جمعہ 8 اگست 2025 - 18:40
اربعین مشی: ایک عالمی پیغام، ایک مقامی ذمہ داری

حوزہ/جب مظلومیت تختِ دار پر مسکرائے جب حق، نیزوں کی نوک پر اذان کہے اور جب صداقت، کربلا کی ریت پر سجدہ کرے—تو وہاں ایک تاریخ جنم لیتی ہے، جس کی کوکھ سے اربعین جیسا دن نمودار ہوتا ہے؛ ایک دن، جو محض تقویمی نہیں، بلکہ عقیدے، شعور اور بیداری کی معراج ہے۔

تحریر: مولانا عقیل رضا ترابی

حوزہ نیوز ایجنسی| جب مظلومیت تختِ دار پر مسکرائے جب حق، نیزوں کی نوک پر اذان کہے اور جب صداقت، کربلا کی ریت پر سجدہ کرے—تو وہاں ایک تاریخ جنم لیتی ہے، جس کی کوکھ سے اربعین جیسا دن نمودار ہوتا ہے؛ ایک دن، جو محض تقویمی نہیں، بلکہ عقیدے، شعور اور بیداری کی معراج ہے۔

اربعین: زخموں کا سفر، صبر کا جشن، وفا کا کارواں

اربعین فقط چہلم کا نام نہیں، بلکہ وہ لمحہ ہے جب قافلۂ اسیری، قافلۂ حریت بن کر واپس آیا۔

جس دن کربلا کا دشت خاموش نہ رہا، بلکہ کوفہ و شام کی سنگینیوں کو چیرتا ہوا صدائے زینبؑ بن کر بلند ہوا۔

یہ دن ہے اُس قربانی کا جو وقت کی ظاہری شکست کو ابدی فتح میں بدل گئی۔

اور آج بھی جب دنیا کے مختلف گوشوں سے لاکھوں عاشقانِ حسینؑ کربلا کی طرف روانہ ہوتے ہیں،

جب نجف سے کربلا تک کی 80 کلومیٹر خاکی راہ، اشکوں سے نم ہوتی ہے، جب سبیلوں پر پانی سے زیادہ محبت بانٹی جاتی ہے— تو لگتا ہے کہ کربلا زندہ ہے اور حسینؑ آج بھی قلوب کی دھڑکنوں میں رواں دواں ہیں۔

لیکن سوال یہ ہے... کیا کربلا صرف عراق میں ہے؟

کیا ہمارے گاؤں، قصبے، بستیوں اور شہروں میں وہ تڑپ نہیں جو نجف و کربلا کی مشی میں نظر آتی ہے؟

کیا ہمیں یہ حق نہیں کہ ہم بھی اپنی زمین پر وفا کے نقش ثبت کریں؟

کیا حسینؑ سے عشق کا اظہار فقط ویزا، پاسپورٹ اور سفر تک محدود ہے؟

اربعین کی مشی: اب ہماری بستیوں کا چراغ بھی بنے۔

ہمیں یہ ماننا ہوگا کہ اب وقت آ چکا ہے کہ ہم اپنے امام بارگاہوں سے اپنی بستی کی کربلا تک مشی کریں— چاہے فاصلہ کچھ قدموں پر مشتمل ہو، چاہے وہ ایک گلی ہو یا پوری بستی کی حدود، لیکن نیت ہو نجف سے کربلا جیسی اور جذبہ ہو لبیک یا حسینؑ کا۔

یہ مشی ایک علامت ہو کہ ہم بھی ظالم کے خلاف ہیں، ہم بھی حق کے ساتھ ہیں اور ہم بھی حسینؑ کے قافلے کا حصہ ہیں۔

سبیلیں، خدمت، اور سجدۂ شکر

اربعین کے دن، جب ہم مشی کریں،

تو ہمیں چاہئے کہ راستوں میں سبیلیں قائم کریں—

جہاں صرف پانی نہ ہو، بلکہ معرفت کا ذائقہ ہو،

جہاں فقط شربت نہ ہو، بلکہ عقیدت کی مٹھاس ہو، جہاں تھکن مٹانے کو سائے ہوں اور دل جگانے کو نوحے اور مرثیے ہوں۔

ایسا نہ ہو کہ ہم فقط دیکھتے رہیں،

بلکہ ہم وہ ہاتھ بنیں جو زائر کا سامان اٹھاتے ہیں، ہم وہ لب بنیں جو حسینؑ کا تذکرہ کرتے ہیں اور ہم وہ دل بنیں جو کربلا کے درد کو بستی بستی منتقل کرتے ہیں۔

یہ مشی فقط ایک رسم نہیں، یہ ایک مکتب ہے

یہی وہ موقع ہے کہ ہم اپنی نسلوں کو مشی میں شریک کریں۔

نوجوان، بزرگ، بچے، خواتین—سب ایک ساتھ، ایک قافلے میں۔

یہ کارواں ہمارے معاشرے میں بردباری، ایثار، اتحاد، صبر، استقامت اور بصیرت پیدا کرے گا۔

جب بچہ ماں کا ہاتھ پکڑ کر کہے: "ماں! ہم کہاں جا رہے ہیں؟" تو جواب آئے:"بیٹا! ہم حسینؑ کے پیچھے جا رہے ہیں، ہم حق کے راستے پر چل رہے ہیں!"

یہی وہ درس ہے جو اربعین ہمیں دیتا ہے—اور یہی درس ہمیں اپنے علاقوں میں زندہ کرنا ہے۔

اربعین: وقت کی سب سے بڑی تحریک

آج اربعین صرف ایک تاریخی دن نہیں، بلکہ یہ ایک تحریک ہے۔

ایسی تحریک جو مسجد، امام بارگاہ، مجلس، سبیل، لنگر، اور اب مشی کے ذریعے آگے بڑھ رہی ہے۔

تو کیوں نہ ہم بھی اس تحریک کا مرکز بنیں؟

کیوں نہ ہم بھی اپنے گاؤں کی مسجد سے امام بارگاہ تک، یا شہر کی ایک سمت سے دوسری سمت تک مشی کریں، نوحے پڑھیں، علَم اٹھائیں، ماتم کریں اور دنیا کو دکھائیں کہ: > "حسینؑ صرف کربلا میں نہیں، حسینؑ ہر دل میں زندہ ہیں!"

اب ہم پر ہے ذمہ داری

اربعین کی مشی ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ اگر ہم چل نہ سکے تو کسی چلنے والے کے پاؤں دھو دیں، اگر ہم پاؤں سے نہ جا سکے تو زبان سے حسینؑ کا تذکرہ کریں اور اگر زبان بھی خاموش ہو تو دل سے وفا کا سجدہ کریں۔

آئیے!

٢٠ صفر کو، اربعین کے روز، ہم سب اپنے اپنے شہروں، قصبوں اور گاؤں میں امام بارگاہ سے "کربلا" تک مشی کریں۔

جہاں بھی علم نصب ہو، وہ مقام کربلا ہے؛ جہاں بھی نوحہ بلند ہو، وہ زمین حسینؑ کی ہے؛جہاں بھی دل ٹوٹے ہوئے ہوں، وہیں سے مشی شروع ہوتی ہے۔

ہماری ہر بستی،ہر کوچہ اور ہر دروازہ اربعین کا راہی بنے—تبھی یہ عالمی پیغام، واقعی ہماری مقامی ذمہ داری کہلائے گا۔ > لبیک یا حسینؑ... ہر شہر سے، ہر دل سے، ہر قدم سے!

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha