منگل 1 جولائی 2025 - 11:37
امام حسینؑ ایسا اسلام چاہتے ہیں جو عمل سے روشن ہو، نعروں سے نہیں

حوزہ/ یورپ میں آیت اللہ العظمیٰ سید علی سیستانی کے نمائندے، حجۃ الاسلام والمسلمین سید مرتضیٰ کشمیری نے شہادت سبطِ پیغمبر حضرت امام حسین ابن علی علیہ السلام کی مناسبت سے امت مسلمہ کی خدمت میں ایک تفصیلی پیغامِ تعزیت پیش کیا ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، یورپ میں آیت اللہ العظمیٰ سید علی سیستانی کے نمائندے، حجۃ الاسلام والمسلمین سید مرتضیٰ کشمیری نے شہادت سبطِ پیغمبر حضرت امام حسین ابن علی علیہ السلام کی مناسبت سے امت مسلمہ کی خدمت میں ایک تفصیلی پیغامِ تعزیت پیش کیا ہے، جس میں انہوں نے اس بنیادی سوال کا جواب دینے کی کوشش کی ہے کہ "امام حسینؑ آج کی امت سے کیا چاہتے ہیں؟"

انہوں نے کہا کہ امام حسینؑ کی شہادت کو 1386 سال گزر چکے ہیں، لیکن ان کی صدائے استغاثہ آج بھی کانوں میں گونج رہی ہے: «هَلْ مِنْ نَاصِرٍ یَنْصُرُنِی؟»

"ہے کوئی مددگار جو میری مدد کرے؟"

یہ سوال کسی شکست خوردہ فرد کا چیخ نہیں، بلکہ ہر زمانے کے زندہ ضمیر انسان کے لیے دعوتِ فہم و بیداری ہے۔

🔹 اوّل: حسینؑ ہمیں باعزت اور باوقار قوم دیکھنا چاہتے ہیں

امام حسینؑ نے ذلت کو قبول کرنے سے انکار کرتے ہوئے عاشور کے دن فرمایا:

> «أَلَا وَ إِنَّ الدَّعِیَّ ابْنَ الدَّعِیِّ قَدْ رَکَزَنِی بَیْنَ السِّلَّةِ وَ الذِّلَّةِ، وَ هَیْهَاتَ مِنَّا الذِّلَّةُ»

"اس پسرِ ناپاک نے مجھے تلوار اور ذلت کے بیچ لا کھڑا کیا ہے، لیکن ہم ذلت کو ہرگز قبول نہیں کرتے۔"

امام حسینؑ چاہتے تھے کہ امتِ اسلامیہ ہر قسم کی غلامی، مصلحت پسندی، اور جابروں کے سامنے جھکنے سے انکار کرے۔ «مَنْ رَأَى سُلْطَاناً جَائِراً... فَلَمْ يُغَيِّرْ عَلَيْهِ بِقَوْلٍ وَ لَا فِعْلٍ كَانَ حَقّاً عَلَى اللَّهِ أَنْ يُدْخِلَهُ مَدْخَلَهُ»

(الإمام الحسینؑ، خطبہ مقامِ بیضہ)

جو کوئی جابر حاکم کو ظلم کرتا دیکھے اور خاموش رہے تو خدا پر واجب ہے کہ اسے بھی اسی انجام سے دوچار کرے۔

🔹 دوم: حسینؑ وحدتِ امت کا تصور حق و عدل پر استوار دیکھنا چاہتے ہیں

آج امت اسلامیہ فرقہ واریت، مذہبی تعصبات اور منافقت میں گرفتار ہے۔ امام حسینؑ چاہتے ہیں کہ مسلمان قرآن کو محض طاق پر نہ رکھیں بلکہ آئینِ زندگی بنائیں، اور اتحاد کو حقانیت، عدل اور محبتِ اہل بیتؑ کی بنیاد پر قائم کریں۔

🔹 سوم: حسینؑ ایسا اسلام چاہتے ہیں جو عمل سے روشن ہو

امام حسینؑ نے فرمایا: «إِنَّمَا خَرَجْتُ لِطَلَبِ الْإِصْلَاحِ فِي أُمَّةِ جَدِّي... أُرِيدُ أَنْ آمُرَ بِالْمَعْرُوفِ وَ أَنْهَى عَنِ الْمُنْكَرِ»

"میں اپنے نانا کی امت کی اصلاح کے لیے اٹھا ہوں تاکہ امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا فریضہ انجام دوں۔"

امامؑ آج بھی چاہتے ہیں کہ نماز تقویٰ سکھائے، روزہ صبر کا مظہر ہو، اور حج عبادت کے ساتھ ساتھ وحدتِ امت کی علامت ہو۔

🔹 چہارم: حسینؑ فکری بیداری کی تحریک چاہتے ہیں

کربلا جمود و جہل کے خلاف قیام کا نام ہے۔ امام حسینؑ چاہتے ہیں کہ ہماری نئی نسل علم، شعور، تنقیدی فکر اور حقیقی اسلامی تعلیمات کے ساتھ آگے بڑھے:

"آج مرضیٔ حسینؑ یہ ہے کہ قوم علیؑ کے منہج، باقرؑ کی فقہ، صادقؑ کی عقل، اور سجادؑ کی تہذیب پر لوٹے۔"

🔹 پنجم: حسینؑ کا مقصد صرف یاد نہیں، زندہ حقیقت بننا چاہیے

امام صادقؑ کا فرمان ہے: «أحیوا أمرنا، رحم الله من أحيا أمرنا»

"ہمارے امر کو زندہ رکھو، خدا کی رحمت ہو اس پر جو ہمارے مقصد کو زندہ رکھے۔"

امام حسینؑ چاہتے ہیں کہ:

ان کی یاد سالانہ رسمی گریہ و ماتم تک محدود نہ ہو؛

شعائرِ حسینی، تربیت اور بیداری کا مرکز ہوں؛

عزاداری، حق پرستی، مظلوم کی حمایت اور ظالم سے نفرت کی تحریک بنے۔

🔹 کربلا ایک دائمی پیغام ہے

کربلا محض ایک تاریخی واقعہ نہیں، بلکہ ہر اس انسان کے لیے ایک زندہ سوال ہے جو حق و عدل کے ساتھ جینے کا ارادہ رکھتا ہو۔ امام حسینؑ نے دفن ہونے کے لیے نہیں، امت کو بیدار کرنے کے لیے شہادت کو گلے لگایا۔

اگر امام حسینؑ آج دوبارہ سوال کریں: «هَلْ مِنْ نَاصِرٍ يَنْصُرُنِي؟»

تو اس کا مطلب تلوار اٹھانے کی دعوت نہیں، بلکہ شعور بیدار کرنے کی صدائے انقلاب ہے۔

نتیجہ: حسینؑ ہمیں ہماری اصل کی طرف پلٹانا چاہتے ہیں

امام حسینؑ چاہتے ہیں کہ امت اسلامیہ:

اپنی شناخت کو پہچانے

دین کو صرف رسم نہ سمجھے

قرآن کو آئینِ عمل بنائے

اور "خير أمة أُخرجت للناس" کی عملی تصویر بنے۔

«السَّلامُ عَلَى الحُسَیْنِ، وَعَلَى عَلِیِّ بْنِ الحُسَیْنِ، وَعَلَى أَوْلادِ ال

حُسَیْنِ، وَعَلَى أَصْحَابِ الحُسَیْن»

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha