۲ آذر ۱۴۰۳ |۲۰ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 22, 2024
News ID: 384184
15 ستمبر 2022 - 14:19
مولانا سید صغیر الحسن رضوی

حوزہ/ اربعین کے دن کو زندہ رکھنا، اسے منانا امام حسین علیہ السلام کے عظیم مقصد سے وابستگی کی علامت ہے ۔امام حسین علیہ السلام سے وابستگی آزادی و حریت کا درس دیتی ہے ۔امام حسین علیہ السلام سے وابستگی انسانی اقدار اور اعلی مقاصد کیلئے قربانی کے جذبے کو بیدار رکھتی ہے ،امام حسین علیہ السلام سے وابستگی ظالموں کا خوف دلوں سے ختم کردیتی ہے ۔

تحریر: مولانا سید صغیر الحسن رضوی،منصرم دفتر تنظیم المکاتب لکھنؤ

حوزہ نیوز ایجنسی | شہادت امام حسین علیہ السلام کے بعد اٹھنے والی آفاقی تحریک میں اربعین حسینی ایک اہم سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے ۔ اربعین سے مراد چالیس (۴۰)ہے۔ یہ اس تاریخی دن کی یادگار ہے جس دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نواسی حضرت زینب سلام اللہ علیہا اور حضرت امام زین العابدین علیہ السلام کی قیادت میں اسیران کربلا کا قافلہ شام سے رہائی کے بعد ۲۰؍ صفر کو کربلا پہنچا۔ اسیران کربلا جب رہائی کے بعد سرزمین کربلا پر پہنچے تو وہاں صحابی رسول ؐ حضرت جابر ابن عبد اللہ انصارییؒ نے مقصد حسینیت کو دائمی بقا بخشنے والی عظیم ہستیوں کا استقبال کیا ۔

چونکہ شہدائے کربلا کے دفن کے بعد سب سے پہلے صحابی رسولؐ جناب جابرؒ نے کربلائے معلیٰ پہنچ کر امام حسین علیہ السلام کی زیارت کی لہذا آپ کو پہلا زائر حسینی کہا جاتا ہے۔

کچھ روایات کے مطابق ۲۰؍ صفر ہی کو امام حسین علیہ السلام اور شہدائے کربلا کے سرہائے مبارک شام سے کربلا لائے گئے اور ان کے اجسام مطہرہ سے ملحق کئے گئے۔اس دن کو برصغیر ہند و پاک میں چہلم شہدائے کربلا اور عرب میں اربعین حسینی کے نام سے جانا جاتا ہے۔

روایت کے مطابق صحابی رسولؐ جناب جابر ابن عبد اللہ انصاری ؒ عطیہ عوفیؒ کے ہمراہ ۲۰؍ صفر سنہ۶۱ ہجری کو کربلا پہنچے اور امام عالی مقام کی زیارت کی۔ جناب جابرؒ جو اس وقت نابینا تھے، نے نہر فرات میں غسل کیا اپنے آپ کو خوشبو سے معطر کیا اور عطیہ ؒکے ہمراہ آہستہ آہستہ امام عالی مقام کی قبر مطہر کی جانب روانہ ہوئے اور اپنا ہاتھ قبر مطہر پر رکھتے ہی بے ہوش ہو گئے، جب ہوش آیا تو تین بار آواز دی ’’یا حسینؑ یا حسینؑ ، یا حسینؑ ‘‘ بعدہ دیگر شہداء کے قبور مبارک کی زیارت کی۔ جناب جابرؓ وہی ہیں جن سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا تھا کہ تم میرے پانچویں جانشین یعنی امام محمد باقر علیہ السلام کی زیارت کرو گے تو ان کو میرا سلام کہنا۔

۲۰؍ صفر ۶۱ ؁ھ کے بعد سے ہر سال اس دن امام حسین علیہ السلام کا چہلم منایا جاتا ہے۔ لیکن ہمارے ذہن نشین رہے کہ یہ ہر سال چہلم منانا اور امام حسین علیہ السلام کی زیارت اور عزاداری کوئی رسم نہیں بلکہ ائمہ معصومین علیہم السلام کی سیرت ہے۔ جیسا کہ امام حسن عسکری علیہ السلام نے مومن کی علامتوں میں سے ایک علامت روز چہلم کی زیارت بتائی ہے کہ چاہنے والے کو چاہئیے کہ چہلم میں کربلا پہنچ کر امام حسین علیہ السلام اور شہدائے کربلا علیہم السلام کی زیارت کرے۔

