تحریر: موسی رضا، ایڈیٹر روزنامہ اودھ نامہ لکھنؤ
حوزہ نیوز ایجنسی | دنیا میں نہ جانے کتنے جشن ہوتے رہےہیں اورلا تعداد تقریبات سجائی گئی ہیں۔ ان اجتماعات کی کامیابی کے لئے دعوت نامے بھیجے جاتے ہیں۔ عالمی شہرت یافتہ شخصیتیں مدعو کی جاتی ہیں، ان کے رہنے، کھانے کے علاوہ دیگر سہولیات کا خیال رکھا جاتا ہے میڈیا اور سوشل میڈیا پر پیسہ خرچ کیاجاتا ہے تب جا کر Millions of People کی Gathering ممکن ہو پاتی ہے، پھر اتنے بڑے اجتماع کو سنبھالنے کے لئے حکومت رات دن اہتمام کرتی ہے اور اپنی تمام تر قوت صرف کرنے کے بعد دہائیوں اور صدیوں میں چند ہی ایسے پروگرام دیکھنے میں آتے ہیں جو انسانی خیالات کا حصہ بننے کی قوت رکھتے ہوں۔غور طلب ہے کہ پروگرام کی نوعیت بھی اپنی مقبولیت اور اثرات کی ضامن ہوتی ہے۔ پوری دنیا میں پر امن وسیع اجتماع یعنی Largest Peaceful Gatherings کی فہرست دیکھی جائے تواس میں مذہبی نوعیت کے اجتماعات کی تعداد زیادہ ملے گی۔مجھے یہ جان کر اپنے عزادار ہونے پر فخر ہوا کہ ویکیپیڈیا میں دنیا کے جن 19 سب سے بڑے پر امن اجتماعات کو سر فہرست رکھا گیا ہے ان میں امام حسینؑ کے زائرین کا اجتماع ہے جو ہر سال اربعین ( 20صفر،اس تاریخ کو امام حسینؑ کی شہادت کے 40 دن مکمل ہوتے ہیں) کے موقع پر کربلا میں منعقد ہوتا ہے۔ یعنی Largest Peaceful Gathering کی ٹاپ ٹونٹی کی نصف فہرست(Half List) پر امام حسینؑ کی فتح کا پرچم لہرا رہا ہے۔
ویکپیڈیا کے اعداد وشمار کے مطابق سال 2017میں 30 ملین زائرین کربلا روضہ امام حسینؑ پر حاضر ہوئے تھے۔ یہاں یہ بات بھی واضح کر نا ضروری ہے کہ یہ اعداد و شمار فقط ان زائرین پر مشتمل ہے جو مرکزی راستوں سے کربلا میں داخل ہوتے ہیں۔ غیر معروف راستوں سے آنے والے زائرین کی تعداد اس سے جداہے۔
کربلا میں اربعین کے موقع پرز یارت کا سلسلہ تقریباََ 1400 سال پرانہ ہے۔شیخ طوسی نے جابرابن عبداللہ انصاری کو امام حسین علیہ السلام کا پہلا زائر قرار دیا ہے، جو ۲۰ صفر ۶۱ ہجری کو کربلا میں وارد ہوئے۔ اس سفر میں ان کے شاگرد عطیہ عوفی ان کے ساتھ تھے اور اس واقعہ کو سید بن طاؤس نے مصباح الزائرمیں بھی لکھا جو اس طرح ہے کہ میں(عطیہ عوفی) جابر بن عبد اللہ انصاری کے ساتھ حسین بن علی علیہ السلام کی قبر کی زیارت کرنے کے لئے کوفہ سے نکلا۔ جب ہم کربلا پہنچے تو جابر فرات کے ساحل کے قریب گئے اور غسل انجام دیا اور محرم افراد کی طرح ایک چادر پہنی، پھر ایک تھیلی سے خوشبو نکالی اور اپنے آپ کو اس خوشبو سے معطر کیا اور ذکر الہی کے ساتھ قدم اٹھانا شروع کئے، یہاں تک کہ وہ حسینؑ ابن علیؑ کے مرقد کے قریب پہنچ گئے۔ جب ہم نزدیک پہنچے تو جابر نے کہا کہ میرا ہاتھ قبر حسینؑ پر رکھ دو۔ میں نے جابر کے ہاتھوں کو قبر حسین پر رکھاتو انھوں نے قبر حسینؑ ابن علی پر اپنا سینہ رکھ دیااور بے ہوش ہو گئے۔ جب میں نے ان کے اوپر پانی ڈالا تو وہ ہوش میں آئے۔ انھوں نے تین مرتبہ یا حسینؑ کی آواز بلند کی اور کہا: (حبیب لا یجیب حبیبہ) کیا دوست دوست کو جواب نہیں دیتا؟ پھر جابر خود جواب دیتے ہیں “آپ کس طرح جواب دیں گے کہ آپؑ کے مقدس سر کو جسم سے جدا کیا گیا ہے؟ میں گواہی دیتا ہوں کہ آپؑ پیغمبر خاتم اور امیر المومنین علی ابن ابی طالب اور فاطمہؑ زہرا کے فرزند ہیں اور آپؑ اس طرح کیوں نہ ہوں، کیونکہ خدا کے رسولؑ نے اپنے دست مبارک سے آپؑ کو غذا دی ہے اور نیک لوگوں نے آپؑ کی پرورش اور تربیت کی ہے۔ آپؑ نے ایک پاک اور بہترین زندگی اور بہترین موت حاصل کی ہے، اگرچہ مومنین آپؑ کی شہادت سے محزون ہیں، نالاں ہیں۔ خدا کی رضایت اور سلام شامل حال ہو اے فرزند رسول خدا۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ آپؑ کو ایسی شہادت نصیب ہوئی، جیسے یحییٰ بن زکریا کو نصیب ہوئی تھی۔
جناب جابر رسولخداؐ کے جلیل القدر صحابیوں میں تھے اسی لئے اس سفر سے نہ تو انھیں یزید نے روکا اور نہ ہی امام حسینؑ پر گریہ کرنے پر کوئی پابندی لگائی۔اس پہلی زیارت کے بعد سے یہ سلسلہ جاری ہوگیا اور جب اسیران کربلا رہائی پاکر مدینہ واپس آئے تو انھوں نے بھی کربلا کا رخ کیا اور شہدا کی قبروں پر زیارت پڑھی۔ ابو ریحان بیرونی (متوفی 440 ہجری) کے مطابق بیس صفر کو امام حسینؑ کا نورانی اور مبارک سر، بدن کے پاس واپس پلٹایا گیا اور بدن کے ساتھ دفن کیا گیا اور اس دن زیارت اربعین پڑھی جاتی ہے اور اس دن امام حسینؑ کے اہل بیت شام سے کربلا ان کی زیارت کرنے کے لیے آئے تھے۔
البتہ یہاں پر کچھ اختلاف ضرور ہے لیکن حضرت ولی عصر تحقیقاتی مرکز کے ویب پورٹل پر ایک مضمون موجودہے جس پر ان تمام اختلافات کے تعلق سے مدلل بحث کی گئی ہے اور نتیجہ اخذ کرتے ہوئے لکھاہے امام حسینؑ کے اہل بیت کے شام سے کربلاء کے سفر کی تفصیل کی روشنی میں اور اس کے مشابہ دوسرے طولانی سفر کا کم ترین وقت میں طے ہونے کی تفصیل سے واضح ہو جاتا ہے کہ اہل بیت 20 صفر کو اربعین کے دن کربلاء پہنچے تھے اور اس عظیم دن میں امام حسینؑ کی قبر کی زیارت کا شرف حاصل کیا تھا۔
اس کے علاوہ تاریخی کتب کے مطابق آئمہ معصومینؑ اور ان کے اصحاب نے بھی کربلا کی زیارت کا بہت اہتمام کیا ہے۔ یہاں تک کہ اس حوالے سے کئی احادیث بھی وارد ہوئیں مثلاََ کامل الزیارات کی یہ حدیث ملاحظہ کیجئے
’’ جو شخص اپنے گھر سے امام حسین علیہ السلام کی قبر کی زیارت کی نیت سے نکلے اگر وہ پیدل سفر کرے تو اللہ اس کے ہر قدم پر اس کے لیے ایک نیکی لکھتا ہے اور ایک گناہ محو کرتا ہے یہاں تک کہ حرم کی حدود میں داخل ہو جائے اس وقت خداوند عالم اسے منتخب مصلحین میں سے قرار دیتا ہے یہاں تک کہ وہ زیارت کے مناسک انجام دے زیارت کی انجام دہی کے بعد اسے کامیاب لوگوں میں سے قرار دیتا ہے یہاں تک کہ جب وہ واپسی کا ارادہ کرے تو خدا اس کے پاس ایک فرشتہ بھیجتا ہے وہ فرشتہ اس سے کہتا ہے کہ رسول خدا نے تمہیں سلام کہا ہے اور کہا ہے کہ تم اپنے اعمال نئے سرے سے شروع کرو اس لئے کہ تمہارے گزشتہ تمام گناہ معاف کر دئے گئے ہیں‘‘۔ ( ص ۱۳۲)
مذکورہ بالا حدیث میں بیان کردہ اجر کے تعلق سے شک کی گنجائش اس لئے پیدا نہیں ہوتی کہ اس میں پہل رسولؐ کے صحابی جناب جابر نے کی، جن کی عظمت کے لئے یہی کافی ہے کہ جب 1932ء میں پانی آنے کی وجہ سے جناب جابر کے جسد مبارک کو دوسری جگہ منتقل کیاگیا تو سینکڑوں افراد نے ان کی کھلی اور روشن آنکھوں کی زیارت کی اور ان افرادکے مطابق جابر کا کفن تک سلامت تھا اور یوں لگتا تھا جیسے وہ زندہ ہوں۔ہاں! اتنی بات ضرور قابل توجہ ہے کہ اس اجر کو حاصل کرنے کے بعد زائرین اس کی حفاظت کس طرح کرتے ہیں کیونکہ بہت سے گناہ ہماری نیکیوں کو ختم کر دیتے ہیں جیسے غیبت (Back Biting ) وغیرہ۔
یہ بھی اعجاز سے کم نہیں کہ کربلا کی زیارت کا یہ سلسلہ کبھی بھی منقطع نہیں ہوایہاں تک کہ حکومتوں نے زائرین پر بے پناہ سختیاں کیں ۔ ایک عراقی مصنف نے لکھا ہے کہ” پابندیوں کے باوجود د نجف کےباشندوں نے 15 صفر 1398 ہجری بمطابق 1977ء کوکربلا کا پیدل سفر کرنے کا ارادہ کیا۔ 30 ہزار افراد پر مشتمل ایک قافلہ نے کربلا کی طرف حرکت کی۔ حکومت نے اس کاروان کے خلاف کروائی کی جس کے نتیجے میں کئی لوگ شہید ہو گئے یہاں تک کہ نجف سے کربلا جانے والے راستے میں فوج نے بھی زائرین پر حملہ کیا اور ہزاروں لوگوں کو گرفتار کر لیا۔“ ان سب ظلم کے بعد بھی زائرین کی تعداد کم نہ ہوسکی۔ اس میں بیشک ہمارے علما کاکردار بھی قابل یادگار اور حترام رہاہے مثلاََ آیت اللہ سید محمد صدر نے چودہویں صدی ہجری کے اواخر میں کربلا کے سفر کو واجب قرار دے دیا تھا۔ اس کے علاوہ سید محمدباقر حکیم ،آیت اللہ خمینی اور آیت اللہ خامنہ ای و آیت اللہ سیستانی نے بھی کربلا کی زیارت کی اہمیت کو جا بجا واضح کیا ہے۔نیز گزشتہ زمانہ کی مثال بھی دنیاکے سامنے ہےجب کربلا میںدہشت گرد گروہ داعش کا زور تھا اور اس نے یہ اعلان کر دیا تھا کہ اربعین کے موقع پر اگر زائرین کربلا آئے تو وہ ان پر حملہ آور ہوگا۔ایسی صورت میں آیت اللہ سیستانی دام ظلہ العالی اورآیت اللہ خامنہ ای نے تشویق و تاکید فرمائی کہ لوگوں کو چاہئے کہ زیادہ سے زیادہ تعداد میں کربلا پہنچیں، نتیجتاََ کروڑوں زائرین نے کربلا پہنچ کر ایک بار پھر یزیدیت کو شکست فاش کا مزہ چکھا دیا۔
بہت سے ایسے زائرین بھی ہیں جنھوں نے یہ سفر اپنے ملک سے پیدل طے کیا ہے. ہندوستان میں بھی یہ روایت رہی ہے۔زمانہ قدیم سے صرف نظر چند برس قبل 6 جنوری 2018 کو ہندوستان سے سات(7) لوگوں نے پاپیادہ کربلا کے سفر کا آغاز کیا اور جولائی 2018 کو سرزمین کربلا پہنچے۔ ان سات افراد میں 6 لوگوں کا تعلق حیدر آبادسے ہے۔جن میں سب سے بزرگ70 سال کے علی صاحب بحیثیت قافلہ سالار اس گروپ کی رہنمائی کر رہے تھے اور ان کا کربلا کایہ چوتھاپیدل سفرتھا، 32 سال کے محمد علی جنھوں نے یہ سفر بیمار کربلا امام سید سجاد کی یاد میں طوق، ہتھکڑی اور بیڑیاں پہن کر مکمل کیا تھا۔ اس کے علاوہ حسین(عمر تقریباََ32 سال)، علی(عمر 28 سال) عباس اور عاصم رضا ان کے ساتھ تھے۔ اترپردیش میں بک نالا سادات سے تعلق رکھنےو الے اور لکھنؤ میں نیئر کالونی میں رہنے والے سید ثاقب ضیا نقوی بھی اس سفر میں شامل تھےجن سے یہ معلومات حاصل کی گئی ہے۔انھون نے بتایا کہ وہ حیدرآباد سے واگا بارڈر (پاکستانی سرحد) تک پیدل گئے مگر وہاں سے پیدل آگے جانے کی اجازت نہیں ملی لہذا وہاں سے واپس ممبئی آکر ہوائی جہاز کے ذریعہ ایران پہنچے اور وہاں زاہدان یعنی پاکستان کے بارڈر سے دوبارا مشی کا آغاز کیا اور اس طرحان تمام زائرین نے 6 مہینے میں تقریباََ یہ سفر مکمل کیا تھا ۔ ہندوستان کے اخبارات دی ٹائمس آف انڈیا، دی ہندوکے علاوہ برٹش نیوز ایجنسیز، ایرانی نشریات اور عالمی میڈیا نے اسے اہتمام کے ساتھ شائع کیا۔
(https://youtu.be/9GXPxEeVuxw)،
https://www.thenewsminute.com/article/hyderabad-iraq-mostly-foot-seven-men-walk-holy-site-karbala-74336
https://www.youtube.com/watch?v=9GXPxEeVuxw
