجئے۔ اے کاش ان الہی انسانوں کی قدر و منزلت کوئی سمجھ پاتا۔ 

تحریر: سویرا بتول 

حوزہ نیوز ایجنسی پاکستان میں اربعینِ امام حسین علیہ السلام بھرپور عقیدت اور جوش و جذبے سے منعقد کیا گیا۔نجف سے کربلا پیدل مشی کرنے کا تصور ذہنوں میں لاتے ہوٸے لاکھوں عزادارانِ مظلومینِ کربلا نے پیادہ روی کی اور نواسہ رسول سے اپنے عشق کا اظہار کیا۔ یہ صرف پیادہ روی نہ سمجھیے گا یہ عشق کا سفر ہے جس کی منزل ظہورِ امام مھدی عج  ہے، یہ ایسا سفر ہے جو انسان کو سب کچھ قربان کردینے کا درس دیتا ہے۔ یہ سفر ہمیں بتاتا ہے کہ ظہور مھدی عج بہت ہی قریب ہے۔ ہم ہر گزرتے دن کے ساتھ مسلسل ظہور امام کے قریب ہورہے ہیں اور یہ قریب ہونا ہر عزادار کی روح میں ایک نیا جوش و جذبہ پیدا کررہا ہے۔  پاکستان کے ہر شہر میں اربعینِ حسینی کے عظیم اجتماعات نے ثابت کیا ہے کہ اس ملک کی سرزمین میں یا تو تکفیری عناصر ہوں گے یامھدی دوراں کے چاہنے والے، اس ملک میں دہشتگرد ہونگے یا پرامن عزادار 
اس اربعین پر ایک گملہ/ پتہ بھی نہ ٹوٹا بلکہ عزاداران حسین علیہ السلام کے جذبوں نے بغیر کسی وجہ کے لوگوں کی خدمت کی، یہ عزادار ہر عام و خاص پاکستانی کے پاس جاتے اور کچھ کھانے کیلئے گزارش کرتے، کچھ تو کھائیے کچھ تو لیجئے۔ اے کاش ان الہی انسانوں کی قدر و منزلت کوئی سمجھ پاتا۔ 
 
اِس عشق کے سفر سے واپسی پر چند احباب نے استفسار کیا کہ ہمیں اس مقام پر سب سے زیادہ کس کا شکر ادا کرنا چاہیے؟ بے ساختہ لبوں پہ آیا کہ مدافعینِ حرم کا۔حجتِ دوراں عج کے بعد عزاداری سید الشہدإ کے وارث مدافعینِ حرم ہیں اور آج جو پُر امن عظیم اجتماعات کا انقعاد ہوا یہ انہی مٹھی بھر عُشاق کی بدولت ہے جنہوں نے حرمِ سیدہ کی حفاظت کی۔

گزشتہ چند صدیوں کی نسبت آج حسین ابنِ علی علیہ السلام کی شخصيت زیادہ معروف و مقبول ہے۔آج کے حالات میں جب بھی کوٸی مفکر اور دانشور تاریخِ اسلام کا مطالعہ کرتا ہےتو واقعہ کربلا پر پہنچ کر سر تسلیمِ خم کر دیتا ہے۔پیغمبرِاسلامﷺ کی یہ حدیثِ مبارکہ زبانِ زدِ عام ہے *ان الحسین مصباح الھدی و سفینة النجاہ*
بے شک حسین علیہ السلام ہدایت کا چراغ اور نجات کی کشتی ہے۔یہ صرف کسی ایک خاص زمانے سے مخصوص نہ تھا بلکہ ہر زمانے میں ایسا ہی ہے۔آج اربعینِ حسینی کے اِن عظیم اجتماعات سے ظہورِ مہدی دوراں کی خوشبو آ رہی ہے بلاشبہ ہزاروں کے اجتماعات یوسفِ زہرإ کے ظہور کی زمینہ سازی کو نزدیک سے نزدیک تر کر رہے ہیں۔

آج سےسو سال قبل کی بنسبت آج امام عالی مقام علیہ السلام کا چراغِ ہدایت ہونا زیادہ سمجھ میں آتا ہے۔آج جب ہم کہتے ہیں کہ یہ زمانہ عصرِ تحریک اور ظہورِ مہدی کا دور ہے اور تکفیری عناصر کسی صورت بھی اپنے مقاصد میں کامیاب نہیں ہوسکتے تویہ بات انہونی نہیں ہے۔آج تیزی کیساتھ حسینی فکر اور نورِہدایت پھیل رہا ہے۔آج حسین ابنِ علی پھر سے ایک ماہتابِ عالم بن کر چمک اٹھے ہیں۔

سن اکسٹھ ہجری کے استکبار کی یہ کاوشیں تھیں کہ جتنا بھی خرچ ہو کسی بھی طرح سے حسین علیہ السلام کا نام،اِن کی یاد،اِن کی شہادت اور عاشورہ کے پیغام کو روکا جاٸے اور آج کا استکبار بھی یہی چاہتا تھا کہ کسی طرح ذکرِحسین ابنِ علی روکا جاٸے۔کیونکہ یہ واحد ذکر حسین علیہ السلام ہے جو ان درندوں کے مقابل آتا ہے۔ یہ انسانیت کا درس دیتا ہے اور استعمار چاہتا ہے اسلام اور انسانیت کا معیار ختم ہوجائے۔ اسی لئے جلوس پر پتھراٶ، جھوٹی ایف آٸی آر اور عزادارانِ حسین پر جعلی مقدمات درج کرکے اس ذکر کو روکا جاتا ہے مگر آج عوام کے جمیرِ غفیر نے ثابت کیا کہ یہ حسینیت کی سرزمین ہے یہاں یزید زندہ باد، اچھے طالبان اور تکفیری عناصر کی کوٸی جگہ نہیں۔ یہاں استعمار کی کوئی جگہ نہیں، یہاں صرف اسلام اور انسانیت باقی رہے گی۔ یہاں حسینیت باقی رہے گی۔

ہم پوری تاریخ میں شہداٸے کربلا جیسے عظیم شہداء تلاش نہیں کرسکتے۔آج بھی ویسے ہی دن ہیں آج بھی ہمارے شہداٸے ولایت اور محافظینِ حرم بہت باعظمت اور ہردل عزیز ہیں۔اربعینِ حسینی کے یہ عظیم اجتماعات انہی شہدإ کے مرہونِ منت ہیں اور اِن عظیم اجتماعات میں شہداٸے ولایت کو یاد رکھنا اور آثارِشہدإ کو زندہ رکھنا ہم سب کا واجب فریضہ ہے۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .