جمعرات 31 جولائی 2025 - 11:27
اربعین حسینیؑ مشی کا سفر، عشق و شعور کی معراج

حوزہ/ اربعین کی مشی ہمیں یاد دلاتی ہے کہ ہم فقط زائر نہیں، حسینی کارواں کے سپاہی ہیں۔ جو ظلم کے ہر روپ کو پہچانیں، جو حق کے لیے کھڑے ہوں، جو فکری طور پر بیدار ہوں، اور جو امام عصرؑ کے ظہور کی راہ ہموار کریں۔

حوزہ نیوز ایجنسی | تاریخِ انسانیت میں چند ایام ایسے ہوتے ہیں جو وقت کی دیواروں سے بلند ہو کر قیامت تک کے لیے ایک فکری و روحانی تحریک کی صورت اختیار کر لیتے ہیں۔ اربعین حسینیؑ انہی میں سے ایک ہے۔ یہ دن صرف ایک یادگار نہیں، بلکہ مظلومیت کے خلاف قیام، عشقِ ولایت اور اتحادِ امت کا زندہ استعارہ ہے۔

ہر سال محرم الحرام کے بعد 20 صفر کو اربعین کا دن آتا ہے، جب پوری دنیا سے عاشقانِ حسینؑ عراق کی جانب رخ کرتے ہیں اور نجف اشرف سے کربلا تک پیادہ روی (مشی) کرتے ہوئے اس دردناک قربانی کی یاد تازہ کرتے ہیں جس نےظالم کے ظلم اور اسکے کے تاج کو خاک میں ملا دیا

اربعین کا پس منظر

امام حسین علیہ السلام کی عظیم قربانی کے بعد جب قافلہ اہلِ حرمؑ قیدِ شام سے رہائی کے بعد وطن کو لوٹ رہا تھا، تو 20 صفر 61 ہجری کو وہ میدانِ کربلا پہنچا۔ اسی دن صحابی رسول حضرت جابر بن عبداللہ انصاریؓ بھی کربلا آئے اور شہدائے کربلا کی زیارت کی۔ یہ دن اربعین کہلایا، اور اس دن کی زیارت کو امام حسن عسکریؑ نے "مومن کی پانچ نشانیوں" میں سے ایک قرار دیا

مشی: جسمانی سفر نہیں، روح کا جہاد

نجف سے کربلا تک کا سفر تقریباً 80 کلومیٹر پر محیط ہوتا ہے، جو اکثر زائرین 2 سے 3 دن میں طے کرتے ہیں۔ مگر یہ سفر فقط میلوں کی پیمائش نہیں، یہ عشق، وفاداری، اور شعور کا عملی مظاہرہ ہے۔

مشی کی روحانی و سماجی جہتیں:

1. ایثار و مہمان نوازی:

عراقی عوام جس جذبے سے زائرین کی خدمت کرتے ہیں، وہ انسانیت کی معراج ہے۔ کھانے، رہائش، علاج، حتیٰ کہ پاؤں دبانے تک، ہر خدمت عشقِ حسینؑ میں پیش کی جاتی ہے۔

2. وحدتِ امت:

اربعین کے اس سفر میں فرقہ واریت کا کوئی تصور نہیں۔ شیعہ، سنی، عیسائی، حتیٰ کہ دیگر مذاہب کے افراد بھی شریک ہوتے ہیں۔ یہ اتحاد دشمنانِ اسلام کے لیے سب سے بڑی للکار ہے جسے وہ ہضم نہیں کر پا رہے ہیں اور ہر سال مختلف انداز سے اسکی تخریب کی کوشش کی جاتی ہے جو ہر مرتبہ ناکام رہتی ہے البتہ افسوس اس وقت ہوتا ہے جب اپنے اس تخریب کاری میں دشمن کے غیر محسوس انداز میں ہمنوا بن جاتے ہیں اور الگ الگ انداز سے اس روحانی سفر پر اعتراض کرتے ہیں کؤی کہتا ہے لوگ صرف کھانے جاتے ہیں کوئی کہتا ہے موکب داری کھانے کمانے کا ذریعہ ہے وغیرہ مگر یہ وہی لوگ کہتے ہیں جو اجتک اس روحانی سفر کا حصہ نہیں بنے ہیں بہر حال یہاں ہم اس موضوع کو چھوڑتے ہوئے اربعین کے اھداف پر نظر کرتے ہیں

3. ظلم کے خلاف احتجاج:

پیادہ روی، خاموش مگر مضبوط احتجاج ہے ان تمام طاغوتی نظاموں کے خلاف جو آج بھی یزیدی کردار ادا کر رہے ہیں۔

4. فکری تربیت:

ہر قدم پر بینر، پوسٹرز، خطابات، اور خدمات کا نظام زائرین کو شعور و آگہی کی طرف لے جاتا ہے۔اور تقریباً ہر اربعین سے پلٹنے والا زائر انقلابی اصلاحی فکر لیکر واپس آتا ہے اور دشمن اسی سے خوفزدہ ہے

اربعین کا پیغام – ہر دور کے لیے

اربعین صرف حسینؑ کے غم کا اظہار نہیں، بلکہ اس کے پیغام کو زندہ رکھنے کا عہد ہے۔ امامؑ نے کربلا میں فرمایا: "انی لم اخرج اشرا و لا بطرا، و لا مفسدا و لا ظالما، انما خرجت لطلب الاصلاح فی امۃ جدی" "میں کسی ذاتی خواہش یا فساد کی خاطر نہیں نکلا، بلکہ اپنی امت کی اصلاح کے لیے نکلا ہوں۔"

یہی پیغام آج بھی زندہ ہے۔ ہر زائر، ہر قدم پر یہ دہرا رہا ہوتا ہے کہ: "یا حسینؑ! ہم بھی تمہارے مشن میں شریک ہیں!"

عصر حاضر میں اربعین کی اہمیت

جب دنیا سامراجی سازشوں، فکری زوال، اخلاقی انحطاط اور فرقہ واریت کی لپیٹ میں ہے، تو اربعین حسینی اس گھٹا ٹوپ اندھیرے میں ایک امید کا چراغ بن کر جل رہا ہے:

ظلم کے خلاف ایک عالمگیر انکار

عدل و انسانیت کا پرچم

مزاحمت و وحدت کا عملی نمونہ

امام زمانہؑ کی راہ ہموار کرنے والی تحریک

نتیجہ: اربعین، ایک عالمی انقلاب کی تمہید

اربعین کی مشی ہمیں یاد دلاتی ہے کہ ہم فقط زائر نہیں، حسینی کارواں کے سپاہی ہیں۔ جو ظلم کے ہر روپ کو پہچانیں، جو حق کے لیے کھڑے ہوں، جو فکری طور پر بیدار ہوں، اور جو امام عصرؑ کے ظہور کی راہ ہموار کریں۔

آئیے! اس اربعین،میں ہم عہد کریں کہ ہم صرف آنکھوں سے روئیں گے نہیں، دل وجان اور عمل سے حسینؑ کے مشن کو آگے بڑھائیں گے۔

لبیک یا حسینؑ!

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha