تحریر: عنایت علی شریفی
حوزہ نیوز ایجنسی | اربعین کے لفظی معنی ہیں: چہلم ، چالیسواں اور چالیس۔ اصطلاح میں کسی کی موت واقع ہونے کے انتالیس دن بعد اس کی یاد منانے کو اربعین کہاجاتاہے۔
عام طور پر مسلمان اپنے عزیز و اقارب کی وفات کے چالیسویں دن سوگ اور خیرات کے ذریعے اس کی یاد مناتے ہیں۔تاریخ کربلا پر نظر کی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ واقعۂ کربلا دس محرم الحرام ۶۱ ھ کو پیش آیا ۔واقعہ کربلا میں امام حسین علیہ السلام اور آپ کے با وفا اصحاب شہید ہوئے۔خاندان رسالت کی مخدراتِ عصمت و طہارت کو اسیر کرکے کوفہ اور شام لے جایاگیا ۔وہاں سے رہائی پانے کے بعد امام سجاد علیہ السلام کے کہنے پر ۲۰ صفر کو شہدائے کربلا کی یاد منانے کےلئے یہ قافلہ کربلا معلی لایا گیا۔ اس دن کو اربعین حسینی بھی کہاجاتاہے جو قمری سال کے مطابق ۲۰ صفر المظفر کا دن ہے۔ در حقیقت یہ امام حسین علیہ السلام اور آپ کے باوفا اصحاب کی شہادت کا چالیسواں دن ہے۔مشہور ہے کہ جابر بن عبداللہ انصاری جو پیغمبر اسلام کے قریبی صحابی تھے امام حسین علیہ السلام کے پہلے زائر ہیں۔جابر عطیہ یا (عطاء) بن سعید کے ہمراہ ۶۱ھ میں امام حسین علیہ السلام اور آپ کے باوفا اصحاب کی شہادت کے چالیسویں دن کربلا معلی آئے ۔وہاں انہوں نے قبر امام حسین علیہ السلام کی زیارت کی۔
مرحوم سید بن طاؤوس کہتے ہیں کہ جب اسرئے آل رسول شام سے مدینے کی طرف سفر کرتے ہوئے عراق پہنچے تو تو امام نے فرمایا: ہمیں کربلا کے راستے سے لے جایا جائے۔ چنانچہ انھیں کربلا کے راستے سے لے جایا گیا۔ جب یہ لوٹا ہوا قافلہ کربلا پہنچا تو انہوں نے دیکھا کہ جابر بن عبداللہ انصاری اور بنی ہاشم کی ایک جماعت بھی امام حسین علیہ السلام کی زیارت کےلئے آئے ہوئے ہیں۔ سب نے رونا پیٹنا شروع کیا۔ کہتے ہیں کہ وہاں کچھ دن تک امام سجاد اور اسیران آل رسول نے عزاداری کی۔(لہوف ۲۲۵)
کیا بتاوں میں کہ کیا ہے اربعین کربلا کا آئینہ ہے اربعین
دین کی وجہ بقا ہے اربعین اور باطل کی فنا ہے اربعین
ہر زمانے کی ہدایت کےلئے حق کا سیدھاراستہ ہے اربعین
ظلمت شب میں سحر کے واسطے ایک نورانی دیا ہے اربعین
صفحہ ہستی سے مٹ سکتا نہیں ایک ایسا واقعہ ہے اربعین
کس قدر امت نے ڈھائے ہیں ستم کیا ستم ، کیسی جفا ہے اربعین
آج بھی ہر ہر یزیدی کے خلاف گونجتی تیری صدا ہے اربعین
چل کے سب جاتے ہیں پیدل کربلا عشق کی یہ انتہا ہے اربعین
تو رہے زندہ سلامت حشر تک یہ شریفی کی دعا ہے اربعین
اربعین کی اہمیت
کسی بھی معصوم امام کی زیارت کی اتنی تأکید نہیں ہوئی جتنی امام حسین علیہ السلام کی زیارت کی ہوئی ہے۔اربعین ِحسینی کی اہمیت کو جاننے کےلئے سب سے پہلے ہمیں شہادت امام حسین علیہ السلام کی اہمیت کو سمجھنے کی ضرورت ہے ۔امام حسین علیہ السلام کی شہادت کس قدر عظیم ہے ؟ اس بارے میں امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں کہ امام حسین علیہ السلام کی شہادت پر آسمان چالیس دن خون کے آنسو روئے اور زمین چالیس دن تک آندھی اور تیرگی کی صورت میں گریہ کناں رہی۔آسمان پر چالیس دن سوج گرہن رہا اور آسمان کے فرشتے چالیس دن روئے۔(مستدرک الوسائل ص۲۱۵)
یہ روایت در حقیقت امام حسین علیہ السلام کی عظیم شہادت کو اجاگر کرتی ہے کہ امام حسین علیہ السلام کی شہادت نہ صرف انسانیت کے لیے درد ناک ہے بلکہ پوری کائنات کےلئے غم و اندوہ کا باعث ہے۔ علامہ محمد باقر مجلسی سے منقول ہے کہ خداوند متعال نے اپنے مقرب فرشتوں سے مخاطب ہو کر فرمایا: کیا تم حسین کے زائرین کو نہیں دیکھ رہے ہو کہ وہ کس طرح شوق و رغبت کے ساتھ ان کی زیارت کے لیے آتے ہیں ؟
روایات میں زیارتِ امام حسین علیہ السلام کے بہت سے آثار و برکات بیان ہوئے ہیں۔ البتہ زیارت میں تقرب اور اخلاص کے ساتھ ساتھ معرفت اور شناخت کا عنصر بھی شرط ہے۔
امام صادق علیہ السلام نے ابن بُکَیر سے جو امام حسین علیہ السلام کی زیارت کی راہ میں حائل خوف و ہراس کے بارے میں بتا رہے تھے، سے ارشاد فرمایا:اَمَا تُحب اَن یراک اللہ فینا خائفا ؟ اما تعلم انہ من خاف لخوفنا اظلہ اللہ فی ظل عرشہ؟ کیا تم یہ پسند نہیں کرتے کہ خداوند تمہیں ہماری راہ میں خوف و ہراس کی حالت میں دیکھے ؟ کیا تم نہیں جانتے ہو کہ جو ہمارے خوف کی بناء پر خائف ہو، اس کے اوپر اللہ تعالی اپنے عرش کا سایہ کرے گا ؟
امام حسین علیہ السلام کے اربعین (چہلم) کی تکریم و تعظیم اور سوگواری کی دلیل امام حسن عسکری علیہ السلام سے منقول روایت ہے۔امام حسن عسکری علیہ السلام سے منقول ایک حدیث میں زیارت اربعین کو مؤمن کی پانچ علامتوں میں سے ایک علامت قرار دیا گیا ہے۔ روایت یہ ہے:
عَلَامَاتُ الْمُؤْمِنِ خَمْسٌ : صَلَاةُ الْإِحْدَى وَ الْخَمْسِينَ وَ زِيَارَةُ الْأَرْبَعِينَ وَ التَّخَتُّمُ
بِالْيَمِينِ وَتَعْفِيرُ الْجَبِينِ وَالْجَهْرُ بِبِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ۔مؤمن کی پانچ نشانیاں ہیں:
شب و روز کے دوران ۵۱ رکعت نماز پڑھنا، زیارت اربعین پڑھنا، دائیں ہاتھ میں انگشتری پہننا ، سجدے میں
پیشانی مٹی پر رکھنا اور نماز میں بسم اللہ الرحمن الرحیم کو جہر کے ساتھ (بآواز بلند) پڑھنا۔(طوسی، تہذیب الاحکام،
ج6 ص52۔)
امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں کہ جو شخص امام حسین علیہ السلام کی زیارت کے لئے پیدل چل کر جاتا ہے خداوند متعال اس کے ہر قدم کے بدلے ایک نیکی لکھتا ہے ، ایک گناہ ختم کرتا ہے اور بقولے ایک درجہ بلند کرتا ہے۔ جب وہ زیارت کےلئے آتا ہے تو خداوند متعال دو فرشتوں کو اس پر مامور کرتاہے تاکہ اس کے منہ سے جو اچھی بات نکلے اسے لکھ لیں اور اس کے منہ سے جو غلط بات نکلے اسے نہ لکھیں۔ جب وہ لوٹ جاتا ہے تو اس سے وداع کر کے کہتے ہیں: اے دوست ِخدا! تمہیں بخش دیا دیا گیا ہے اور تم حزب اللہ اور حزب رسول اور حزب اہل بیت میں شامل ہو ۔خدا کی قسم ! تم جہنم کی آگ کو کبھی نہیں دیکھو گے اور آگ بھی تجھے نہ دیکھ سکے گی اور تمہیں شکار نہ کرسکے گی۔(کامل الزیارت ص 134)