عوماََ اس سفر کو بہت سے افراد نجف سے کربلا پیدل چل کر مکمل کرتے ہیں جس کو ”مشی“کہا جاتا ہے۔ اس مشی میں مختلف ممالک سے لوگ شرکت کرتے ہیں۔چھوٹے بچے سے لیکر بوڑھے افراد اس ”سفر عشق“ میں گامزن دکھائی دیں گے۔ان دو شہروں(نجف سے کربلا) کے درمیان 80 کلومیٹر کا فاصلہ ہے۔ دونوں شہروں کے درمیان سڑک پر نصب کھمبوں کی تعداد 1452 ہے۔ ہر کیلومیٹر کے درمیان 20 کھمبے نصب ہیں جن میں سے ہر دو کھمبوں کا درمیانی فاصلہ 50 میٹر ہے۔ پیدل چلنے والوں کو یہ تمام فاصلہ طے کرنے کیلئے تقریباً 20 سے 25 گھنٹے درکار ہیں۔اس سفر کو طے کرنے کیلئے زیادہ تر لوگ10صفر کے بعد مشی کا آغاز کرتے ہیں۔
زائرین کی مہمان نوازی اور انھیں ہر طرح کی سہولیات فراہم کرنے کے لئے شاہراہوں کے کنارے اور دیگر راستوں میں کیمپ لگے رہتے ہیںجن کو ”موکب “کہاجاتا ہے۔عراق کے علاوہ دیگر ممالک کے مومنین بھی اس کا اہتمام کرتے ہیں ۔ میرے ایک عزیز سید ظفر حسین ساکن نجف رستم نگر لکھنؤ جن کو دو بار مشی میں شریک ہونے کی سعادت حاصل ہوچکی ہے ، بتاتے ہیں کہ 327،777،850کھمبوں کے پاس اپنے ملک ہندوستان کے مومنین موکب لگا کر زائرین کی ہر ممکن خدمت انجام دیتے ہیں۔ یہاں ہر طرح کی ضروریات کا سامان موجود ہوتا ہے۔صرف وہ موکب جو حضرت امام حسینؑ و حضرت عباسؑ کے روضوں پر رجسٹرڈ ہیں تسنیم خبر رساں ایجنسی کے مطابق 2019میں ان کی تعداد دس ہزارتھی۔جب کہ غیر رجسٹرڈ موکبوں کی تعداد ان سے کہیں زیادہے۔ بی بی سی نے 19 اکتوبر 2019 کی اپنی ایک خصوصی رپورٹ میں لکھا دنیا بھر کے ہوائی اڈوں پر کھانے پینے کی چیزوں سے لے کر پینے کا پانی تک خریدنا پڑتا ہے اور وہ بھی زیادہ قیمت پر ،لیکن بصرہ ایئرپورٹ پر زائرین کے لیے پانی کا مفت انتظام تھا۔دیکھا جائے تو اربعین کے موقعے پر سوائے جہاز کے ٹکٹ اور ویزے کے ہر چیز ہی تقریباً مفت ہے۔صرف کھانے پینے کی چیزیں ہی نہیں بلکہ زائرین کے دست و پا کی مالش، ان کے کپڑیں دھونے کا انتظام اوراپنے گھر میںقیام کے لئے ان سے التجا کرنا اس سفر کی عظمت کو روشن کرتا ہے ۔غرض کہ جس سے جیسی خدمت ممکن ہوتی ہے وہ اس کو انجام دیتا ہے مثلاََ میڈیا ہاؤس سے متعلق الکفیل پروڈکشن سنٹر نے اربعین کے قافلے کا پروگرام براہ راست دکھانے کے لئے اپنی فریکوئنسی تمام چینلز دیگر نشریات کومفت فراہم کی تھی۔
کورونا کی وجہ سے دو سال تک اس سفر سے زائرین محروم رہےتھے۔ مگر اب بفضل خدا وند تمام مسدود راہیں کھل چکی ہیں اور زائرین اس سفر عشق پر پھر روانہ ہیں۔ خدا سے دعا ہے کہ ہم سب کو روضہائے مقدسہ کی زیارت نصیب فرمائے۔