۳۱ شهریور ۱۴۰۳ |۱۷ ربیع‌الاول ۱۴۴۶ | Sep 21, 2024
موکب شیخ زکزاکی

حوزہ/ اربعین حسینى كے بے مثال اجتماع میں متعدد ممالک ، مختلف زبانوں اور مختلف ادیان ومذاہب كے لوگ شریک ہوتے ہیں۔حسین بن علىؑ کے عشق نے ان سب کو ایک لڑی مىں پرویا ہوا ہے۔

تحریر: شیخ حسین چمن آبادى

حوزہ نیوز ایجنسی | اسلامی ثقافت اور علم عرفان مىں چالیس كى عدد كو خاص اہمىت حاصل ہے۔ بطور مثال طلبِ حاجات کے لیے اور عرفانى سیر وسلوك كے اہم ترىن مقامات تک رسائى كے لىےچالیس روزہ چلّہ كشى کی جاتی ہے۔ چہل حدیث، چالیس روز كے اخلاص كى روایت (من أخلص‏ لله‏ أربعين‏ صباحا ظهرت ينابيع الحكمة من قلبه على لسانه . جامع الأخبار(الشعيري) ؛ ص94)،چالیس سال كى عمرمىں بلوغ ِعقل والى حدىث،چالیس مؤمنىن كے لىے دعا كرنے كى تاكىد، بدھ كى چالیس راتیں ، مؤمن کے کفن كے ساتھ چالىس لوگوں كا دستخط شدہ شہادت نامہ دفنانا وغىرہ ہمارى رواىات میں بہت مرسوم ہیں۔

اسلامی ثقافت ميں حضرت امام حسىن علیہ السلام اور آپؑ كے جانثاروں كى شہادت كے چالیسویں روز کو اربعین كہا جاتا ہے۔ امام مظلومؑ كى شہادت كے پہلی چالیسویں كو رسول خدا ﷺ كے بزرگ صحابى حضرت جابر بن عبد اللہ انصارىؓ اور عطىّہ عوفى نے سب سے پہلے آپؑ كى قبر مطہر پر آكر زىارت كى۔ بعض رواىات كے مطابق اسیرانِ آل محمدؐ پہلی اربعىن كو كربلا پہنچے ۔ وہاں جابربن عبداللہ سے ان کی ملاقات ہوئى۔ بعض مؤرخىن نے اس رواىت كى نفى كرتے ہوئے كہا ہے كہ اہل بىتؑ پہلی اربعىن كو كربلا نہىں پہنچے تھے۔ (منتہى الآمال ج۱، ص ۳۴۲)

اربعىنِ حسینى کا پیدل مارچ تارىخ انسانیت کا ایک بے نظیركارنامہ ہونے كے ساتھ امام حسین علیہ السلام كے مقدس اہداف كی تکمیل ، شیعہ مذہب كے پرچار اور عالمى سطح پر سیرت آلِ محمد پر مبنی سماج كى تشكیل مىں سنگ میل كى حیثیت ركھتا ہے۔ اس عظىم موقعے سے استفادہ كرتے ہوئے پورى دنیا مىں اسلام كے نورانى چہرے كو روشناس كیا جا سكتا ہے۔

اس موثر ترىن موقعے پر زائرین حسینی كى ذمہ دارى دو چنداں ہوجاتى ہے كىونكہ اس عظىم اجتماع كا بندوبست امام حسین ؑ ، اہل بىت پىغمبرؐ اور اصحاب باوفا خود ہى كردىتے ہىں۔ پورى دنىا سے ہر رنگ ونسل، ہر فرقہ و مذہب اور ہرطبقہ زندگى سے تعلق ركھنے والے امام حسینؑ كى قبر مطہر كى طرف بے اختیارکھنچے چلے آتے ہىں۔ رسول خداﷺ كا فرمان پاك ہے: قتل حسینؑ مؤمنین كے نفس وجان مىں قىامت تک شعلہ ور رہے گا۔ إن لقتل‏ الحسين‏ حرارة في قلوب المؤمنين لا تبرد أبدا۔ مستدرك الوسائل و مستنبط المسائل ج‏10 ، 318 ، 49 ص : 311)

امام حسینؑ سے لوگوں كى محبت ومودّت مىں روز افزوں اضافہ دىكھنے كو مل رہا ہے۔ اس عشق ومحبت كو وجود میں لانے میں كسى انسان كا كوئى نقش نہىں ہے بلكہ ىہ سب كچھ آپؑ كى عظىم اور لازوال قربانى كا خداداد نتىجہ ہے كہ آج پورى دنىا كے لوگ رنگ ونسل ، فرقہ و مذہب ، زبان اور طبقاتی امتیازات سے ماوراء ہوكر لبیك ىاحسینؑ كا نعرہ مستانہ بلند كرتے ہوئے راستے كى تمام تر مشكلات كو عبور کرتے ہوئے كربلا ئے معلى كى طرف ٹھاٹھىں مارتے سمندر كى طرح امنڈ آتے ہیں ۔ اس عظىم اجتماع كے وقوع كے بارے مىں كسى قسم كى فكر نہىں ہونى چاہىے كىونكہ یہ اللہ كى منشاء كے مطابق وقوع پذىر ہوتا ہے لیکن فكر اس بات كى ہے كہ اس بحر بیکراں كے ذریعے درس كربلا اور اہداف عاشورا كو تحریف کے بغیر پورى دنىا كے كونے كونے تک کیسے پہنچایا جائے ؟ عصر حاضر کے فرعونوں ،یزىدیوں اور نمرودوں كے ظلم و ستم كى چكى مىں پسی ہوئی انسانىت كو ان كے چنگل سے كیسے نجات دلائى جائے؟ مفاد پرستوں، عیاشى كے دلدادہ لوگوں اور مقام ومنصب كے اسیروں كو اس دلدل سے كیسے باہر نكالا جائے؟ انہیں كیسے عاشورائى اور كربلائى بنایاجائے اور زائرىن حسینی اپنى صلاحیت ، استعداد اور مہارت كے مطابق اپنى ذمہ دارىوں كا تعین کیسےكریں ؟ان ذمہ داریوں مىں سے بعض كا ہم یہاں ذكر كرىں گے۔

۱۔ اربعین کے پیدل سفر میں شرکت

زیارت اربعىن اور اس کے لیے پیدل سفر اہل بیت پىغمبرﷺ كى سنت ہے۔ یہ سنت دور حاضرمیں زور پكڑتى جارہى ہے۔ اس سنّت حسنہ كے احىاء اور اجراء كے لىے تمام مؤمنىن خاص كر علمائے دىن اور طلاب كرام كو خصوصى دلچسپى لینى چاہئےكىونكہ روایات میں امام حسین علیہ السلام كى زیارت كو حج وعمرہ سے بالاتر گردانتے ہوئے امام جعفر صادق ؑ فرماتے ہیں:

زيارة الحسين‏ تعدل‏ مائۃ حجۃ مبرورة و مائۃ عمرة متقبلۃ۔(كشف الغمة في معرفة الأئمة ،ط القديمة ؛

ج‏2 ؛ ص41) امام حسینؑ كى زیارت سو مقبول حج اور سو مقبول عمرہ كے برابر ہے۔

دوسرى روایت مىں صادق آل محمدؑ زیارت حسینؑ كو واجب قرار دىتے ہوئے یوں فرماتے ہیں:

زيارة الحسين بن علي ع واجبة على كل من يقر للحسين بالإمامة من الله عز و جل۔ (كشف الغمة في

معرفة الأئمة ،ط القديمة، ج‏2، ص41) حسین ؑ كى امامت كا اقرار كرنے والے ہر شخص پر آپ كى زىارت واجب ہے۔

معتبر روایت مىں آیا ہے كہ ثروت مند افراد سال میں تىن بار اور فقراء سال مىں کم از کم ایک بار امام حسینؑ كى زىارت كے لىے كربلا جائیں ۔

امام حسن عسكرى ؑ نے مؤمن كى پانچ علامات مىں سے ایک زیارت اربعىن ہے۔

علامات المؤمن خمس: صلاة الخمسين، و زيارة الاربعين، و التختم فى اليمين، و تعفير الجبين

و الجهر ببسم الله الرحمن الرحيم۰(وسائل الشيعه، ج 10 ص 373، التهذيب، ج 6 ص 52)

ہمارى ذمہ دارىوں میں سب پہلی یہ ہے کہ ہم امام حسىنؑ كى زىارت كو عظیم سے عظیم تر اور با رونق انداز مىں بجالائیں۔ زىارت اربعین شعائر اللہ مىں سے ایک ہے۔ لہذا اسے باشكوہ انداز مىں منعقد كرنا ہم سب كا فرض ہے ۔دوسرى طرف اس مقدس سفر كے آداب کی رعایت كرنا واجب ہے مثلاً زائرىن كے ساتھ مہربانى سے پیش آنا، اول وقت میں نماز كى ادائیگى، كثرت سے صلوات پڑھنا، ذكر پڑھتے رہنا وغیرہ اور آداب زیارت کی رعایت۔

۲: ثقافتى كاموں كو اہمیت دینا

زیارت امام حسینؑ فقط ایک عبادت نہیں بلكہ اس كی كئى جہات ہیں۔ ان میں سے ایک اہم پہلو دنیا كے مختلف ملكوں سے آئے ہوئے زائرىن كو مذہبِ اہل بیت كى انسان ساز ثقافت سے آشنا كرنا ہےكیونكہ امام حسین ؑ سے بڑھ کر کوئی اوروسیلہ نہیں ہے جس كے ذرىعےلوگوں كو تو حید، عدل، نبوت، امامت ، معاد، نماز، روزہ، حج ، زكوٰة، خمس، امر بمعروف، نہى از منكر، تولا وتبرا اور دىگر ضرورىات دىن كے بارے مىں بتاىا جائے نیز واجبات كى اہمیت اور بجاآورى كى ضرورت كے متعلق لوگوں كى معرفت مىں اضافہ کیا جائے۔ یہ امور ہزاروں مساجد بنانے،بے شمار كار خیر بجالانے اور لاكھوں فقراء كى مدد كرنے سے بھى زیادہ موثر ہے۔ یہ بہت كم وقت اور نہاىت قلیل خرچ كے ساتھ بے شمار لوگوں كے قلب وروح پرگہرا اور جاودانہ اثرات مرتب كرسكتے ہیں۔

ثقافتى سرگرمیوں میں سے بعض یہ ہیں :۱۔مجالس حسینی ؑ كا انعقاد۔۲۔ خوبصورت روایت گرى۔۳۔ شیعہ مذہب كے اہم ترىن واقعات كو كارٹونزكى شكل میں رائج كرنا۔۴۔ امام حسینؑ كے گہربار كلمات پر مشتمل بینرز نصب كرنا۔۵۔ علماء ومراجع عظام اور شہدا كى تصاویركى نمائش۔۶۔ بچوں كے ل درمیان پینٹنگ كے مقابلے۔۷۔ كوئز مقابلے۔۸۔پمفلٹس شائع كركے تقسیم كرنا۔۹۔ واقعہ عاشورا اور اربعین كى اہمیت كے متعلق روایات پر مشتمل تحقیقی میگزینوں كى اشاعت۔۱۰۔ ہر کیمپ مىں معمم عالم دین كا وجود ۔۱۱۔ اوّل وقت كى نماز باجماعت۔۱۲۔ احكام شرعىہ کا بیان۔۱۳۔ ، ادعیہ وزیارات كو خوبصورت اور جذاب انداز مىں پڑھنا وغیرہ ۔

۳: اربعینى ثقافت كی نشر واشاعت

میڈىا پیغام رسانى كا بہترىن وسیلہ ہے۔ ہمارے دشمن اس وسیلے كو ہمارے ہى خلاف نہاىت خطرناك انداز میں استعمال كررہا ہے۔ طاغوت اور ان كے اشاروں پر چلنے والے بے دىن حكمران مسلمانوں میں افتراق وختلاف كا بیج بوكر اپنے سیاہ كرتوتوں سے لوگوں كى توجہ ہٹانے كے لیے میڈیاپر ہمارے خلاف زہر افشانى كرتے ہىں ۔نجف اشرف سے كربلائے معلى تک متصل پیدل چلنے والے كروڑوں انسانوں كے اس سیلاب کا دنیا كى میڈیا پر كہىں بھى تذكرہ نہىں ہوتا، بلكہ دشمن اس بے نظىر اجتماع پر پردہ ڈالنے كی سرتوڑ كوشش كرتے ہیں۔وہ حتی الامكان اسے چھپاتے ہیں ، كیونكہ یہ عظىم اجتماع دنیا بھر كے ستمگر، بے غىرت، بے دىن اور ہوا وہوس كے اسیر حكمرانوں نیز انسانى اقدار سے بے خبر اور عوام كا خون چوسنے والے مفاد پرست ٹولےكے خلاف سراپا احتجاج اور ان سے اظہار بیزارى كا نام ہے۔ اسی لیے وہ دنیا كے سب سے بڑے اجتماع كو میڈیا كى زینت بنانے سے كتراتے ہىں۔ اس لیے ہمارے درمیان بہت سارے ماہر اور تربىت ىافتہ گروہوں کو موجود ہونا چاہىے جوعشق حسینی مىں كربلا كى طرف بڑھتے عوامى سمندر کو كوریج دیں، پىغام كربلا ، صدائے حق اور لبیك ىا حسینؑ كى آواز كو پورى دنیا كے انسانوں تک پہنچائیں تاكہ حق كے متلاشىوں اور حقىقت كى جستجو كرنے والوں تک پىغام عاشوراءپہنچانے مىں كوتاہى نہ ہو۔

اربعین کا پیدل سفر اپنی تمام تر زیبائى و خوبصورتى كے ساتھ ساتھ ایک بہترىن فرصت ہے كہ ہم جدید اسلامى تمدن كو ملموس انداز مىں میڈیا كے ذرىعے دنیا تک پہنچائیں ۔ اس عظیم موقع سے استفادہ كرتے ہوئے ہمیں امام حسین علیہ السلام كے انسان ساز قىام كے اہداف كو سوشل میڈیا، پرنٹ میڈیا اور الیکڑانک میڈیا كے ذریعے دنیا كو دكھانا چاہیئے۔ میڈیا کو چاہیے کہ اربعىن واک كے صرف عاطفى اور احساساتى پہلو پر توجہ مركوز ركھنے كى بجائے اربعین کے اہداف ، اربعین كى خصوصیات ، زیارت كے ثواب، قیام امام حسینؑ كے مقاصد ، آپؑ كے دشمنوں كے سیاہ كرتوتوں اور راہِ ہدایت كى نشاندہی کی جائے ۔ علاوہ ازیں بلند اسلامی اہداف كے حصول كے لىے جان ومال اور اولاد كى قربانى، شہدائے كربلا كے ایثار وفداكارى كے جذبہ جیسے بے شمار حسین وجمیل پہلؤوں كو بھى روشن كیا جائے۔شہادتِ حسینى نے اپنی طویل تارىخ میں اپنی بقا و استمرار میں كبھى خلل آنے نہىں دیا۔عاشقان حسینی نے كبھى ہاتھ پاِؤں كٹوا كر ، كبھى عزىز واقارب كى قربانى دے كر، كبھى چھپ كر اور كبھى كھلے عام ابا عبد اللہ امام حسین ؑ كى زیارت كا سلسلہ جارى وسارى رکھا ہے۔

میڈیا کو چاہیے کہ قیام کربلا کے ان خوبصورت پہلؤوں كو بھى اپنے پروگراموں كى زىنت بنائے۔

۴: امام عصرؑكے ظہور كا راستہ ہموار كرنا

اربعین كے اس عظیم اجتماع میں منتقمِ آل محمد حضرت امام مہدى ارواحنا لہ الفدا ضرور تشرىف لاتے ہىں۔آپ اپنے ظہور کی سختیوں اور امّت كى مظلومیت دیكھ كر اپنے جدّ بزرگوار امام حسىنؑ كے روضہ اطہر پر گرىہ كرتے ہوں گے۔ پس كیوں نہ ہم ان كے ظہور اور عافیت كے لىے دعا وگریہ كرىں۔اہدافِ عاشوراء كی تکمیل آپؑ كے بابركت ظہور كے ساتھ منسلک ہے۔اس لىے اربعىن كے بے نظىر اجتماع كے دوران بعض کیمپوں اور خیموں كو امام مہدىؑ كے وجود مقدس، ظہور بابركت، ظہور کی علامات، ظہور كے بعد كے حالات و واقعات،عالمی حكومت ، عدل وانصاف كے قیام كے دور، ستگروں كے انجام، آپؑ كى عادلانہ عالمی حكومت كى كیفىت اور اس کے خدو خال وغیرہ سے مربوط احادیث كى تشریح و تحلیل كے لىے مختص كیاجانا چاہىے كیونكہ عالمى عادلانہ نظام سے خوفزدہ دشمنوں كى طرف سے امام مہدىؑ كى ولادت، ظہور،آپ کے امام عسكرى ؑ كا فرزند ہونے، دنىا كو عدل وانصاف سے پر کرنے نیز ظالموں اور خونخواروں كى حكومتوں كا قلع قمع کرنے كے بارے میں ہزاروں قسم كے شبہات پیدا کیے جارہے ہىں۔ یوں مؤمنین كے ذہنوں كو مشوّش کرنے کے لیے اقسام وانواع كے شبہات پىدا كیے گئے ہیں۔

۵: اتحاد وىكجہتى كا مظاہرہ كرنا

اربعین حسینى كے بے مثال اجتماع میں متعدد ممالک ، مختلف زبانوں اور مختلف ادیان ومذاہب كے لوگ شریک ہوتے ہیں۔حسین بن علىؑ کے عشق نے ان سب کو ایک لڑی مىں پرویا ہوا ہے۔دنیا كا امن دگرگون ہونے كے بعد ، فرقہ پرستى كے گرداب میں پسنے کے بعد، قوم،زبان اور علاقہ پرستى كے دلدل مىں پھنس جانے كے بعد، ایک دوسرے كى تكفىر کا مزہ چکھنے كے بعد، دىن و مذہب كے نام پر لاكھوں انسانوں كو بے جرم وخطا نابود كرنے كے بعد نیز دھماكوں اور خودكش حملوں كی بھیانک تباہى كے بعداب انسانوں كو امام حسینؑ كى زیارت اربعین كى شكل مىں اتحاد ویکجہتى كا عظیم پلیٹ فارم ہاتھ آیاہے۔ اسے دیکھ كر مشرق ومغرب كے طاغوتوں اور ان كے پىروكاروں پر وحشت ودہشت طارى ہوچكى ہے۔ دشمن آئے روز اتحاد كے اس عظىم محور كو خراب كرنے، دوسرے فرقوں كے مقدسات كے خلاف غلیظ زبان استعمال كروا كر ایک دوسرے كا جانى دشمن بنانے، اور نوخیز اسلامی تمدن كو ابتدائى مرحلے مىں ہى تباہ كرنے كے در پے ہیں۔ اب امام حسینؑ كى ذات ہى ایسى ہے كہ ہر انسان آپؑ كے عشق و محبت مىں اربعین كے ایام میں ٹھاٹھیں مارتے انسانى سمندر میں غوطہ زن ہونے كے لىے بے تاب نظر آتاہے ۔ امام حسین علیہ السلام نقطہ وحدت واتحاد ہے۔ اس لىے ہمیں ہر اس چىز سے اجتناب كرنا چاہىے جو ہمارے درمیان اختلاف و تفرقے كا باعث بنے۔ ہمیں مشتركات اور عواملِ اتحاد كى رعایت كرتے ہوئے آپس میں محبت واحترام، ایثار وفداكارى، عزت و مہربانى اور عطوفت ورحمدلى سے پىش آنا چاہىے،تاكہ دنیا ہمارے کردار اور آداب دیكھ كر خود امام حسینؑ كے مقدس اہداف كے بارے مىں غور وفكر كرنے پر مجبور ہوجائے۔ اگر ہم امام حسینؑ كے عشق مىں بے تاب بعض افراد كے مذہب كے خلاف نازىبا الفاظ استعمال كریں یا ان كى مذہبى شخصیات كى توہىن كریں یا ان کے مقدسات ِمذہب كے خلاف نازیبا زبان استعمال كریں تو یقیناہم امام حسینؑ كے اہداف كے خلاف دشمن كا آلہ كار بنیں گے ۔ اسلام اور ہمارا مذہب اس بات كى ہرگز اجازت نہىں دیتا كہ ہم آپس مىں دست وگریباں ہوں اور دشمن كے اہداف كے حصول میں ان كے معاون ومددگار ہوں۔

لہذا اىسے عوامل واسباب كى حوصلہ شكنى ہونى چاہىے جو تفرقے اور دنگا فساد كا سبب بنیں ۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .