جمعرات 7 اگست 2025 - 19:07
اربعین حسینیؑ محض ایک مذہبی رسم نہیں، بلکہ بیداری، وفاداری اور ظلم کے انکار کا عالمی پیغام ہے

حوزہ/ آیت اللہ العظمیٰ سیستانی کے یورپی نمائندہ حجت الاسلام والمسلمین سید مرتضیٰ کشمیری نے زائرینِ اربعین کے نام ایک جامع اور رہنما پیغام جاری کرتے ہوئے کہا کہ اربعین حسینیؑ محض ایک مذہبی رسم نہیں، بلکہ بیداری، وفاداری اور ظلم کے انکار کا عالمی پیغام ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، یورپ میں مرجع عالیقدر حضرت آیت اللہ العظمیٰ سید علی سیستانی کے نمائندے حجت الاسلام والمسلمین سید مرتضیٰ کشمیری نے زائرینِ امام حسین علیہ السلام کی خدمت میں ایک تفصیلی اور بصیرت افروز پیغام جاری کیا ہے، جس میں انہوں نے زیارتِ اربعین کے حقیقی معانی، اس کے اہداف، موجودہ فتنوں اور اس زیارت کے خلاف جاری نظریاتی و ابلاغی حملوں کی وضاحت کے ساتھ ساتھ مؤمنین کے لیے رہنمائی کے خطوط بھی واضح کیے ہیں۔ ان کا یہ پیغام دینی، فکری اور ابلاغی میدان میں زیارتِ اربعین کو ایک زندہ تحریک کے طور پر دیکھنے کی دعوت دیتا ہے۔

ذیل میں اس بیان کا مکمل متن پیش خدمت ہے:

مرجع کبیر کے نمائندہ برائے یورپ نے خدمتِ زائرینِ امام حسینؑ میں عراقیوں کی زحمات اور ان کی مہمان نوازی کو سراہتے ہوئے کہا:

زیارتِ اربعین، تجدیدِ منصوبۂ الٰہی ہے جو کسی خاص وقت یا کسی خاص گروہ سے مخصوص نہیں، بلکہ یہ روئے زمین کے تمام حریت پسندوں کے لیے صدائے لبیک ہے۔

امام حسین علیہ السلام کو اب بھی شہید کیا جا رہا ہے، اور ظلم ہنوز جاری ہے۔ اے آزاد لوگو! حمایت کے لیے اٹھو۔ آئیے ہم اس زیارت کے وفادار محافظ بنیں؛ صرف پیادہ روی کی حد تک نہیں، بلکہ اپنے دل، دماغ، قلم اور طرزِ عمل سے بھی۔ ہر کوئی جو اس میں خلوص کے ساتھ حصہ لیتا ہے، وہ دیوارِ قلعۂ الٰہی کی ایک مستحکم اینٹ ہے، اور خدا اپنے دین کی حمایت کرکے رہتا ہے، چاہے کافروں کو ناپسند ہی کیوں نہ ہو۔

زیارتِ اربعین حسینیؑ کوئی مذہبی رسم نہیں، بلکہ بیداری کا ایک منبر ہے۔ یہ زیارت، انقلابِ حسینیؑ کی عملی تصویر اور حق سے وفاداری اور انکارِ باطل کا اجتماعی اظہار ہے۔ اسی وجہ سے زیارتِ اربعین نشانۂ تیرِ ستم بننے سے محفوظ نہ رہی۔ صدیوں سے یہ ظالموں اور جابروں کے غیظ و غضب کا باعث اور ثقافتی، نظریاتی اور ابلاغی لڑائیوں کا مرکز رہی ہے۔

موجودہ دور میں بھی، اس زیارت نے کیا کچھ نہ دیکھا؟ تحریف، شبہات، پابندیوں اور غلط بیانیوں کے انبار نے بارہا سدِّ راہ بننے کی کوشش کی ہے۔ مؤمنین ان ریشہ دوانیوں کا مقابلہ کیسے کریں؟ اور اس الٰہی راستے کو انحراف و نقصان سے بچانے کے لیے کن وسائل کو بروئے کار لانا چاہیے؟ چند اہم نکات پیشِ خدمت ہیں:

اولاً: زیارتِ اربعین کے حوالے سے علمی شعور کو بلند کیا جائے

اسے ایک مستند اور مستحب رسم ثابت کیا جائے، جس کی فضیلت میں اہل بیت علیہم السلام کی واضح احادیث وارد ہیں۔

امام حسن عسکری علیہ السلام کا یہ فرمان:

"مؤمن کی پانچ علامتیں ہیں: اکیاون رکعت نماز، زیارتِ اربعین، داہنے ہاتھ میں انگوٹھی پہننا، پیشانی کو خاک پر رکھنا، اور بلند آواز سے 'بسم اللہ الرحمٰن الرحیم' پڑھنا۔"

