جمعہ 8 اگست 2025 - 18:42
کن ہستیوں نے اربعین کی روایت کو زندہ رکھا؟"

حوزہ/ اربعین کی پیادہ روی ایک پرانی اور تاریخی روایت ہے، جسے ہمیشہ شیعہ علما نے اہمیت دی اور فروغ دیا ہے۔ یہ عظیم تحریک تاریخ کے سخت ترین ادوار میں بھی اہل بیتؑ کے چاہنے والوں کے ذریعے زندہ رکھی گئی ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی I بعض محققین کے مطابق اربعین کے دن امام حسینؑ کی زیارت اور پیدل سفر کرنے کی روایت، شیعہ ائمہ کے زمانے سے ہی چلی آ رہی ہے۔ آیت اللہ سید محمد علی قاضی طباطبائی نے اپنی کتاب "تحقیق درباره اول اربعین سیدالشهداء" میں لکھا ہے کہ شیعہ حضرات امام حسینؑ کی اربعین کے دن زیارت کو ایک مسلسل سنت کے طور پر مانتے تھے اور بنی امیہ و بنی عباس جیسے سخت دور حکومت میں بھی اس پر عمل کرتے رہے۔

اربعین کا تاریخی پس منظر

اربعین کے دن زیارت کے لیے امام جعفر صادقؑ سے ایک خاص زیارت نامہ منقول ہے، جسے بزرگ علما جیسے شیخ طوسی نے اپنی کتابوں تهذیب الأحکام اور مصباح المتهجد میں اور شیخ عباس قمی نے مفاتیح الجنان میں نقل کیا ہے۔

امام حسن عسکریؑ سے ایک مشہور حدیث ہے کہ: "مؤمن کی نشانیوں میں سے ایک امام حسینؑ کی اربعین کے دن زیارت ہے۔"

علمائے دین نے اس حدیث کو اربعین کی اہمیت کی بڑی دلیل قرار دیا ہے۔

علامہ مجلسی نے اس بارے میں کہا ہے کہ اگرچہ مشہور یہ ہے کہ اربعین کے دن زیارت کی استحباب کی وجہ، قافلہ اسیرانِ کربلا کا کربلا واپس آنا اور شہداء کے سروں کو بدنوں سے ملانا ہے، لیکن تاریخی لحاظ سے اس بات کا امکان کم ہے کہ وہ قافلہ اربعین والے دن واپس آیا ہو۔ اس لیے ممکن ہے کہ اس دن زیارت کی اہمیت کی اصل وجہ، حضرت جابر بن عبداللہ انصاری کی پہلی زیارت ہو، یا اسی دن اسیرانِ کربلا کی رہائی۔

زیارتِ اربعین اور پیادہ روی کی فضیلت

ائمہ معصومینؑ کی قبور کی زیارت، بالخصوص امام حسینؑ کی، پیادہ روی کرنا ہمیشہ سے رائج رہی ہے اور اس کی فضیلت پر احادیث بھی موجود ہیں۔ امام صادقؑ سے منقول حدیث کے مطابق: "جو شخص اپنے گھر سے امام حسینؑ کی زیارت کے ارادے سے نکلے، اگر وہ پیادہ چلتا ہے تو ہر قدم پر ایک نیکی لکھی جاتی ہے اور ایک گناہ معاف ہوتا ہے، یہاں تک کہ جب وہ قبر امام حسینؑ تک پہنچتا ہے، تو اللہ اسے کامیاب و منتخب افراد میں شامل کرتا ہے۔ زیارت مکمل کرنے کے بعد، جب وہ واپسی کا ارادہ کرتا ہے، تو ایک فرشتہ اس کے پاس آ کر کہتا ہے: 'رسول اللہ ص تمہیں سلام کہہ رہے ہیں اور کہتے ہیں کہ اپنے عمل کو نئے سرے سے شروع کرو، کیونکہ تمہارے تمام پچھلے گناہ معاف کر دیے گئے ہیں۔'"

پیدل زیارت کی روایت تاریخ میں

تاریخی حوالوں سے پتا چلتا ہے کہ پیادہ زیارت کی روایت ائمہؑ کے زمانے سے رائج رہی ہے، اور مختلف علاقوں میں بھی لوگ ائمہ کی قبور کی زیارت پیدل کرتے رہے ہیں۔ البتہ مختلف ادوار کی حکومتوں نے اس راہ میں بہت سی رکاوٹیں کھڑی کیں، یہاں تک کہ بعض اوقات زیارت پر پابندی بھی لگائی گئی۔

یہ انداز صرف اسلام تک محدود نہیں، بلکہ دوسرے ادیان اور اقوام میں بھی دیکھا گیا ہے۔ مثلاً روم کے بادشاہ "قیصر" نے نذر مانی تھی کہ اگر ایران سے جنگ میں کامیاب ہو گیا تو شکرانے کے طور پر قسطنطنیہ (استنبول) سے بیت المقدس تک پیدل سفر کرے گا، اور اس نے ایسا ہی کیا۔

اربعین: ماضی میں جاری سنت

اربعین کی پیدل زیارت ایک عظیم اور روحانی تحریک ہے جو ہر سال دنیا بھر کے لاکھوں افراد کو کربلا کی طرف لے جاتی ہے۔ اس کا آغاز حضرت جابر بن عبداللہ انصاری کی پہلی زیارت سے ہوتا ہے جو امام حسینؑ کی شہادت کے چالیس دن بعد کربلا پہنچے۔

ابتدائی دور میں کہا جاتا ہے کہ حضرت زینب (س)، امام سجادؑ اور جابر بن عبداللہ انصاری بنی ہاشم کے کچھ افراد کے ساتھ چالیسویں دن کربلا آئے تھے۔ بعد میں شیعہ ائمہؑ، علماء، اور عوام نے اس سنت کو جاری رکھا۔ ایران میں آل بویہ اور صفوی ادوار میں علما نے پیادہ زیارت کو بہت فروغ دیا۔ بعد کے دور میں شیخ انصاری، آخوند خراسانی، محدث نوری اور ان کے شاگرد بھی پیدل زیارت کرتے تھے۔

محدث نوری تو ہر سال زیارت کے لیے پیدل جاتے اور اس سنت کو خاص طور پر زندہ رکھا۔

بعثی دور میں اربعین کی سرکوبی

چودہویں صدی ہجری کے آخری حصے میں جب عراق میں بعث پارٹی کی حکومت قائم ہوئی، تو انہوں نے اربعین کے موقع پر پیادہ روی اور دیگر مذہبی رسومات پر پابندی عائد کر دی۔ جو لوگ پیدل کربلا جاتے، انہیں گرفتار کیا جاتا، تشدد کیا جاتا، اور بعض اوقات شہید کر دیا جاتا۔

لوگ ان پابندیوں کے باوجود، صحرائی راستوں سے چھپ چھپ کر زیارت پر جاتے رہے۔ 1977ء میں نجف کے لوگوں نے اربعین کی پیادہ روی کا اعلان کیا، لیکن حکومت نے ان پر سختی کی، کئی افراد شہید یا قید کر دیے گئے۔ علامہ عسکری اور سید محمد حسین فضل اللہ جیسے علما پر بھی سخت احکام صادر کیے گئے۔

اربعین کا احیا: معاصر دور میں

جدید دور میں آیت اللہ سید محمود شاہرودی کو پیادہ رویِ اربعین کو زندہ کرنے والا اہم مجتہد قرار دیا جاتا ہے۔ وہ میرزای نائینی اور آقا ضیاء عراقی کے شاگرد تھے، اور آیت اللہ سید ابوالحسن اصفہانی کے بعد مرجعیت پر فائز ہوئے۔

مرحوم حجۃ الاسلام سید علی اکبر محتشمی کے مطابق: "آیت اللہ شاہرودی کا اربعین میں شرکت کرنا سب کے لیے باعثِ مثال تھا۔ وہ نجف سے کربلا تک پیدل جاتے اور زیارت کے بعد واپسی بھی پیدل کرتے۔ ان کی پیروی میں علما، طلاب، اور عوام بھی پیدل زیارت کے لیے نکلتے۔ مشہور ہے کہ آیت اللہ شاہرودی نے اپنی زندگی میں چالیس بار پیدل زیارت امام حسینؑ کی سعادت حاصل کی۔"

خلاصہ

اربعین کی زیارت اور خاص طور پر پیادہ روی ایک قدیم شیعہ روایت ہے جو صدیوں سے جاری ہے۔ تاریخ کے مختلف ادوار میں اس پر پابندیاں لگیں، لیکن مؤمنین نے اس کو زندہ رکھا۔ معاصر دور میں آیت اللہ شاہرودی جیسے بزرگ علما نے اسے دوبارہ احیا کیا اور آج یہ زیارت دنیا کی سب سے بڑی مذہبی اجتماع کی صورت اختیار کر چکی ہے۔

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha