حوزہ نیوز ایجنسی سے گفتگو میں حوزہ علمیہ میں بین الاقوامی امور کے سربراہ حجت الاسلام والمسلمین سید مفید حسینی کوہساری نے اربعین کے متعلق چند اہم نکات اور تہذیبی مکالمے کے تقاضوں کی وضاحت کی، جن پر زائرین کو خاص توجہ دینی چاہیے۔
انہوں نے کہا: ہم اس وقت اربعین کے قریب ہیں اور عاشقانِ امام حسین علیہ السلام کا ایک سیلاب کربلائے معلی اور زیارت اربعین کی جانب رواں دواں ہے۔ یہ عظیم اجتماع، گذشتہ برسوں کی طرح، اس سال بھی مختلف ممالک سے کروڑوں زائرین کی شرکت سے اور عراقی قوم کی وسیع میزبانی سے منعقد ہو رہا ہے۔
انہوں نے کہا: بہت سے افراد یہ سوال کرتے ہیں کہ اربعین کے موقع پر، خاص طور پر ایسے افراد جو دیگر زبانوں سے آشنا ہیں یا حتیٰ کہ عراق کے وہ لوگ جو فارسی سے واقفیت رکھتے ہیں، ان کے ساتھ گفتگو میں کن موضوعات کو ترجیح دی جائے۔
حجت الاسلام کوہساری نے کہا: بلاشبہ ایرانی اور عراقی اقوام سیاسی، سماجی اور فکری لحاظ سے بالغ اقوام ہیں جو خود ہی ترجیحات کا تعین کر سکتی ہیں تاہم اس سال کے مخصوص حالات کے پیش نظر ہم کچھ نکات اور ترجیحات کو مدنظر رکھا جائے۔
انہوں نے کہا: سب سے پہلا نکتہ یہ ہے کہ ہمیں عراقی قوم، حکومت، قبائل، عمائدین، ممتازین، سیاسی رہنماؤں اور خصوصاً علما اور مراجع کا شکریہ ادا کرنا چاہیے۔ بالخصوص آیت اللہ العظمی سیستانی کی قیادت و رہنمائی پر ان کا شکریہ ادا کرنا نہایت ضروری ہے۔ ہمیں زبانِ شکرگزاری کو زیادہ سے زیادہ رائج کرنا چاہیے اور صرف پچھلے سالوں کے شکریے پر اکتفا نہیں کرنا چاہیے۔

حوزہ علمیہ میں بین الاقوامی امور کے سربراہ نے کہا:موکبوں، اداروں اور میزبانوں کا ایک ایک موقع پر شکریہ ادا کیا جانا چاہیے کیونکہ یہ عظیم، تاریخی اور اسٹریٹجک اجتماع اہل بیتؑ کے چاہنے والوں، مقاومتی محاذ کے حامیوں اور تمام مسلمانوں کے دلوں کو امام حسینؑ کے خیمے کی جانب کھینچتا ہے۔ اس لیے اربعین کی میزبانی، انتظام و انصرام اور خدمت پر عراقی عوام کا شکریہ ادا کرنا سب سے پہلا اور اہم ترین نکتہ ہے۔
انہوں نے مزید کہا: دوسرا نکتہ یہ ہے کہ حالیہ بارہ روزہ جنگ، جو صہیونی حکومت اور امریکہ نے مسلط کی، اس کے دوران عراقی عوام نے ہر سطح پر (عام شہریوں سے لے کر نخبگان، سیاستدانوں، علماء اور مراجع تک) ایرانی قوم کے ساتھ بے مثال ہمدردی اور یکجہتی کا مظاہرہ کیا، اس پر بھی ان کا خصوصی شکریہ ادا کیا جانا چاہیے۔
اگلا نکتہ مسلح افواج کی اہمیت اور ہماری سلامتی اور اختیار کا ہے۔ ایران، مسلح افواج اور عراق میں پاپولر موبلائزیشن فورسز اور سیکورٹی فورسز لگن اور درستگی کے ساتھ اربعین کی زیارت کے لیے حفاظت فراہم کرتے ہیں۔ ہمیں اس سیکورٹی اور ان افواج کا شکر گزار ہونا چاہیے اور اپنے قول و فعل میں ان کے وقار اور مقام کو برقرار رکھنا چاہیے۔ ہمیں ایسی باتیں نہیں کرنی چاہئیں جس سے مزاحمتی محاذ کی افواج اور ہماری اپنی افواج کی اہمیت کم ہو جائے۔ ہمیں مل کر مقاومتی محور کو مضبوط بنانا چاہئے۔
حجت الاسلام کوہساری نے کہا: ہمارا عقیدہ ہے کہ یہ جنگ صرف ایرانیوں یا شیعیوں کی تقدیر سے متعلق نہیں، بلکہ پورے خطے، مقاومتی محاذ اور امت مسلمہ کے مستقبل پر اثرانداز ہونے والا ایک اہم اور تاریخی واقعہ ہے۔ حتیٰ کہ بعض گروہ و طبقات جن سے پہلے توقع نہیں تھی، انہوں نے بھی اس مرحلے پر حیرت انگیز اتحاد کا مظاہرہ کیا۔ اس اتحاد و یکجہتی کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جانا چاہیے اور ہمیں خود بھی اور دوسروں کو بھی یاد دہانی کراتے رہنا چاہیے کہ اس کا تحفظ ہم سب پر واجب ہے۔









آپ کا تبصرہ