لازم ہے کہ مؤمنین (خاص طور پر نوجوان نسل) کو اس زیارت کے فلسفے اور امام حسینؑ کے اصلاح آمیز انقلاب سے تعلق کو بیان کیا جائے:

"حق کی تلقین، ظلم سے مقابلہ، اور مظلوموں کی حمایت"

جب یہ فکر ذہن میں راسخ ہو جاتی ہے، تو یہ زیارت زائر کے لیے ایک ہدف مند موقف اور امام حسینؑ سے وفاداری کی گواہ بن جاتی ہے، پھر یہ محض ایک رسمی، موسمی، تفریحی، یا سیاحتی سفر نہیں رہتی۔ یہ عقیدہ تحریف اور غلط بیانی کی ہر کوشش کو بے اثر کر دیتا ہے۔

ثانیاً: باخبر اور بااثر ذرائع ابلاغ کے ذریعہ بین الاقوامی میڈیا کی سنسرشپ کا مقابلہ کیا جائے

دو کروڑ سے زیادہ افراد کا عظیم اجتماع، بڑے بین الاقوامی میڈیا اداروں میں غائب نظر آتا ہے۔ لہٰذا، ہمیں ابلاغی جنگ میں ایک مضبوط، ایماندار اور پیشہ ورانہ متبادل میڈیا کے ساتھ سامنے آنا چاہیے، جو اس ڈیجیٹل دور کے وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے دنیا کو اسی کی زبان میں مخاطب کرے۔

یہ کام عالمی سطح کے کثیر لسانی مواد (فلمیں، دستاویزات، مضامین وغیرہ) تخلیق کرکے ہی ممکن ہے جو دنیا کو زیارتِ اربعین کی عظمت کو انسانی، نظریاتی، اور فلاحی نقطۂ نظر سے متعارف کروانے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ ساتھ ہی، غیر جانبدار بین الاقوامی میڈیا اداروں کو زمینی کوریج کے لیے متوجہ کیا جائے۔ منظم موجودگی کے ساتھ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو فعال کرنا عمومی بیداری پیدا کرتا ہے اور جھوٹے دقیانوسی تصورات بے نقاب کرتا ہے۔

اسی طرح انجمنوں، ہیئتوں اور مواکب کو اپنے پیشہ ور نامہ نگاروں کو ایک نفیس اور جامع زبان میں دستاویز کرنے کی تربیت دینا شامل ہونا چاہیے۔ ایسے معیاری میڈیا کے ذریعے ہی اس پیادہ روی کے منظم بائیکاٹ کا خاتمہ کیا جا سکتا ہے، اور اسے دنیا کے سامنے جدید دور کے سب سے عظیم، پُرامن اور ایمانی مظاہرے کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے۔

ثالثاً: زیارتِ اربعین کی روحِ حقیقی کو برقرار رکھنے کے لیے اندرونی ریشہ دوانیوں کا مقابلہ کیا جائے

ان کی منشا یہ ہے کہ اس زیارت کو اس کے اصل پیغام اور ہدف سے دور کر دیں یا اسے محض سطحی پہلو تک محدود کر دیں۔ اس کا مقابلہ کرنے کے لیے مؤمنین کو درج ذیل باتوں پر عمل کرنا چاہیے:

سفر کے ہر قدم پر امام حسین علیہ السلام کے قیام کے مقصد کو پیشِ نظر رکھیں۔

(انہوں نے قیام کیوں کیا؟ مولا ہم سے کیا چاہتے ہیں؟ کیا ہم ان کے مقاصد کو اپنی زندگی میں عملاً نافذ کر رہے ہیں؟

اس زیارت کو ایک اخلاقی اور عملی تربیت گاہ کے طور پر پیش کیا جائے، نہ کہ محض ایک مذہبی رسم۔

لوگوں کے ساتھ میل جول، زائرین کی خدمت، قوانین کا احترام، نظم و نسق کی موجودگی اور نظافت کا خیال، زائرین کے لیے مرجع اعلیٰ کی ہدایات کے مطابق، زیارت سے کم مقدس نہیں ہیں۔

زیارت کے سیاسی یا فرقہ وارانہ استعمال کو مسترد کرنا، کیونکہ یہ زیارت ذاتی وابستگیوں سے بالاتر ہے، یہ ایک متحد، جامع انسانی منصوبہ ہے جسے کسی سیاسی یا پروپیگنڈا مقصد کے لیے اغوا نہیں کیا جا سکتا۔

زیارتِ اربعین کے راستوں پر فکری سیمیناروں کے انعقاد، کتابوں اور نشریات کی تقسیم، اور اصلاحِ حسینیؑ پر مکالمات کے ذریعہ زیارتِ اربعین کو امت مسلمہ کے واقعات میں شامل کیا جائے، اور اس کے ثقافتی پہلو کا احیاء ہو، جیسا کہ امام حسین علیہ السلام کے زائرین کے لیے مرجع اعلیٰ کی ہدایات میں بھی بیان کیا گیا ہے۔

مکالمات، لوگوں کی رہنمائی اور اپنے اعلیٰ اخلاق کے ذریعے ان شبہات کا جواب دینا جو زیارتِ اربعین کے حوالے سے ذہنوں میں موجود ہیں؛ خواہ وہ گمراہ افراد ہوں، گمراہ کن میڈیا کے متاثرین ہوں، یا الجھے ہوئے نوجوان ذہن۔

یہ شکوک و شبہات اس زیارت کے حوالے سے عمداً پیدا کیے جاتے ہیں، اس میں انتہاپسندی داخل کی جاتی ہے، یا ایک لاحاصل جذباتی مظاہرے کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ ان سب کا مقابلہ کرنے کے لیے درج ذیل ذرائع مفید ہیں:

قرآن، حدیث، عقل اور تاریخ پر مبنی علمی گفتگو کے ذریعہ لوگوں کو قائل کرنا۔

شکوک و شبہات پیدا کرنے والوں کے ساتھ بامقصد گفتگو، الجھن اور جذباتیت سے گریز کرتے ہوئے، ملحدین اور بدعتیوں کے ساتھ امام جعفر صادق علیہ السلام کے طرزِ عمل کی پابندی کرتے ہوئے مکالمہ کرنا۔

افراد اور معاشرے پر زیارتِ اربعین کے تعلیمی اور سماجی اثرات پر روشنی ڈالنا، اور بحث و نزاع سے بچتے ہوئے مخالفین کو حقیقت کے ذریعے قائل کرنا۔

اپنے رویے میں علمی پہلو کو باقی رکھنا، کیونکہ ایک مومن زائر کا کردار، اس کی بے لوثی، لوگوں کی خدمت، اور عمدہ طرزِ عمل زیارت اور زائرین پر لگائے گئے کسی بھی الزام کا بہترین جواب ہے۔

اس کی عملی مثال ہم نے ان مؤمنین کے ایک گروہ میں دیکھی ہے جنہوں نے اربعین حسینیؑ کے راستے میں مرجع اعلیٰ کی سفارشات کا لحاظ رکھتے ہوئے موکب لگایا۔

اتحاد، خدمت، اور عراقیوں کا جذبۂ کربلا

اپنی صفوں کو متحد رکھنا اور اس زیارتِ حسینیؑ کی خدمت کرنا، مخالفینِ زیارتِ اربعین کا مقابلہ کرنے کے اہم ذرائع میں سے ہیں، خاص طور پر اہل بیت علیہم السلام کے شیعوں کے درمیان اتحاد لازمی ہے۔ ایسا نہ ہو کہ اختلافات کا فائدہ اٹھا کر زیارت کی حرمت کو پامال کیا جائے۔ اس لیے تنظیموں اور مواکب کے درمیان ہم آہنگی کی ضرورت ہے، مقابلہ آرائی کی نہیں، تاکہ واقعی حسینیؑ اخلاق کی دنیا کے سامنے ایک متحد تصویر پیش کی جا سکے۔

اربعین کے راستوں میں خدمت، مہمان نوازی اور بھائی چارے کے جذبے کو زندہ کرنا اس کربلائی جذبے کی عکاسی کرتا ہے، جس نے حرؑ، عباسؑ، زہیرؑ، علی اکبرؑ، جونؑ اور دیگر شہداء علیہم السلام کو یکجا کیا تھا۔

ہم سب پر فرض ہے کہ ہم راہِ کربلائے حسینیؑ میں عراقیوں اور دیگر علاقوں کے تمام مومنین کی کوششوں کی قدردانی کریں جنہوں نے دنیا کے سامنے سخاوت، بزرگی اور شجاعت کی اعلیٰ ترین مثالیں قائم کی ہیں۔ ان حضرات نے میزبان کے حسبِ شان اور مہمان کے حسبِ حال مہمان نوازی کی ہے۔

ہم دست بدعا ہیں کہ مولا انہیں اس راہِ حسینیؑ میں اپنا سب کچھ قربان کرنے کے عوض محسنین میں شمار کریں اور شرورِ اعداء سے محفوظ رکھیں، اور ان کا حقیقی اجر تو بس اللہ، اس کے رسولؐ اور ائمۂ طاہرینؑ ہی عطا کر سکتے ہیں:

﴿إِنَّ اللَّهَ اشْتَرَىٰ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ أَنفُسَهُمْ وَأَمْوَالَهُم...﴾

"بے شک اللہ نے مسلمانوں سے ان کی جان اور ان کا مال اس قیمت پر خرید لیے ہیں کہ ان کے لیے جنت ہے..."

(سورہ توبہ، آیت 111)

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha