حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، ماہِ عزا کے موقع پر امام علی (ع) فاؤنڈیشن نے خطباء منبر حسینی کی خدمت میں درج ذیل ہدایات اور نصیحتیں پیش کی ہیں جو مندرجہ ذیل ہیں:
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الحمد للہ رب العالمین، والصلوٰۃ والسلام علی سیدنا محمد و آلہ الطیبین الطاہرین۔
اما بعد:
امام جعفر صادق علیہ السلام نے فضیل بن یسار سے فرمایا: "کیا تم لوگ بیٹھ کر آپس میں گفتگو کرتے ہو؟"
انہوں نے عرض کیا: جی ہاں۔
تو آپ نے فرمایا: "مجھے ایسی مجالس بہت پسند ہیں۔ ہمارے مقصد کو زندہ رکھو، کیونکہ اللہ اُن پر رحم فرماتا ہے جو ہمارے امر کو زندہ کرتے ہیں۔"
ماہِ محرم محض ایک تاریخی مناسبت نہیں، جیسا کہ اقوامِ عالم کی تاریخ میں ایسے مواقع ہوتے ہیں، بلکہ یہ اسلامی بیداری، شعورِ دینی، اور قومی تشخص کی تجدید کا مہینہ ہے۔ اس مہینے میں اہل بیت علیہم السلام کی مظلومیت اجاگر کی جاتی ہے، اور امت کو یاد دلایا جاتا ہے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے الہی پیغام کی پاسداری، ان کی امت کی سب سے بڑی ذمہ داری ہے۔
اسی لیے اس مہینے میں مبلغین کرام پر عظیم ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔ کیونکہ امام حسین علیہ السلام کے نام پر منعقد ہونے والی مجالس میں مؤمنین، ذاکرین کے اثرانگیز کلام کو راہنمائی کا ذریعہ سمجھ کر اپنے افکار و کردار کو سنوارنے کے لیے آتے ہیں۔
لہٰذا، اس موسمِ گریہ، سوز و گداز، اور صدق و صفا سے پہلے، ہمیں ائمہ طاہرین علیہم السلام کی ہدایت کے زیر سایہ، اپنے بیان کو اس حد تک مؤثر، بامقصد اور عصری بنانا چاہیے کہ وہ حسینی پیغام کو جدید فکری و ثقافتی چیلنجز کے مقابلے میں پیش کرنے کی مکمل صلاحیت رکھتا ہو۔
مندرجہ ذیل نکات، ان اصولوں کا ایک خلاصہ ہیں جن پر مبلغین اور راہِ ہدایت کے سالکین کو ماہِ محرم کے دوران توجہ دینی چاہیے:
1: نیت اور اخلاص کی تجدید
مبلغ کو یہ سمجھنا چاہیے کہ حسینی منبر ایک الہی امانت ہے۔ اس کا مقصد صرف ذکر یا تقریر نہیں بلکہ پیغامِ حسینی کی اشاعت اور دعوتِ حق ہے۔ منبر پر آنا شہرت طلبی یا دنیاوی مفاد کے لیے نہیں ہونا چاہیے۔
امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: "جو شخص دینی کام سے دنیا کا فائدہ حاصل کرنا چاہے، اُس کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں ہے۔"
جتنی نیت خالص ہوگی، اتنا ہی خدا دلوں پر اثر ڈالے گا، دروازۂ ہدایت کھولے گا، اور مبلغ کی زبان کو اپنا نور عطا کرے گا۔
2: علمی اور تحقیقی گفتگو
امام حسین علیہ السلام کا منبر فقط جذباتی ترجمانی یا غیر تحقیقی روایات کا مقام نہیں، بلکہ یہ علم و معرفت اور ہدایت کا مرکز ہے۔
لہٰذا ہر بات مستند ہونی چاہیے، روایت کی سند، متن اور مقصد واضح ہونا چاہیے۔
ایسی حکایات اور افسانے جو نہ سند رکھتے ہیں نہ عقل و شرع سے مطابقت رکھتے ہیں، ان سے پرہیز ضروری ہے، کیونکہ یہ اقدامِ حسینی کی اصل تصویر کو مسخ کرتے ہیں اور مخالفین کو طعن کا موقع دیتے ہیں۔
صدقِ بیان اور تحقیق کی روش اہل بیت علیہم السلام کی خدمت کا اصل تقاضا ہے۔
3: قیامِ حسینی کے تبلیغی پہلو
امام حسین علیہ السلام کا قیام، انتقام یا اقتدار کے لیے نہ تھا، بلکہ دین کی احیاء، انحراف کے خلاف جہاد، اور عدل و انصاف کے قیام کے لیے تھا۔
آپ نے فرمایا: "میں اپنے نانا محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت کی اصلاح کے لیے نکلا ہوں۔"
پس ایک مبلغ کا فریضہ ہے کہ حسین علیہ السلام کو ایک الہی و اصلاحی رہنما کے طور پر پیش کرے، اور عصرِ حاضر کے انسان کو اس اصلاحی پیغام سے جوڑے۔
4: اخلاقی و سماجی اقدار کی ترویج
امام حسین علیہ السلام کی شہادت کا مقصد صرف گریہ نہیں، بلکہ ان اقدار کو زندہ کرنا ہے جن کے لیے آپ نے قربانی دی:
دیانت، صداقت، استقامت، تقویٰ، اور ایثار۔
مبلغین کو چاہیے کہ ان اخلاقی صفات کو معاشرتی مسائل سے مربوط کر کے پیش کریں:
مثلاً غیبت، حسد، قطع رحمی، ظلم، ناانصافی، اور جہالت کے خلاف حسینی روشنی میں کلام کریں، تاکہ سامعین محض سننے والے نہ ہوں بلکہ عمل کرنے والے بنیں۔
5: نوجوانوں کی رہنمائی اور منبر سے وابستگی
نوجوان، معاشرے کا سرمایہ اور مستقبل کی امید ہیں۔ منبر کو ان کے لیے بامعنی، مفید اور پرکشش بنایا جانا چاہیے۔
ان کی زبان، فکر، سوالات، اور فکری چیلنجز کو سمجھ کر گفتگو کی جائے، تاکہ وہ منبر سے قریب ہوں۔
کربلا کے نوجوانوں جیسے حضرت قاسم، حضرت علی اکبر اور دیگر اصحاب کی سیرت کو موجودہ نوجوانوں سے مربوط انداز میں پیش کیا جائے۔
6: آدابِ منبر اور محتاط گفتگو
منبر کا لہجہ شائستہ، زبان سنجیدہ، اور موضوعات مثبت و اصلاحی ہونے چاہییں۔
یہ مقام الزام تراشی یا نفرت انگیزی کے لیے نہیں، بلکہ اتحاد، اصلاح، اور حق کے بیان کے لیے ہے۔
روایت ہے: "ہمارے لیے زینت بنو، رسوائی کا سبب نہ بنو۔"
نظریاتی حقائق ضرور بیان کریں، مگر علمی و تعمیری انداز میں، تاکہ اختلاف نہیں بلکہ روشنی پھیلے۔
7: عقیدۂ مہدویت کی تقویت
عاشورا کا پیغام، ظہورِ قائم آلِ محمد عجلاللہفرجہ کی تمہید ہے۔
نعرہ "یالثارات الحسینؑ" کا حقیقی مصداق امام مہدی علیہ السلام کا ظہور ہے۔
لہٰذا مبلغین کو چاہیے کہ قیامِ حسینؑ کو ظہورِ مہدیؑ سے جوڑیں، اور واضح کریں کہ امام کا انتظار صرف نعرہ نہیں بلکہ حسینی صفات اختیار کرنے کا نام ہے۔
8: اندازِ بیان اور ترسیل کی تجدید
کربلا کی حقیقتیں لازوال اور پیغام ابدی ہے، لیکن اظہار کے طریقے وقت کے تقاضوں کے مطابق ہونے چاہئیں۔
مکرر اور فرسودہ اسلوب سے گریز کریں، اظہار کے نئے وسائل اپنائیں، اور سامعین کے ذہن و دل تک پہنچنے والے الفاظ استعمال کریں، تاکہ اثر باقی رہے۔
9: مبلغ کی سیرت اور عملی نمونہ
مبلغ صرف بولنے والا نہیں بلکہ دین کا نمائندہ ہوتا ہے۔
اس کے عمل، اخلاق، تواضع اور خلوص کو بھی ویسا ہونا چاہیے جیسا وہ کہتا ہے، تاکہ اس کی بات زبان سے نہیں دل سے اُترے۔
مبلغین کرام کو جان لینا چاہیے کہ حسینی منبر محض ایک ذریعہ اظہار نہیں بلکہ صدائے حسینؑ کی امانت ہے۔
وہ زبان جو امام حسینؑ کے ذکر سے تر ہے، وہ کردار جو اہل بیتؑ کی تعلیمات کا مظہر ہے، اور وہ نیت جو خدا کے لیے خالص ہو — یہی اصل حسینی مبلغ کی پہچان ہے۔
ہم خدا سے دعا کرتے ہیں کہ وہ تمام مبلغین اور ذاکرین کو ان کی ذمہ داریوں میں کامیابی عطا فرمائے۔
ان کے دلوں میں امام حسینؑ کی محبت کو اسی طرح راسخ کرے جس طرح آپؑ کو تمام امت کے دلوں میں جگہ عطا کی گئی،
اور انہیں امام زمانہ عجلاللہفرجہ کے اُن ناصران میں قرار دے جو آلِ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مشن کو زندہ رکھتے ہیں۔
السلام علی الحسینؑ، و علی علی بن الحسینؑ، و علی اولاد الحسینؑ، و علی اصحاب الحسینؑ۔









آپ کا تبصرہ