جمعرات 14 اگست 2025 - 17:33
چہلمِ امام حسین علیہ السلام کا ارتقائی سفر،  ماضی سے حال تک

حوزہ/ چہلمِ امام حسین علیہ السلام ہمیں دعوت دیتا ہے کہ ہم اپنے اندر ظلم کے خلاف کھڑے ہونے کا حوصلہ، حق کے لیے قربانی دینے کا جذبہ اور مظلوموں کے ساتھ چلنے کا عزم پیدا کریں اور یہی اربعین کا اصل فلسفہ ہے، یہی اس کا آفاقی پیغام ہے اور یہی وہ روشنی ہے جو زمان و مکان کے پردوں کو چاک کرکے دلوں تک پہنچتی ہے۔

تحریر: مولانا سید رضی حیدر پھندیڑوی

حوزہ نیوز ایجنسی | اسلامی تاریخ میں بعض واقعات ایسے ہیں جنہوں نے انسانی ضمیر کو جھنجھوڑا اور آنے والے زمانوں کو ایک نئی فکری و عملی راہ عطا کی۔ ان واقعات میں سب سے اہم و مرکزی سانحہ، واقعۂ کربلا ہے۔ امام حسین علیہ السلام کی شہادت محض ایک شخص یا ایک خاندان کی قربانی نہ تھی بلکہ یہ ظلم و جبر کے خلاف ایک ابدی قیام، حق کی بقا اور دینِ محمدی کی تجدید کا اعلان تھا۔ چہلمِ امام حسین علیہ السلام اسی قربانی کی یاد کا تسلسل ہے جو ہر سال اربعین کے موقع پر دنیا بھر کے حریت پسند دلوں کو اپنی طرف کھینچتا ہے۔
یہ تحریر "چہلمِ امام حسین علیہ السلام کا ارتقائی سفر، ماضی سے حال تک" عنوان کے تحت اس روایت کے تاریخی آغاز، فکری بُعد، روحانی اثرات اور معاصر دور میں اس کے عالمی پیغام کا احاطہ کرتی ہے۔
اربعین عربی زبان کا لفظ ہے، جس کے معنی ہیں "چالیس" اسلامی تعلیمات میں چالیس کا عدد روحانی طور پر ایک خاص اہمیت کا حامل ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو چالیس شب تک کوہِ طور پر رہنے کا حکم دیا گیا، حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم نے چالیس سال کی عمر میں نبوت کا اعلان فرمایا اور اولیائے کرام کی تربیت کے لیے بھی "چلہ کشی" کی اصطلاح معروف ہے۔
امام حسین علیہ السلام کی شہادت کے بعد چالیسویں دن کی یاد (یعنی چہلم یا اربعین) نہ صرف سوگ کی تکمیل ہے بلکہ شعورِ حسینی کی بیداری کا دن بھی ہے۔اربعین کی بنیاد تاریخِ اسلام کے ایک نورانی لمحے سے جڑی ہوئی ہے۔ مشہور روایت کے مطابق رسول خدا کے جلیل القدر صحابی، حضرت جابر بن عبداللہ انصاری، پہلے شخص تھے جنہوں نے چالیس دن کےبعد کربلا پہنچ کر امام حسین علیہ السلام کی قبر کی زیارت کی۔ ان کے ہمراہ عطاء بن ابی رباح بھی تھے۔ حضرت جابر کی یہ زیارت نہ صرف ایک انفرادی عمل تھا بلکہ یہ پیغام تھا کہ امام حسینؑ کی قربانی کو فراموش نہیں کیا جائے گا۔روایت کے مطابق اسی دن اہلِ بیت کا قافلہ بھی شام سے واپسی پر کربلا آیا۔ اگرچہ اس واقعے کی تاریخی تفصیل میں اختلاف ہے، مگر مکتبِ اہلِ بیت میں اس دن کی عظمت مسلمہ ہے۔
صدیوں تک، خاص طور پر اموی و عباسی حکومتوں کے دور میں، اربعین جیسے شعائر پر سخت پابندیاں رہیں۔ زائرین پر ظلم کیا جاتا، راستے بند کیے جاتے، اور امام حسینؑ کی یاد کو دبانے کی بھرپور کوششیں ہوئیں یہاں تک کہ صدام حسین کی حکومت میں بھی اربعین حسینی کے جلوس پر پابندیاں رہیں۔ لیکن حسینی شعور مٹایا نہ جا سکا۔
وقت کے ساتھ ساتھ یہ روایت اربعین سادات، علما، شعرا، اور مؤمنین کی قربانیوں سے پروان چڑھتی رہی۔ زیارتِ اربعین مستحب مؤکدہ ہے، حتیٰ کہ امام حسن عسکری علیہ السلام نے اسے مومن کی علامات میں شمار فرمایا۔
اربعین نہ صرف ایک مذہبی موقع ہے بلکہ یہ ادب، فکر، فلسفہ، اور روحانی ارتقاء کا سرچشمہ بھی بن چکا ہے۔
اردو، فارسی، عربی اور دیگر زبانوں کے شعرا نے چہلم پر اشعار کہے، نوحے لکھے، اور مرثیے تخلیق کیے۔ چہلم کا تذکرہ علامہ اقبال، میر انیس، دبیر، اور فیض احمد فیض جیسے شعرا کے کلام میں بھی نظر آتا ہے، اگرچہ مختلف انداز میں۔
اربعین کے پیغام میں فکر و سلوک کی گہرائی پائی جاتی ہے جس میں وفاداری کی معراج، صبر و استقامت کا سبق، ظالم کے خلاف پُرامن مگر پرعزم قیام اور اجتماعیت اور امتِ واحدہ کا تصور وغیرہ شامل ہے۔
صدیوں سے انسانیت اپنے اپنے شہر، آبادی، دیہات اور ،لک میں امام حسین علیہ السلام کا چہلم منا رہی ہے مگرآج اربعین ایک زندہ اور بیدار عالمی تحریک کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ ہر سال کروڑوں مسلم و غیر مسلم افراد نجف سے کربلا تک کا پیدل سفر طے کرتے ہیں۔ یہ "اربعین واک" صرف ایک مذہبی رسم نہیں، بلکہ اخوت، خدمت، ایثار اور وحدتِ انسانیت کی اعلیٰ ترین مثال ہے۔
اہلِ عراق، ایران، پاکستان، لبنان، خلیجی ممالک اور دنیا بھر سے زائرین کربلا آ کر دنیا کو یہ پیغام دیتے ہیں کہ "ہم ظلم کو قبول نہیں کرتے، ہم مظلوم کے ساتھ ہیں، اور ہم حسینؑ کے کارواں کا حصہ ہیں۔اربعین واک، دراصل ظلمت کے مقابلے میں روشنی کا کارواں ہے جو ہر سال مضبوط تر ہوتا جا رہا ہے۔
چہلمِ امام حسین علیہ السلام ایک علامت ہے۔ ایسی علامت جو وقت گزرنے کے ساتھ مدھم ہونے کے بجائے مزید روشن ہو رہی ہے۔ ماضی میں جب اسے مٹانے کی کوشش کی گئی، تو یہ مزید نکھر کر سامنے آیا۔ آج اربعین صرف ایک مذہبی تقریب نہیں بلکہ ایک عالمی پیغام ہے جو عدل، بیداری، ایثار، ہمدردی، اخلاص اور انسانیت کے فروغ کا ذریعہ ہے۔
چہلم کا ارتقائی سفر، اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ امام حسینؑ کی شہادت ایک لمحاتی احتجاج نہیں بلکہ ایک ابدی تحریک ہے، جو ہر زمانے میں زندہ ہے اور زندہ رہے گی۔
جہاں معاصر دنیا مذہبی، سیاسی اور سماجی انتشار کی شکار ہے وہیں اربعین کا اجتماع انسانیت کے لیے دعوت فکر اورحیرت انگیز پیغام انسانیت بن چکا ہے۔ عراق کی سرزمین پر ہر سال چالیس ملین سے زائد افراد کا اجتماع نہ ہتھیاروں کے سائے میں ہوتا ہے، نہ حکومتوں کے زور پر، بلکہ محبتِ امام حسینؑ اور شعورِ کربلا کے جذبے سے پروان چڑھتا ہے۔ یہ اجتماع دنیا کو یہ دکھاتا ہے کہ امام حسینؑ کا پیغام سرحدوں کا پابند نہیں بلکہ دلوں کی زبان ہے۔
چہلمِ امام حسین علیہ السلام ہمیں دعوت دیتا ہے کہ ہم اپنے اندر ظلم کے خلاف کھڑے ہونے کا حوصلہ، حق کے لیے قربانی دینے کا جذبہ اور مظلوموں کے ساتھ چلنے کا عزم پیدا کریں اور یہی اربعین کا اصل فلسفہ ہے، یہی اس کا آفاقی پیغام ہے اور یہی وہ روشنی ہے جو زمان و مکان کے پردوں کو چاک کرکے دلوں تک پہنچتی ہے۔
آخر میں دعا ہے پروردگار لوگوں کو زیادہ سے زیادہ حق پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرما، تمام عزاداروں کو شہداء و صالحین میں محشور فرما، ماہنامہ صدائے علم کو ترقی عطا فرما، تمام اراکین کی نیک توفیقات میں مزید اضافہ فرما اور آخری حجت کے ظہور میں تعجیل فرما آمین والحمدللہ رب العالمین۔

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha

تبصرے

  • میثم IN 05:29 - 2025/08/15
    بہت عمدہ
  • Husain abbas IN 07:01 - 2025/08/15
    Bohut umda uor bohut kuch likha zinda bad
  • Imam haider IN 06:16 - 2025/08/17
    Jazakallah Achi tehrer he Zindabad