زمانہ قدیم سے علمائے نجف کی سیرت رہی ہے کہ علماء اور طلاب نجف اشرف سے پیدل کربلا کی زیارت کے لئے نکلتے تھے اور دو یا تین دن کا پیدل سفر طے کرنے کے بعد ۲۰ ؍ صفر کو کربلا پہنچتے تھے جسے مشی کہتے ہیں۔ صدام کے زوال کے بعد اس مشی میں خاطر ٰخواہ اضافہ ہوا اور آج پوری دنیا سے بلا تفریق مذہب و ملت لوگ زیارت امام حسین علیہ السلام کے لئے چہلم میں کربلا پہنچتے ہیں اور آپؑ کے عظیم پیغام سے اپنی وابستگی کا اعلان کرتے ہیں۔

لمحہ فکریہ ہے کہ یزید پلید نے جنہیں ختم کرنے کے لئے اپنا سارا زور لگا دیا اور کسی طرح کا ظلم ڈھانے سے گریز نہیں کیا تھا لیکن آج زائرین کا یہ سیلاب یزیدیت کو مٹاتے ہوئے فتح حسینی کا اعلان کر رہا ہے۔ جس حسینؑ نے خانہ کعبہ کی حرمت کی خاطر اپنا سر کٹایا تھا ، اپنے کنبہ کی لازوال قربانی پیش کی تھی ،خواتین کی چادریں قربان کی تھیں آج اللہ نے ان کو یہ عظمت بخشی کہ آزادی و حریت کے اس عظیم پیشوا اور دین مصطفوی ؐ کے اس عظیم محافظ کو خراج عقیدت پیش کرنے کیلئے دنیا جوق در جوق چلی آرہی ہے ۔

جیسا کہ بالا سطور میں ذکر ہوا کہ اربعین حسینی کے موقع پر نجف سے کربلا تک پیدل سفر جسے ’’مشی ‘‘ کہا جاتا ہے خاص اہمیت کا حامل ہے نجف سے کربلا کا فاصلہ تقریبا ۸۵ کلومیٹر ہے ۔یہ طویل فاصلہ کئی کروڑ لوگ پیدل طے کرتے ہیں یوں اس پیدل سفر کو کرہ ارض کی سب سے بڑی واک کا درجہ بھی حاصل ہے اور اسی طرح نجف سے کربلا تک جاری مسلسل دستر خوان کو دنیا کا سب سے بڑا دستر خوان ماناجاتاہے۔

اربعین حسینی کربلا کے مظلوموں کی فتح کی یادگار ہے اور کربلا اسلام کے تحفظ کی ضمانت ہے کہ جس سے ہر دشمن اسلام خوف زدہ ہے ۔ کربلا کے اسیروں کی تاسی میں ان گنت انسانوں کا چہلم کے دن سرزمین کربلا پر آنا دین کے جذبے کا اظہار ہے کیونکہ کربلا کے اسیروں کی واپسی میں ایک روحانیت ہے ۔بظاہر حضرت زینب سلام اللہ علیہا اور حضرت امام زین العابدین علیہ السلام کی ایک لٹے ہوئے قافلے کے ساتھ آمد ہے جو ایک درد سمیٹے ہوئے ہے کہ جس قافلے کے ساتھ جانے والے کئی کم سن بچے اور بچیاں کربلا سے کوفہ اور کوفہ سے شام کے راستوں میں دم توڑتے رہے لیکن اسیران کربلا کے قافلے نے جو عظیم کام انجام دیا وہ شہادت حسین ؑ کے مقصد کو بازاروں اور درباروں میں اپنے خطبات کے ذریعے عام کرنا تھا۔ ظالم حکومت نے عام لوگوں کے سامنے جھوٹا پروپیگنڈہ کر رکھا تھا کہ حکومت نے کربلا میں بعض سرکش باغیوں کا سر کچلا ہے جو دین خدا کے مخالف تھے لیکن جیسے جیسے اسیروں کا یہ قافلہ مختلف شہروں سے گزرتا رہا ویسے ویسے اپنے دلیرانہ خطبات کے ذریعے حکمرانوں کے چہروں پر پڑے جھوٹے اورمنافقانہ نقاب اتارتا رہا جس کی طاقت ور حکمرانوں کو ہر گز توقع نہ تھی۔اسیران کربلا کے یہ خطبات قرآن و حدیث سے لبریز تھے جنہوں نے عوام الناس کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا اور وہ لوگ جو ایک شکست خوردہ لشکر اور مظلوم اسیروں کا تماشا دیکھنے کیلئے جمع ہوئے تھے وہ ان اسیروں کے خطبات سن کر دھاڑیں مار مار کر رونے لگتے ۔یوں ظالم حکومت کے خلاف ایک انقلاب نے انگڑائیاں لینی شروع کردیں ۔

جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گھرانے کی عفت مآب خواتین کو دربار یزید میں لایا گیا اورجب یزید کے دربار میں نواسی رسول ؐ حضرت زینب کبری سلام اللہ علیھا کی نظر اپنے بھائی امام حسینؑ کے کٹے ہوئے سر پر پڑی تو ایک نہایت ہی افسردہ آواز میں فریاد بلند کی: ’’اے حسینؑ اے محبوب رسول خدؐا،اے فرزند مکہ و منی ٰ، اے فرزند فاطمہ زہراؑ سیدۃ النساء العالمین اور اے فرزند بنت مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم‘‘ ۔راوی کا بیان ہے کہ خدا کی قسم حضرت زینبؑ کی اس فریاد کو سنتے ہی یزید کے دربار میں موجود تمام لوگوں نے رونا شروع کر دیا۔ اسی اثنا میں یزید نے چھڑی سے امام حسین ؑ کے لب ہائے مبارک کے ساتھ کھیلنا شروع کیا۔’’ابو برزہ اسلمیؓ‘‘ بعض روایات کے مطابق’’ سہل ابن سعدؓ ‘‘جو کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے صحابہ میں سے تھے، وہ بھی یزید کے دربار میں موجود تھے، نے یزید سے مخاطب ہو کر کہا:اے یزید! آیا اس چھڑی کے ساتھ فاطمہؑ کے نور نظر، حسینؑ کے ہونٹوں سے کھیلتاہے؟ خدا کی قسم میں نے اپنی آنکھوں سے پیغمبر اکرمؐ کو دیکھا ہےجو حسینؑ اور ان کے بھائی حسنؑ کے ہونٹوں کا بوسہ لیتے ہوئے فرما رہے تھے: ’’تم دونوں جنت کے جوانوں کے سردار ہو۔ خدا تمہیں شہید کرنے والے کو ہلاک کرے اور اس پر لعنت بھیجے اور اس کا ٹھکانہ جہنم قرار دے جو بہت بری جگہ ہے۔‘‘ یہ سن کر یزید کو بہت غصہ آیا اور اس نے اس صحابی کو اپنی محفل سے باہر نکلنے کا حکم دے دیا پھر ملعون نے کچھ شعر گنگنانا شروع کیا جسے ابن زبعری نے غزوہ احد کے بعد گنگنایا تھا۔

’’کاش کہ میرے وہ بزرگ جو جنگ بدر میں قتل کر دیئے گئے تھے وہ آج ہوتے اور دیکھتے کہ کس طرح قبیلہ خزرج نیزہ مارنے کے بجائے گریہ وزاری میں مصروف ہے۔ اس وقت وہ خوشی میں فریاد کرتے اور کہتے : اے یزید ! تیرے ہاتھ شل نہ ہوں!‘‘

یزید کا یہ فاسقانہ کلام سن کر نبیؐ کی نواسی حضرت زینب سلام اللہ علیہا کو جلال آگیا اور انہوں نے تاریخی خطبہ ارشاد فرمایا۔

ساری تعریف اس خدا کے لئے ہے جو کائنات کا پروردگار ہے۔ اور خدا کی رحمتیں نازل ہوں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر اور ان کی پاکیزہ عترت و اہل بیتؑ پر۔ اما بعد ! ۔۔۔۔۔

اربعین کے دن کو زندہ رکھنا، اسے منانا امام حسین علیہ السلام کے عظیم مقصد سے وابستگی کی علامت ہے ۔امام حسین علیہ السلام سے وابستگی آزادی و حریت کا درس دیتی ہے ۔امام حسین علیہ السلام سے وابستگی انسانی اقدار اور اعلی مقاصد کیلئے قربانی کے جذبے کو بیدار رکھتی ہے ،امام حسین علیہ السلام سے وابستگی ظالموں کا خوف دلوں سے ختم کردیتی ہے ۔

جس طرح ہر عبادت اپنے اندر ایک فلسفہ رکھتی ہے نماز انسان کو برائیوں اور منکر ات سے بچاتی ہے، روزہ تزکیہ نفس کا درس دیتا ہے اسی طرح امام حسین علیہ السلام کو یاد رکھنا ان کا تذکرہ کرنا امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے جذبے کو زندہ رکھتا ہے کیونکہ امام حسین علیہ السلام کے قیام کا مقصد ہی اسلام پر چھا جانے والی برائیوں کا خاتمہ اور رسول خدا حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی شریعت کا احیاء تھا۔جب تلک کربلا والوں کا تذکرہ زندہ ہے دین پر فداکاری کا جذبہ بھی زندہ رہے گا۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .